کیرالہ کے سیریائی عیسائی ووٹ اور ربڑ کی معیشت؛ ترشور کی سیاست میں تبدیلی اور ووٹ چوری کے الزامات
کیرالہ میں سیریائی عیسائی سیاست اور ربڑ کی معیشت اہم عوامل ہیں۔ ترشور میں بی جے پی کی تاریخی جیت اور انتخابی دھاندلی کے الزامات نے ریاست کی بدلتی سیاست اور اقلیتی ووٹ کے رجحانات کو نمایاں کیا

چھتیس گڑھ کے دُرگ ریلوے اسٹیشن سے 25 جولائی کو جنوبی ہند کے انتہا پسند ہندو عناصر کے اکسانے پر میری اور سسٹر وندنا فرانسس کی گرفتاری نے کیرالہ میں بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا۔ چیرتھلا کے سیرو مالابار چرچ سے وابستہ اس گروپ کی دونوں راہباؤں (نن) پر ہندو تنظیم ’بجرنگ دل‘ کے ایک کارکن نے الزام لگایا کہ وہ اپنے ساتھ سفر کرنے والی کم عمر آدیواسی لڑکیوں کی اسمگلنگ کر رہی ہیں۔ ان پر انسداد جبراً تبدیلی مذہب قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس واقعے پر ان کی آبائی ریاست میں سخت ردعمل ہوا اور چرچ نے مرکزی حکومت سے ان کی رہائی کی اپیل کی۔
بلاسپور کی عدالت نے 2 اگست کو دونوں راہبانؤں کو ضمانت دے دی۔ اس کے بعد معاملے نے سیاسی رنگ اختیار کر لیا۔ حکمران سی پی ایم کے ریاستی سکریٹری ایم وی گووندن نے چرچ کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنے میں اتنی گرم جوشی کیوں دکھائی۔ بعض عہدیدار تو آر ایس ایس کے مقامی دفتر میں کیک لے کر بھی پہنچ گئے۔ گووندن نے اس رویے کو فسطائیت قرار دیا۔ انہوں نے خاص طور پر آرچ بشپ مار جوزف پمپلانی پر نشانہ لگاتے ہوئے انہیں موقع پرست اور عیسائیوں پر ہندو انتہا پسند حملوں کے تئیں دوہرے رویے کا حامل قرار دیا۔
چرچ نے اپنے دفاع میں گووندن کے بیان کو ’دوئم درجے‘ کا قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیا اب چرچ کو ہر بات کہنے سے پہلے اے کے جی سینٹر (سی پی ایم ہیڈکوارٹر) سے اجازت لینی پڑے گی؟ صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی کے تئیں نرمی جیسے کسی بھی الزام پر چرچ نہایت حساس اور محتاط ہے۔
کیرالہ میں عیسائی نہ صرف ایک بڑی اقلیتی برادری ہیں بلکہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی کامیاب ہیں۔ پچھلی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی 18.38 فیصد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق رومن کیتھولک چرچ کی تسلیم شدہ تنظیم ’سیریئن آرتھوڈوکس چرچ‘ کی مختلف شاخوں سے ہے۔ مانا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے ایک حواری سینٹ تھامس کیرالہ آئے تھے اسی لیے انہیں سینٹ تھامس عیسائی کہا جاتا ہے۔ یہاں ’سیریائی‘ کا مطلب نسلی نہیں بلکہ محض تاریخی و مذہبی تعلقات سے ہے۔ یہ عیسائی مکمل طور پر ملیالی ہیں۔ باقی عیسائیوں میں لاطینی (رومن کیتھولک) اور چند پروٹسٹنٹ شامل ہیں۔
زمین و جائیداد سے مالا مال پس منظر والے سیریائی عیسائیوں کا ریاستی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ اپنے قدامت پسند رجحان کے سبب یہ روایتاً کانگریس کے حمایتی مانے جاتے ہیں۔ تاہم سیاست اور اقتدار کے ساتھ چرچ کا تعلق بدلتی ہوئی آبادیاتی صورتحال اور ہجرت کے رجحان کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔
چرچ اور اس کا سیکولر سیاسی شعبہ ’کیرالہ کانگریس‘ ریاست میں کانگریس قیادت والے محاذ کے قریب ہے، مگر بی جے پی سے بھی تعلقات قائم رکھنے اور اسے خوش رکھنے کی محتاط کوشش مسلسل جاری رہی ہے۔ سی پی ایم کے خلاف بی جے پی کی مہمات میں وہ عیسائی طبقے میں خاصی ہمدردی بٹورنے میں کامیاب رہی ہے۔ بی جے پی حامی عیسائیوں کے نزدیک یہ سی پی ایم، خاص طور پر اس کی طلبہ تنظیم ایس ایف آئی کی ’آمریت پسند سیاست‘ کا ایک ضروری توڑ ہے۔
کیرالہ میں خاص طور پر عیسائیوں کے درمیان ایک بڑا سماجی و معاشی تغیر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نوجوان نسل جدیدیت اور ڈیجیٹل دنیا کے اثر میں کھیتی باڑی سے کنارہ کش ہو رہی ہے۔ زمین کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہونے سے متعدد خاندان اپنی جائیداد امیر مسلم تاجروں کو بیچ رہے ہیں، جس سے سماجی سوچ میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ چرچ بھی ان اثرات سے باہر نہیں ہے۔ خاص طور پر جب چرچ کے ایک طبقے نے ’لو جہاد‘ کے خلاف مہم کی حمایت کی تو سی پی ایم اور کانگریس دونوں چونک گئے۔
اس تبدیلی میں کہیں نہ کہیں ربڑ کی معیشت بھی شامل ہے۔ کیرالہ کے ربڑ باغات، جو زیادہ تر سیریائی عیسائیوں کی ملکیت ہیں، کیڑوں کی بیماری اور ربڑ کی گرتی قیمتوں سے زبوں حال ہیں۔ مالکان نئی دہلی سے ربڑ کے کم از کم امدادی قیمت بڑھانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں، جو صرف بی جے پی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ پمپلانی جیسے مذہبی رہنماؤں کی حالیہ پہل اسی کا نتیجہ ہے۔
ترشور میں ووٹ چوری؟
معروف اداکار سُریش گوپی کی 2024 میں ترشور سے لوک سبھا میں جیت بی جے پی کے لیے ایک بڑے قلعے میں شگاف ڈالنے کے مترادف سمجھی گئی۔ اس سے لوگ حیران ہوئے کیونکہ ریاست میں کسی بی جے پی امیدوار کی یہ پہلی جیت تھی۔ یہ کانگریس اور بائیں بازو کے غلبے والی ریاست میں بی جے پی کی بڑھتی ہوئی قبولیت کی علامت بھی تھی۔
ترشور سیٹ جیتنے کے ساتھ بی جے پی نے ریاست میں اپنا ووٹ شیئر 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کر لیا۔ مبصرین کے نزدیک یہ اضافہ بدلتے سیاسی منظرنامے اور چھوٹی ذاتوں پر مرکوز بی جے پی کی ’سبالٹرن ہندو‘ حکمت عملی کی کامیابی تھا اور اس میں عیسائی بالادست طبقے کا بھی تعاون شامل ہونا دلچسپ تھا۔ کیرالہ سینٹرل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جی گوپ کمار کے مطابق عیسائی رسومات میں ہندو عناصر کے امتزاج کو دیکھتے ہوئے عیسائیوں کے لیے ہندو جماعت کی طرف جھکاؤ نہ تو مشکل ہے اور نہ شرمناک۔
تاہم اب ترشور میں ووٹروں کی دھاندلی کے سنگین الزامات نے اس بیانیے پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ شبہ بڑھ رہا ہے کہ کیا بی جے پی کی یہ جیت واقعی دیانت داری سے ہوئی؟ 2024 کے الیکشن سے پہلے بھی کانگریس کارکنوں نے ووٹر رجسٹریشن میں غیر معمولی اضافہ کی طرف توجہ دلائی تھی: جب 1,47,000 نئے ووٹر جُڑے (2019 میں 63,000 کے مقابلے)، جو کیرالہ میں سب سے زیادہ ہے۔
سی پی ایم رہنما تھامس اسحاق کا کہنا ہے، ’’2024 میں پتے پر بھیجا گیا پوسٹ کارڈ بھی رہائش کے ثبوت کے طور پر قبول کیا جا رہا تھا؛ اب آدھار بھی منظور نہیں! 2024 میں کیرالہ میں اوسط ووٹر اضافہ صرف 80 ہزار تھا لیکن ترشور میں یہ 1.45 لاکھ تھا۔ اُس وقت بی جے پی فرضی ووٹر جوڑ رہی تھی، اب (بہار میں) اصل ووٹروں کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘
الزامات کے حق میں کئی شواہد ہیں۔ مثال کے طور پر گوپی کے خاندان کے 11 افراد کے نام ووٹر لسٹ میں شامل کر دیے گئے۔ اونیسری پنچایت کے بوتھ نمبر 69 میں 1432 سے 1563 تک درج تمام ووٹر فرضی تھے (مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق)۔ کئی معاملات میں تارکین وطن کے نام ان کے اصل پتوں پر جوڑ دیے گئے تھے۔ مزید مشکوک بات یہ ہے کہ ترشور میں کوئی بڑی تعمیراتی یا صنعتی اسکیم نہیں تھی جسے مزدوروں کی آمد کا جواز بنایا جا سکے۔
ریاستی الیکشن افسر کا جواب ہمیشہ کی طرح رسمی اور غیر تسلی بخش ہے: سب کچھ ضابطے کے مطابق ہوا اور ویسے بھی شکایت اسی وقت درج کرنی چاہیے تھی۔ بی جے پی کے مطابق ایسی بے ضابطگیاں عام ہیں اور کانگریس کے جیتے ہوئے حلقوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔
مگر اب شاید ایسی بے فکری اور مایوسی کے رویے کا وقت نہیں رہا۔ ریاست میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں اور کانگریس کی ’ووٹ چوری‘ تحریک ملک بھر میں زور پکڑ رہی ہے۔ ایسے میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ آزادی کی قیمت ہمہ وقت چوکسی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔