رمضان المبارک کی پُرنور ساعتیں اور قافلہ سحر... سلطان آزاد
افسوس صد افسوس قافلۂ سحر کی روایت آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ عدیم الفرصتی اور جدید تکنیک کے علاوہ موبائل کے دور نے اسے بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

علامتی تصویر، اے آئی
اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات و احسانات میں سے ایک بہت بڑا انعام یہ ہے کہ اس نے رمضان المبارک کا مہینہ ہم لوگوں کو عطا فرمایا۔ اس مہینہ کی یہ خصوصیت ہے کہ مسلمان اگر رمضان کی شرائط کو بخوبی انجام دے تو وہ گناہوں سے پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ ہم لوگوں کی سعادت اور خوش نصیبی ہے کہ یہ مبارک مہینہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو صحت و عافیت کی حالت میں عطا فرمایا اور اس کے روزے رکھنے کی توفیق بخشی۔ ہمیں ثواب اور نیکیوں کے درجات میں کئی گنا اضافہ کا حقدار بنایا گیا۔
رمضان کے مہینہ میں سحری کا مقام بہت بلند ہے۔ بوقت سحری فضائیں روحانی ہوتی ہیں، اور جب سحری کے لیے لوگوں کو بیدار کرنے والا ’قافلۂ سر‘ گزرتا ہے تو پھر ایک سحر انگیزی کا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ قافلۂ سحر اب پرانی باتیں ہو گئی ہیں، کیونکہ اب ملک بھر میں کچھ ہی مقامات ایسے ہیں جہاں سحری میں لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے قافلہ نکلتا ہے۔ ایک وقت تھا جب قافلۂ سحر کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی۔ اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اردو کے کئی اہم شعراء حضرات نے ترانہ سحر لکھا جو قافلہ سحر میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ملک کے کئی علاقوں میں مختلف انجمنوں، اداروں اور قافلہ سالاروں کے ذریعہ ’قافلۂ سحر‘ کا اہتمام کئے جانے کی تاریخ ملتی ہے۔ صوبہ بہار کی مختلف انجمنوں کے ذریعے بھی بوقت سحری قافلہ نکلتا ہے جو ترانۂ سحر سنا کر روح کی تازگی اور بیداری کا پیغام دیتے ہیں۔ ترانۂ سحر میں رمضان کی اہمیت و افادیت اور اس کے دنوں اور راتوں کے فضائل کا بیان ہوتا ہے۔
نغمات سحر میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے جذباتی کیفیتیں پیش کی جاتی ہیں اور جذباتی سطح پر اس کے تین مدارج ہوتے ہیں۔ ایک ماہِ صیام کی مسرت، دوسرا وداع ماہِ مبارک کا ملال، اور تیسرا آمد عید کی خوشی۔ نغمات سحر کے موضوعات اور معنوی خصوصیات کے ساتھ ساتھ صوری جہات پر بھی نظر رہنی چاہیے۔ نغمہ ہونے کی حیثیت سے نغمگی اس کی لازمی شرط مانی جا سکتی ہے۔ جس کے لئے مترنم اور رواں بحر وں کا انتخاب ضروری ہے۔
صوبہ بہار کے مختلف شہروں، قصبوں اور محلوں میں قافلہ سحر کی بات کریں تو راویوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن شہروں، قصبوں اور محلوں کے قافلہ سحر کا ذکر ملتا ہے اُن میں خصوصی طور پر شہر دربھنگہ، مظفرپور، گیا اور پٹنہ کی مختلف انجمنوں کے زیر اہتمام قافلہ سحر کا سلسلہ ساتویں دہائی سے نویں دہائی تک بہت زور و شور سے جاری رہا۔ قافلہ سحر، سحری سے قبل لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے قصیدوں اور نظموں کو کئی لوگ اجتماعی طور پر ترنم کے ساتھ گاتے ہوئے محلے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جاتے ہیں۔ اس طرح قافلہ سحر کا عمل پورا ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ پہلے رمضان سے لے کر چاند ہونے سے قبل تک یعنی پورا مہینہ جاری رہتا ہے۔ پورے شہر میں مختلف انجمنیں قافلہ سحر کے عمل میں پیش پیش رہتی ہیں۔ اس طرح رمضان کے بعد عید کے روز شب میں قافلوں کا مقابلہ ہوتا ہے جس کا اہتمام الگ سے کیا جاتا ہے۔ اس میں کئی اہم ادبی شخصیتیں جج کے طور پر اول، دوم اور سوم درجہ کا قافلہ گردانتے ہیں۔ جنہیں انعامات و اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔
افسوس صد افسوس یہ روایت آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتی گئی۔ عدیم الفرصتی اور جدید تکنیک کے علاوہ موبائل کے دور نے اسے بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ اب سحری کی بیداری کا عمل سیلف (اپنی ذات تک محدود) ہو گیا ہے۔ بیداری کے لیے الارم نے جگہ لے لی ہے، اور مساجد سے بیداری کے اعلانات نے قافلہ سحر کی اہمیت و افادیت کو بالکل ختم کر دیا ہے۔
مظفرپور کے قافلہ سحر میں عام طور سے جن شعرا کرام کے کلام، کلام سحر زیادہ تر استعمال ہوتے تھے ان میں قیصر صدیقی اور مرتضیٰ اظہر رضوی قابل ذکر تھے۔ اسی طرح پٹنہ کے قافلہ سحر میں خصوصی طور پر رمز عظیم آبادی، شاہ متین عمادی، احمد تبسم اور رشید عارفؔ پیش پیش رہے۔ ان لوگوں کے کلام خصوصی طور پر پٹنہ سٹی کے مختلف محلوں میں قافلہ سحر والے زور و شور سے پڑھتے تھے اور پھر عید کی شب مقابلہ قافلہ سحر کا اہتمام ہوتا تھا۔ خاکسار بھی 1978-1977 ء میں پٹنہ سٹی کے محلہ کنگھیا ٹولہ میں منعقدہ مقابلہ قافلہ سحر میں جنوں اشرفی، رشید عارف کے ساتھ بطور جج شامل ہوا تھا۔
قافلہ سحر میں پڑھے جانے والے کلام تو کسی کتاب یا رسالہ میں نہیں ملتے، البتہ قیصر صدیقی کے کلام بعنوان ’زنبیل سحر تاب‘ (ترانۂ سحر) میں ملتے ہیں۔ یہ مجموعہ ترانۂ سحر 2016ء میں شائع ہوا تھا۔ ’ترانہ سحر‘ سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ ماہ مبارک ہے درِ خند کا زینہ
قرآں کا مہینہ ہے یہ رمضاں کا مہینہ
اس ماہ مبارک کی ادا سب سے حسیں ہے
یہ ماہِ عطا ماہِ کرم ماہِ مبیں ہے
اس جیسا کوئی اور مہینہ بھی نہیں ہے
صدقے میں اسی کے یہ زمیں عرشِ بریں ہے
سکھلاتا ہے مومن کو عبادت کا قرینہ
قرآں کا مہینہ ہے یہ رمضاں کا مہینہ
-----
آئینہ دل کو بناتا ہے روزہ
خواہش یہ قابو دلاتا ہے روزہ
-----
دل کوبُرے اعمال سے روزہ دور ہٹائے
خواہش کے شیطان پر روزہ فتح دلائے
-----
تمنا تھی کہ جاتا عرش تک ہمراہ مہماں کے
مری بیچارگی پر میری بے بال و پری روئے
شب غم کے صلے میں صبح عشرت ملنے والی ہے
مگر کیا کیجئے پھر بھی جنونِ عاشق روئے
ترانۂ سحر میں آمد رمضان، پھر وداع رمضان کے فراق اور اس کے ذکر کے بعد عید کا چاند دیکھ کر تہنیتی کلام، جو عموماً عید کے روز یعنی مقابلہ قافلہ سحر میں پڑھا جاتا ہے، شامل ہوتا ہے۔ اس تعلق سے شاعر قیصر صدیقی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مژدۂ شوق ہے بہ صوم کے دیوانوں کو
عہد کا چاند مبارک ہو مسلمانوں کو
دل کے ویرانے میں کھلنے لگے خوشیوں کے گلاب
جامۂ رنگ ملا آج بیابانوں کو
عید کے چاند کو تم چاند نہ سمجھو لوگو
درس دیتا ہے اخوت کا یہ انسانوں کو
رمضان المبارک کی پُرنور ساعتیں، قافلہ سحر اور سحری کے اہتمام کا ذکر شعرائے کرام نے مختلف جہتوں سے کیا ہے۔ جسے نعت، نظم، قصیدہ وغیرہ کے ساتھ کلام کا نام ’نغمات سحر‘ دیا گیا ہے جس کی حیثیت ایک علمی و ادبی فن ہونے کے ساتھ ساتھ اسے عملی فن بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سحر کے نغمات گا کر روزہ داروں کو جگایا جانا، یہ عمل ادبی کے ساتھ مذہبی بھی ہے، جسے کار ثواب جان کر جوق در جوق لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں۔
اس سلسلے کو جاری رکھنا گرچہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر ہر بڑے شہر کے محلوں اور قصبوں کے شعراء حضرات اور انجمنیں ایک بار پھر سے اس عمل کے لیے برسرپیکار ہو جائیں تو نئے طور طریقے سے نوجوانوں کو حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ترغیب دی جا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں قافلہ سحر ایک بار پھر سے نئے انداز میں زندہ ہو سکتا ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ ہوتا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔