رمضان میں سحر و افطار کی اطلاع: توپ، نقارہ، سائرن سے موبائل ایپس تک کا سفر... عمران خان
رمضان میں افطار اور سحری کی اطلاع دینے کے طریقے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ اذان، توپ داغنے، جنتریوں، سائرن اور اب موبائل ایپس کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے، مگر لوگ اب بھی مسجد کے اعلان کو حتمی مانتے ہیں۔

علامتی تصویر، اے آئی
رمضان المبارک دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے نہایت بابرکت مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں عبادت، روزے اور روحانی پاکیزگی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ روزے کی پابندی کے لیے وقت کی درستگی انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اسی لیے سحر و افطار کے اوقات کی اطلاع دینے کے لیے ہر دور میں کچھ خاص طریقے اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ طریقے وقت کے ساتھ نہ صرف بدلے ہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث مزید سہل اور موثر ہو گئے ہیں، تاہم روایت سے جڑے رہنے کا جذبہ اب بھی باقی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں افطار اور سحر کی اطلاع کے لیے اذان ہی بنیادی ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ اس وقت حضرت بلال حبشیؓ کی اذان سن کر مسلمان افطار اور سحری کرتے تھے۔ بوقت فجر حضرت ابنِ اُمِ مکتومؓ بھی اذان دیتے، تھے جو سحری ختم ہونے کی آخری تنبیہ ہوتی۔ لوگ اسی اذان کو بنیاد بنا کر کھانے پینے سے ہاتھ روک لیتے اور روزے کا آغاز کرتے۔ اس دور میں کوئی نقارہ یا توپ داغنے کا رواج نہیں تھا، بلکہ محض اذان اور طلوعِ فجر یا غروبِ آفتاب کے مشاہدے پر اکتفا کیا جاتا تھا۔
خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ کے دور میں رمضان میں سحر اور افطار کی اطلاع کے لیے توپ داغنے کی روایت قائم ہوئی۔ یہ طریقہ سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں اپنایا گیا، جہاں توپ کے دھماکے سے لوگ سحر و افطار کا وقت جان لیتے تھے۔ بعد ازاں دمشق، استنبول اور بغداد سمیت دیگر اسلامی علاقوں میں بھی یہ رواج عام ہو گیا۔ توپ داغنے کا مقصد دور دراز علاقوں تک آواز پہنچانا تھا تاکہ لوگ آسانی سے روزے کے اوقات سے باخبر ہو سکیں۔
برصغیر کی بات کریں تو یہاں رمضان کے دوران اطلاع دینے کے مختلف روایتی طریقے رائج رہے ہیں۔ مثلاً پرانے وقتوں میں مساجد میں سحر اور افطار کے وقت نقارہ بجا کر لوگوں کو اطلاع دی جاتی تھی۔ نقارہ ایک روایتی ساز ہے جو بڑے ڈھول کی شکل کا ہوتا ہے۔ اسے عام طور پر دھاتی یا لکڑی کے فریم میں جانور کی کھال تان کر تیار کیا جاتا ہے۔ نقارے کو ڈنڈے یا لکڑی کی چھڑیوں سے بجایا جاتا ہے، جس سے گونج دار آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کی آواز دور تک سنی جاتی تھی اور لوگ اسی کے مطابق روزہ کھولتے یا سحری ختم کرتے تھے۔
اس کے علاوہ برصغیر کے بعض علاقوں میں گولہ داغ کر یا پٹاخہ چھڑا کر بھی روزہ افطار اور سحری کے ختم ہونے کی اطلاع دینے کا رواج تھا۔ کچھ علاقوں میں اس کام کی ذمہ داری ’تیرگران‘ برادری کے لوگ سنبھالتے تھے۔ یہ طریقہ آج بھی کچھ علاقوں میں قائم ہے، بالخصوص دیہات یا چھوٹے قصبوں میں۔
رمضان میں جنتریاں (کیلنڈر) چھپوا کر تقسیم کی جاتی تھیں، جن میں مخصوص علاقے کے مطابق سحر و افطار کے اوقات درج ہوتے تھے۔ جنتریوں کا یہ رواج آج بھی کئی علاقوں میں موجود ہے۔ لوگ رمضان سے قبل ہی یہ جنتریاں خرید لیتے ہیں تاکہ پورے مہینے کے اوقات معلوم رہیں۔ کچھ اہل خیر حضرات مساجد میں نمازِ جمعہ کے بعد جنتریوں کی مفت تقسیم بھی کرتے رہے ہیں۔
ماضی میں اردو، ہندی اور دیگر زبانوں کے اخبارات میں رمضان کے اوقاتِ سحر و افطار باقاعدگی سے شائع کیے جاتے تھے۔ لوگ اخبارات کے ذریعے روزانہ کے اوقات جانتے تھے۔ آج بھی بعض اخبارات میں یہ سلسلہ جاری ہے اور اوقات افطار و سحر کی اشاعت کے لیے ایک خاص جگہ متعین ہوتی ہے۔ تاہم اس کا دائرہ محدود ہو گیا ہے کیونکہ موبائل ایپس نے اس ضرورت کو کم کر دیا ہے۔
وقت کے ساتھ سحر اور افطار کی اطلاع دینے کے طریقے بھی جدید ہوتے گئے ہیں۔ دیہات کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی سحر و افطار کے اوقات میں سائرن بجایا جانے لگا، جو دور دراز علاقوں تک سنائی دیتا تھا۔ یہ طریقہ آج بھی مقبول ہے اور لوگ سائرن کو حتمی مانتے ہیں۔
مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان کے ساتھ ساتھ سحر و افطار کا اعلان بھی کیا جانے لگا۔ دیہات میں لوگ مسجد کی اذان کو ہی مستند مان کر روزہ افطار کرتے ہیں۔ جدید دور میں ریڈیو اور ٹی وی پر رمضان کے اوقات نشر ہونے لگے۔ لوگ گھڑیاں ملا کر ان اوقات کے مطابق روزہ رکھتے اور افطار کرتے ہیں۔
آج کے دور میں موبائل ایپس نے سحر و افطار کے اوقات جاننے کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ لوگ ایک کلک پر پورے رمضان کا کیلنڈر دیکھ سکتے ہیں اور الارم سیٹ کر سکتے ہیں۔ موبائل ایپس کے باوجود جنتریاں تقسیم کرنے کا رواج اب بھی برقرار ہے، خاص طور پر دیہات اور چھوٹے شہروں میں۔
اگرچہ موبائل ایپس اور جدید ٹیکنالوجی نے اطلاع دینا آسان بنا دیا ہے، مگر دیہات اور چھوٹے شہروں میں اب بھی مسجد سے ہونے والے اعلان یا سائرن کو حتمی مانا جاتا ہے۔ لوگ موبائل ایپ پر وقت دیکھنے کے باوجود انتظار کرتے ہیں کہ مسجد سے اعلان ہو یا سائرن بجے، تبھی وہ افطار کرتے ہیں۔ یہ روایت سے جڑے رہنے کا ایک خوبصورت اظہار ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے اطلاع دینا آسان بنا دیا ہے، لیکن لوگ آج بھی روایت سے جُڑے رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ رمضان کی یہ روایتیں نہ صرف ہماری ثقافت کا حصہ ہیں، بلکہ روحانی وابستگی کا بھی مظہر ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔