فلسطین میں تیسرے انتفاضہ کی شروعات!

اسلامی بیداری کی اس نئی لہر نے اسلامی دنیا کو نئی امید دلا دی ہے، اس لہر کے مزید وسیع ہونے اور پھلنے پھولنے کیلئے ممکنہ خطرات اور رکاوٹوں کو سمجھ کر انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر نواب اختر</p></div>

تصویر نواب اختر

user

نواب علی اختر

7 اکتوبر کو صبح 6.30 (عالمی وقت 03.30) بجے کے قریب فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیل پر یکے بعد دیگرے 5000 راکٹ فائر کرنے کا دعویٰ کیا۔ یہ حملہ اتنا طاقتور تھا کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کو اس حملے کا سراغ تک نہیں ملا۔ اس حملے کے چند گھنٹے میں 100 سے زیادہ اسرائیلی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اتنا ہی نہیں اسی دوران 1000 سے زائد فلسطینی اسرائیل میں داخل ہو گئے اور دو درجن سے زائد اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنالیا۔ یہ 1948 کے بعد اسرائیل میں فلسطینیوں کے داخل ہونے کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ جس کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو یہاں تک کہنا پڑا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس لیے اسے تیسرے انتفاضہ کا آغاز کہا جا رہا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے مقبوضہ فلسطین میں پیش آنے والے واقعات کو تیسری انتفاضہ یا ایک بڑی انتفاضہ کا مقدمہ قرار دیا جا رہا تھا۔ یہ انتفاضہ بیت المقدس سے شروع ہوئی ہے اور بتدریج مغربی کنارے، غزہ اور 1948ء کی فلسطینی سر زمین پر پھیلتی جا رہی ہے۔ انتفاضہ عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے’لرز اٹھنا‘۔ اسرائیل کے خلاف کارروائی اور اس پر بھرپور حملے کو فلسطینی عوام انتفاضہ کہتے ہیں۔ ایسا حملہ جو اسرائیل کو پوری طرح ہلا کر رکھ دے گا۔ اقصیٰ تحریک کے وقت 1987 میں فلسطین میں لفظ ’انتفاضہ‘ کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کا قبلہ اول اور اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ ہے جہاں سے انتفاضہ کا آغاز ہوا تھا۔


مظلوم فلسطینی عوام نے برطانوی استعمار کے ابتدائی دور سے ہی اور اس کے بعد اسرائیل کے قبضے کے دوران ہمیشہ سے مقدس فلسطینی سر زمین کی آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے اور اپنی تحریک کے ہر مرحلے میں جہاد کے طریقہ کار کے بارے میں بھی غور و فکر کیا ہے اور ایک مخصوص طریقہ کار اپنا کر اس کا تجربہ کیا ہے۔ اگرچہ ابتدا میں فلسطینیوں کی جدوجہد کا انداز بے ساختہ اور اجتماعی سرگرمیاں خود بخود انجام پاتی تھیں، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی صورتحال اور دو قطبی نظام سے متاثر ہوتے ہوئے فلسطینی عوام نے بھی اپنی جدوجہد کو منظم کرنا شروع کر دیا اور اپنی جہادی سرگرمیوں کے لے بائیں بازو والی تحریکوں کو اپنا رول ماڈل بنایا۔

فلسطینی قوم نے کچھ عرصہ بعد محسوس کیا کہ یہ طریقہ کار مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے زیادہ مفید نہیں، لہذا ’عرب نیشنل ازم‘ نامی ایک نئی موج سے متاثر ہوئی اور اس کے پرچم تلے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے عالمی سطح پر ایک نیا اسلامی نظریہ متعارف کروایا۔ ایران میں کامیاب ہونے والے اسلامی انقلاب نے مشرق وسطٰی میں بھی ایک نئی نظریاتی فضا قائم کر دی، جس کی بنیاد اسلام پسندی اور اسلام محوری پر استوار تھی۔ فلسطین میں سرگرم جہادی عناصر بھی اس انقلاب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور مقبوضہ فلسطین میں سرگرم اسلامی گروہوں نے اپنی جدوجہد کو مزید تیز کر دیا۔


فلسطین میں اسلام پسند عناصر اسرائیل مخالف جدوجہد کا مرکز و محور بن گئے ہیں۔ یعنی ہر مرحلے میں عوامی نقطہ نگاہ، جدوجہد کے ذرائع اور طریقہ کار، مفید اور اہم ہونے اور نتیجہ بخش ہونے کے لحاظ سے ان کا جائزہ لیا گیا اور گذشتہ تجربات کی روشنی میں نئے مرحلے میں جدید طریقہ کار اور حکمت عملی اپنائی گئی۔ یہ مرحلہ وار تبدیلی اور جہادی تجربات کا ذخیرہ کھلی آنکھوں اور معقول دلائل کی روشنی میں انجام پائے ہیں اور ہر مرحلے میں اخذ کئے گئے جدید طریقہ کار اور نقطہ نظرکا اصل مقصد جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور مفید بنانا تھا۔ لہذا اسرائیل کے خلاف فلسطینی جدوجہد کا ہر مرحلہ عملی اقدامات کی نوعیت، جدوجہد کے طریقہ کار، اندرونی و بیرونی روابط اور موثر عوامل کے لحاظ سے گذشتہ مراحل سے مختلف ہے۔

فلسطین میں آج ہم جس صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں، وہ ایک دھماکہ خیز احتجاجی تحریک ہے، جو فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے فلسطینی سرزمین کے ہر شہر اور قصبے میں شروع کی گئی ہے۔ اس تحریک میں شامل افراد ہر قسم کی سیاسی گروہ بندی سے بالاتر ہو کر جدوجہد میں مصروف ہیں۔ فلسطینی جماعتیں یا تو تاخیر کے ساتھ اس احتجاجی تحریک سے ملی ہیں اور یا پھر فلسطین اتھارٹی اور فتح آرگنائزیشن کی طرح بالکل اس احتجاجی تحریک سے لاتعلق ہیں۔ یعنی اس نئی فلسطینی انتفاضہ کا آغاز کرنے والے اور روح رواں کسی سیاسی جماعت یا گروہ کا حصہ نہ تھے، بلکہ عام فلسطینی نوجوان تھے اور فلسطین کی سیاسی جماعتیں بعد میں اس تحریک میں شامل ہوئیں۔


اس عظیم احتجاجی تحریک کا روح رواں ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے پہلی اور دوسری انتفاضہ کو نہیں دیکھا اور اس میں شامل نہ تھے۔ یہ نوجوان فلسطینی قوم کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو اسلام پسندی کے مرحلے کے بعد جدوجہد کے میدان میں وارد ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے پاس اسلحہ کے طور پر’غلیل‘ اور’چاقو‘ ہے اور انہوں نے غاصب صہیونیوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ صہیونی حکام اور عالمی استعماری قوتیں ان نوجوانوں کو اچھی طرح نہیں جانتیں اور ان کے طریقہ کار سے بھی ناواقف ہیں۔ اگر گذشتہ دو انتفاضہ میں فلسطین کی سیاسی جماعتیں اور گروہ آگے آگے تھے تو اس نئی انتفاضہ میں بہترین حالت یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اور گروہ نئی احتجاجی تحریک کی حمایت کریں۔

فلسطین میں جاری تیسری انتفاضہ ایک ایسے وقت معرض وجود میں آئی ہے، جب فلسطینی عوام گذشتہ پانچ برس کے دوران خطے میں نمودار ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک اور اس کے بعد تکفیری دہشت گرد عناصر اور اس کے حامیوں کے پست اقدامات کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک اور اس کے بعد تکفیری فتنے نے خطے کے عرب حکمرانوں کے چہروں سے نقاب ہٹا کر ان کا اصلی چہرہ واضح کر دیا ہے اور فلسطینی عوام دیکھ چکے ہیں کہ مفاد پرست عرب حکمران اپنی کثیر رخی پالیسی کے تحت غاصب اسرائیل کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ملائے ہوئے ہیں اور مظلوم فلسطینی شہریوں کی قتل و غارت میں برابر کے شریک ہیں۔


تیسری انتفاضہ کی صورت میں ظاہر ہونے والی نئی سماجی تحریک درحقیقت اس نظریاتی انقلاب کا شاخسانہ ہے، جس نے اپنا تعلق تکفیریت، رجعت پسند عرب حکمرانوں اور ان کی حامی مغربی طاقتوں سے قطع کر لیا ہے اور فولادی ارادے سے اپنے مقامی طریقہ کار کے ذریعے اسرائیل کے سامنے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اسلامی بیداری کی اس نئی لہر نے اسلامی دنیا کو نئی امید دلا دی ہے۔ اس لہر کے مزید وسیع ہونے اور پھلنے پھولنے کیلئے ممکنہ خطرات اور رکاوٹوں کو سمجھ کر انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔