بیمار ہی صحیح لیکن مضبوطی سے دھڑک رہا جمہوریت کا دل...اشوک سوین
عام انتخابات نے بلاشبہ مودی کی طاقتور حکمرانی کی پیش قدمی کو روکا ہے مگر اداروں کی آزادی سے لے کر میڈیا کی غیر جانبداری تک ہندوستان کی جمہوری ساخت کی کمزوریاں گہری تشویش کا سبب بنی ہوئی ہیں

تقریباً دو دہائیوں سے جمہوریت کے بارے میں عالمی بیانیہ یہی رہا ہے کہ اس میں زوال آ رہا ہے۔ کبھی حکمرانی کا ایک مضبوط طریقہ سمجھا جانے والا نظامِ جمہوریت دنیا کے مختلف کونوں میں لڑکھڑا گیا ہے، جس سے اقتدار پرستی، عوامی مقبولیت کی سیاست اور عدم رواداری کی مشقوں کو فروغ ملا ہے۔ تاہم، 2024 میں کچھ ایسی تبدیلیاں ضرور آئیں جنہوں نے امید کی ایک کرن دکھائی اور جن سے ثابت ہوا کہ دنیا میں بلاشبہ جمہوریت کمزور ہوئی ہے، پھر بھی اس میں لچک کی ایک اندرونی صلاحیت موجود ہے۔
سینیگال، جنوبی کوریا اور ہندوستان میں یہ لچک زیادہ نمایاں رہی۔ ان تینوں ممالک نے جمہوری رواداری کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اور ان سے ادارہ جاتی طاقت، شہری شمولیت اور انتخابی سیاست کی اہمیت ثابت ہوئی۔ ہندوستان میں 2024 کا عام انتخاب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جمہوریت کے وجود کے لیے ایک اہم لمحے کے طور پر ابھرا۔
ساحلی علاقہ (صحرائے صحارا اور صحرائے سوانا کے درمیان شمالی وسطی افریقہ کا علاقہ) میں جمہوریت کی پستی انتہائی تشویشناک ہے۔ یکے بعد دیگرے فوجی بغاوتوں نے پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔ پھر بھی، سینیگال نے 2024 میں پرامن انتخابات اور اقتدار کی منتقلی کے ساتھ اس رجحان کو چیلنج کیا۔ جنوبی کوریا میں صدر کی طرف سے مارشل لاء نافذ کرنے کی کوشش میں جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہوا لیکن ادارہ جاتی مضبوطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اراکین نے اس فیصلے کو واپس کر دیا اور عوامی مزاحمت کے باوجود فوج کو اپنے بیرکوں میں واپس بھیج دیا۔
شاید 2024 میں جمہوریت کی لچک کا سب سے مؤثر مظاہرہ ہندوستان سے آیا۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہندوستان نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کی قیادت میں جمہوریت کے تانے بانے کو مسلسل کمزور ہوتا دیکھ رہا ہے۔ 2014 سے لوک سبھا میں اکثریت کے ساتھ مودی حکومت نے اکثریتی قوم پرستانہ اور غیر جمہوری پالیسیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ صحافت کی آزادی کو محدود کرنے سے لے کر عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے اور اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے تک، جمہوریت کی زوال کے آثار واضح ہو گئے تھے۔
2024 کا عام انتخاب وسیع پیمانے پر ہندوستان کے جمہوری مستقبل کے حوالے سے ایک عوامی رائے شماری کے طور پر دیکھا گیا۔ مودی اور بی جے پی نے جارحانہ انداز میں انتخابی مہم چلائی اور عوام سے نہ صرف دوبارہ پارلیمانی اکثریت بلکہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی اپیل کی تاکہ انہیں ہندوستان کے سیکولر آئین میں تبدیلی کا موقع مل سکے۔ اگر مودی اور بی جے پی کو ایسا ہی اکثریتی ووٹ مل جاتا تو ملک کے جمہوری تشخص میں گہرائی سے تبدیلی آ جاتی۔ ہندوستانی عوام نے اس کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور بی جے پی لوک سبھا میں سادہ اکثریت بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں مودی کو ایک مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس انتخابات میں راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی ایک اہم بحالی بھی دیکھی گئی۔ کانگریس نے اپنی نشستوں کو تقریباً دوگنا کر لیا اور اس سے گاندھی کو اپوزیشن کے رہنما کا عہدہ ملا اور پارلیمنٹ میں اختلافات اور بحث کے عمل کو نئی زندگی ملی۔
یقیناً مودی حکومت اقتدار میں باقی ہے لیکن 2024 کے انتخابات نے ان کی یکطرفہ حکمرانی کی صلاحیت کو واضح طور پر روک دیا ہے۔ بی جے پی کی قیادت میں طویل عرصے سے ختم ہو چکا پارلیمانی کنٹرول دوبارہ ابھرا ہے۔ مخلوط حکومت کی مجبوریاں اور مضبوط اپوزیشن نے جوابدہی کی ایک نئی سطح متعارف کرائی ہے جس سے مودی کے پہلے دو ادوار کی نشانی، اکثریتی قوم پرستانہ رجحانات، پر روک لگ گئی ہے۔ ہندوستان کا 2024 کا انتخاب دنیا بھر کے جمہوری ممالک کے لیے کئی اہم سبق فراہم کرتا ہے۔ سب سے پہلے، یہ بتاتا ہے کہ اصل طاقت ووٹرز کے ہاتھ میں ہے۔ ادارہ جاتی چیلنجز—میڈیا کی جانب داری سے لے کر انتخابی پولرائزیشن تک—ووٹرز ستمگرانہ حکمرانی کو روک سکتے ہیں۔ دوسرا، انتخابات نے ایک معتبر اپوزیشن کی اہمیت کو ثابت کیا۔ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی بحالی نے ووٹرز کو بی جے پی کے بیانیے کا ایک عملی متبادل فراہم کیا۔ جمہوریت میں بحث کو فروغ دینے، جوابدہی کو یقینی بنانے اور اقتدار کے چند ہاتھوں میں سمٹنے سے روکنے کے لیے ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
تیسرا، ہندوستان کا تجربہ جمہوریت کی حفاظت کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ 2024 کے انتخابات نے بلاشبہ مودی کے ستمگرانہ رجحانات کو روک دیا ہے، ہندوستان کی جمہوری ساخت میں کمزوریاں—اداروں کی آزادی سے لے کر میڈیا کی غیر جانبداری تک—گہری تشویش کا سبب بنی ہوئی ہیں۔
دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر ہندوستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کا عالمی جمہوری معیارات پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ آگے کا راستہ چیلنجز سے بھرا ہوا ہے لیکن 2024 کے عام انتخابات نے ہندوستان میں جمہوریت کی موت کی پیش گوئی کو بیچ میں ہی روک دیا ہے۔ سینیگال، جنوبی کوریا اور ہندوستان میں لچک کے مظاہرے دنیا بھر میں جمہوریت کے حامیوں کے لیے امید کی کرن ہیں۔ جمہوریت کے لیے جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی، لیکن اس کے لیے ہمیشہ لڑنا ضروری ہوتا ہے۔
(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعہ کی تحقیق کے پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔