اعلیٰ تعلیم کا برا حال! تنخواہ کم، کام زیادہ... اجیت راناڈے
جب اساتذہ کی تقرری ضرورت سے کم ہوتی ہے تو اس کا نقصان طلبا اور سسٹم دونوں کو ہی ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے 22 اگست کو گجرات کے سرکاری انجینئرنگ کالجوں میں ٹھیکہ والے اساتذہ کی کم تنخواہ سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کی۔ جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس جوئے مالیہ باگچی کی بنچ نے کہا: ’’یہ فکر انگیز ہے کہ اسسٹنٹ پروفیسرز کو 30 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست اس معاملے پر غور کرے اور ان کے کاموں کی بنیاد پر تنخواہ کا ڈھانچہ تیار کرے۔‘‘
ٹھیکہ پر مقرر اسسٹنٹ پروفیسرز کی تنخواہ میں 2012 سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، جبکہ یکساں تعلیمی کاموں کے لیے مقرر مستقل پروفیسرز کو 1.2 لاکھ سے 1.4 لاکھ روپے ماہانہ، یعنی 4 گنا زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہ ایک ہی ادارہ میں یکساں کام کے لیے یکساں تنخواہ والے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
ٹھیکہ پر تقرر اساتذہ کو مستقل اساتذہ کی طرح کوئی بھی فائدہ (مثلاً صحت بیمہ، تعطیل مع تنخواہ یا پنشن) نہیں ملتا۔ عدالت نے کہا کہ عوامی تقاریب میں ’گروربرہما گرور وِشنو گرور دیو مہیشورہ‘ کا پاٹھ کرنا ہی کافی نہیں۔ بینچ نے کہا کہ ’’اگر ہم اس (پاٹھ) پر یقین کرتے ہیں، تو یہ ملک کی جانب سے اپنے اساتذہ کے ساتھ کیے جانے والے برتاؤ میں بھی دکھائی دینا چاہیے۔‘‘
مستقل اساتذہ کا کام ٹھیکہ والے اساتذہ کے ذریعہ ایک چوتھائی تنخواہ پر کرنا عدم مساوات کی واحد داستان نہیں ہے۔ ملک میں اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات ہے جز وقتی اساتذہ کی ’کلاک آور بیسس‘ (سی ایچ بی) بنیاد پر تقرری۔ جب یونیورسٹیوں اور کالجوں کو منظور شدہ عہدوں کو مستقل تقرریوں سے بھرنے کی اجازت نہیں ملتی، تو وہ ’سی ایچ بی‘ بنیاد پر اساتذہ کی تقرری کا سہارا لیتے ہیں۔
رواں سال جولائی کے اعداد و شمار کے مطابق 46 مرکزی یونیورسٹیوں میں کُل 18,951 منظور شدہ فیکلٹی عہدوں میں سے 26 فیصد خالی ہیں۔ ریاستی یونیورسٹیوں میں حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ راجستھان کی 16 یونیورسٹیوں میں 2,512 منظور شدہ عہدوں میں سے 1,597 خالی ہیں۔ ان میں سے 5 ریاستی یونیورسٹیاں بغیر کسی مستقل فیکلٹی ممبر کے چل رہی ہیں، جیسا کہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
مہاراشٹر میں کالج اور یونیورسٹیاں سی ایچ بی اساتذہ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں، کیونکہ بھرتی ضرورت سے بہت کم ہے۔ 53,178 منظور شدہ عہدوں میں سے تقریباً 7,000 خالی ہیں۔ 11 ریاستی یونیورسٹیوں میں سے کم از کم 5 میں 60 فیصد سے زیادہ تدریسی عہدے خالی ہیں۔ ان میں ممبئی، پُونے اور کولہاپور یونیورسٹی شامل ہیں۔ سی ایچ بی اساتذہ کو فی لیکچر صرف 800-400 روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے اور ایک استاد کو مہینے میں زیادہ سے زیادہ 30 لیکچر مل سکتے ہیں اور انہیں اس کے علاوہ کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ غیر متوقع کام کے بوجھ اور دوبارہ تقرریوں کے سالانہ جائزے کے باعث ان کی ملازمت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ مجموعی طور پر ان کی حالت روزانہ مزدوروں جیسی ہے۔
بامبے یونیورسٹی و کالج ٹیچر ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری چندر شیکھر کلکرنی نے خبردار کیا کہ ’’سی ایچ بی عہدوں کو معمول بنا کر حکومت اعلیٰ تعلیم کو غیر رسمی بنا رہی ہے۔ اس سے تدریسی پیشہ کی عزت ختم ہو رہی ہے۔‘‘ اس مسئلے کا ایک منفی نتیجہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا پھیلاؤ ہے، جو بذاتِ خود کوئی بُری بات نہیں، جب تک کہ ان کا ضابطہ ٹھیک سے نہ ہو اور وہ عام لوگوں کی پہنچ سے باہر نہ ہو جائیں۔ ریاست کی محدود ضابطہ سازی کی صلاحیت اور نگرانی کے باعث، پرائیویٹ کالجوں کے اساتذہ کے لیے بھی حالت مایوس کن ہو سکتی ہے۔
کم تنخواہ پانے والے، کم تربیت یافتہ اور غیر محفوظ اساتذہ پر بڑھتا ہوا انحصار طویل مدتی تعلیمی سرمایہ کاری، تحقیق اور رہنمائی کے لیے ترغیب کو کم کر چکا ہے۔ کئی کالجوں میں مستقل اساتذہ انتظامی کرداروں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جبکہ روزمرہ تدریس کا کام سی ایچ بی انسٹرکٹرز پر چھوڑ دیا جاتا ہے، جو کئی کالجوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہوتے ہیں۔ اساتذہ کی کمی کا بحران سرکاری تعلیم میں اعتماد کے زوال سے اور بھی بڑھ گیا ہے۔
حیرت نہیں کہ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں سے طلبا کا پرائیویٹ کالجوں میں انخلا ہو رہا ہے۔ اسی طرح سرکاری اسکول بھی خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ 26 اگست کو جاری جامع ماڈیولر سروے’تعلیم 2025‘ کے مطابق شہری ہندوستان میں 30 فیصد طلبا سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خوشحال علاقوں میں میونسپل اسکول میں داخلہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کچھ اسکولوں کو آنگن واڑی کے طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے یا بند کر دیا گیا ہے۔
تقریباً 54 فیصد شہری داخلے غیر امداد یافتہ اسکولوں میں ہیں۔ اس تبدیلی کے باعث عوامی بنیادی ڈھانچے کا کم استعمال ہوا ہے، جبکہ میونسپل بجٹ آدھے خالی اسکولوں کو مالی امداد دینا جاری رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جولائی میں مہاراشٹر بھر کے جونیئر کالجوں میں داخلہ کے لیے مچی بھگدڑ کے درمیان یہ اطلاع ملی کہ ریاست کے ذریعہ پوری طرح مالی امداد یافتہ 300 کالجوں کو ایک بھی درخواست نہیں ملی۔ ان کالجوں کو ملازمین اور اساتذہ کی تنخواہ کے لیے گرانٹ ملتی ہے، لیکن یہاں ایک بھی طالب علم نہیں۔ یہ انکشاف اتنا چونکا دینے والا تھا کہ بامبے ہائی کورٹ نے اس معاملے میں از خود نوٹس لیتے ہوئے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ غیر مستحکم عوامی تعلیمی نظام نے ’سایہ اسکول‘ والی معیشت کو تیزی سے فروغ دیا ہے، جہاں قومی سطح پر ہر 3 میں سے ایک طالب علم پرائیویٹ ٹیوشن لیتا ہے۔ شہری علاقوں میں پرائیویٹ اسکول کے 98 فیصد طلبا کوچنگ کا سہارا لیتے ہیں۔
اساتذہ کی کمی، ٹھیکہ پالیسی اور ’سایہ تعلیم‘ کے اثرات ہندوستان کی طویل مدتی مسابقت کے لیے تباہ کن ہیں۔ اس سے سیکھنے کے نتائج خراب ہوتے ہیں اور افرادی قوت کی مہارت میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ ملازمین کی جانب سے لگاتار مہارت کی کمی کی شکایت کے باعث نصاب مایوس کن حد تک پیچھے رہ گئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کالج تعلیم یافتہ نوجوانوں (24 سے 29 عمر کے گروپ) میں بے روزگاری کی شرح 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ کالج سے نکلے نئے فارغ التحصیل ملازمت پانے میں ناکام ہیں، یہ اعلیٰ تعلیم کے وعدوں میں چھپا ہوا تضاد ہے۔
جنریٹیو اے آئی شعبے کو ہی لے لیجیے۔ ٹیم لیس ڈیجیٹل کے مطابق ہر 10 خالی عہدوں کے لیے صرف ایک اہل انجینئر موجود ہے۔ الیکٹرانک مینوفیکچرنگ شعبہ، خاص طور پر اسمارٹ فون پیداوار میں، بلیو کالر مزدوروں اور ماہر انجینئروں، دونوں کی کمی ہے۔ اس جس کا مطلب ہے کہ ’میک ان انڈیا‘ کا خواب مسلسل کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔
آگے کا راستہ بالکل صاف ہے: تمام اساتذہ کی خالی جگہوں کو فل ٹائم تقرریوں سے پُر کریں، سی ایچ بی عہدوں کو پیشہ ورانہ بنائیں اور ’یکساں کام کے لیے یکساں اجرت‘ کے اصول کو نافذ کریں، اساتذہ کی تربیت میں سرمایہ کاری کریں، نصاب کو اپڈیٹ کریں اور سرکاری اسکولوں، کالجوں و یونیورسٹیوں میں اعتماد بحال کریں، اس کی جڑوں کو مضبوط کریں۔
سپریم کورٹ کی یہ تنبیہ موجودہ حالات کے لحاظ سے بہت اہم ہے کہ ’’جو معاشرہ ’اساتذہ کو ملک کی فکری ریڑھ‘ ماننے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا، وہ علم پر مبنی معیشت تشکیل نہیں دے سکتا۔ اگر بنیاد کمزور ہے، تو عمارت بھی کمزور ہی ہوگی۔‘‘ اساتذہ میں سرمایہ کاری کرنا مستقبل میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ فوری اصلاحات کے بغیر مراعات یافتہ طلبا اور پسماندہ لوگوں کے درمیان خلیج مزید گہری ہو جائے گی، جس سے ہندوستان کا آبادیاتی فائدہ اور طویل مدتی ترقی خطرے میں پڑ جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔