قبلۂ اول مسلمانان عالم کی زبوں حالی پر نوحہ کناں... نواب علی اختر

مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے بانی انقلاب اسلامی کے فرمان پر جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس منایا جاتا ہے۔

بیت المقدس
بیت المقدس
user

نواب علی اختر

بیت المقدس کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدس کے لیے یہ امر کافی ہے کہ اسے مسلمانان عالم کے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ خدا کے اس مقدس گھر کی جانب رخ کرکے اولین و سابقین مومنوں نے امام المرسلین کی پیشوائی میں نماز ادا کی۔ خداوند قدّوس نے اپنے محبوب کو معراج پر لے جانے کے لیے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا۔ جب سے اس کی بنیاد پڑی ہے خاصان خدا بالخصوص پیغمبروں نے اس کی زیارت کو باعث افتخار جانا ہے۔

بیت المقدس بارگاہ خدا وندی کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکز اول ہے جن کے سجدوں نے انسانیت کو ہزار سجدے سے نجات دلادی لیکن افسوس صد افسوس کہ جو بیت المقدس مدت مدید سے خداجو افراد کے واسطے خدا نما ثابت ہوا،جس نے پریشان فکروں کو مجتمع کر کے مسلمانوں کو مختلف الجہتی اور پراگندگی سے بچایا، جس نے فرزندان تو حید کی قوت بندگی کو قائم کیا،جس کی بنیاد خدا کے ایک برگزیدہ پیغمبر نے رکھی ہو و ہی قبلہ اول آج صیہونیت کے نرغے میں ہے اور بزبان حال دنیا کے تمام مسلمانوں سے اپنی بازیابی کا مطالبہ کررہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی زبوں حالی پر نوحہ کناں بھی ہے۔


اسلام کا سورج طلوع ہونے کے بعد بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول قرار پایا۔ جس کی طرف ہمارے آقا رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ اس لئے تاریخی حیثیت سے بیت المقدس اسلام کی عظیم الشان تاریخی آثار و باقیات کا ایک اہم جز ہے جس سے کوئی مسلمان دستبردار نہیں ہو سکتا۔ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں اگر موجودہ صورت حال کا منطقی تجزیہ کیا جائے تو اسرائیل کی عسکری طاقت کوئی ایسی ناقابل تسخیر قوت نہیں کہ جسے مسلمانوں کے آپسی اتحاد سے اس کے غرو رو نخوت کو خاک میں نہ ملا یا جا سکے۔ اس مسئلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کے درمیان آپسی نا اتفاقی اور زیادہ تر مسلکی اختلافات ہیں جو انھیں صیہونیوں کا ایک پھیلایا ہوا جال ہے جس میں مسلمان الجھ کر رہ گیا ہے۔

بہرحال اسرائیل آزادیٔ قدس و فلسطین کے سرخیلوں کو ٹھکانے لگانے کے پلان پر عمل پیرا ہے اور آزادی پسند فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ کر نے پر کمر بستہ ہے۔ اس کا زندہ ثبوت غزہ کا طویل مدتی محاصرہ ہے۔ جس کی وجہ سے غزہ ایک عرصے سے انسانی بحران سے دوچار ہے۔ ڈیڑھ ملین نفوس پر مشتمل ایک انسانی بستی کھلی قید میں مقید ہے، بنیادی سہولیات مفقود ہیں۔ پوری دنیا سے تمام قسم کی ارتباطی راہیں مسدود ہیں۔بے سرو سامانی کے عالم میں اہلیانِ غزہ کا ایک ایک لمحہ بھاری ہے۔


ایک چھوٹی سی قوم نے اقوامِ عالم کو اپنے فریب کاریوں کے دام میں اسیر کر لیا ہے۔حتیٰ کہ امت مسلمہ جیسی عظیم ملت بھی اس کی چالبازیوں کے سامنے فی الوقت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ قابل ستائش بات یہ ہے کہ ایک جانب اگر بیت المقدس کے قرب و جوار میں اسرائیلی حکومت نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا تاکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم اور بیت المقدس کی بازیابی کے ارادے سے باز آجائیں تو دوسری جانب حضرت ابراہیم کی سنت کی تقلید میں سینکڑوں فلسطینی والدین نے اپنے لخت ہائے جگر قبلہ اول کی تقدیس میں قربان کئے۔

فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں ہے۔ یہ تاریکی اور برائی کے خلاف لڑنے کی مشعل کو روشن کرتا ہے اور ان تمام شہداءکی میراث ہے جو طاقت اور منافع کی منطق کی پاسداری نہیں کرتے۔فلسطین صرف مسلمانوں کا نہیں ہے۔ اگرچہ صہیونی اسے حریف مذاہب کے درمیان جنگ کے طور پر دکھانا چاہتے ہیں، فلسطین مقدس الہٰی مذاہب سے تعلق رکھتا ہے اور تمام انصاف اور آزادی کے متلاشی اس کے شہری ہیں۔ واضح رہے کہ مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ کے فرمان پر جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس منایا جاتا ہے۔


اس مسئلے کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے عظیم رہنما اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی نے اپنے انقلاب کی بنیاد نہ صرف اسی مسئلے پر رکھی بلکہ انقلاب کے بعد اسی کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ امام خمینی کی نظر میں بیت المقدس باطل کے خلاف ایک فروزاں علامت ہے جسے راہ حق میں جدوجہد کرنے والے اپنے لئے مینارۂ ہدایت سمجھتے ہیں لیکن امت اس مسئلے کو شایانِ شان مقام دینے میں ابھی تک کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ اگر قدس اور اس جیسے جملہ ملی مسائل کو امت مسلمہ واقعاً سنجید گی سے لے لیتی تو عالم کی نو عیت کچھ اور ہوتی۔ جب کوئی کسی ایسے مسئلے کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو جان لیجئے وہ اپنے دشمن کو غیر شعوری طور یہ پیغام دیتا ہے کہ اس ملت کے ساتھ کسی بھی قسم کی دست درازی آسان ہے۔

بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس منانے کا تاریخ سازاعلان کیا، جسے ناصرف عالم اسلام بلکہ تمام مظلومین جہان اور حریت پسند عوام میں پزیرائی ملی۔ عالمی یوم القدس کا مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور اسے پس پشت ڈالنے کی سازش کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ہے، جس کا کریڈٹ امام خمینیؒ کو جاتا ہے جنہوں نے بحیثیت بانی انقلاب اسلامی کے مسئلہ فلسطین کو اپنی بنیادی پالیسی میں کلیدی حیثیت دے کر عظیم کارنامہ سرانجام دیا اوراسی حکمت عملی کی وجہ سے مسئلہ فلسطین آج بھی عالمی سطح پر زندہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔