سپریم کورٹ کا فیصلہ علمائے کرام اور مولوی صاحبان کے حرص وہوس کا نتیجہ

اللہ رب العزت نے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مسجد تعمیر کرنے اور وہاں نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ مسجد میں نماز ادا کرنا لازم اور واجب ہے۔ گھروں میں ( مردوں کے لئے) نماز پڑھنے کو منع کیاگیا۔

دہلی کی جامع مسجد کی فائل تصویر 
دہلی کی جامع مسجد کی فائل تصویر
user

انیس درانی

بابری مسجد اور اس سے ملحق زمینوں کو سرکار کے ذریعہ ایکوائر کرنے کے خلاف اسماعیل فاروقی سپریم کورٹ پہنچے تھے، جیسا کہ 27 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ میں سنائے گئے اس فیصلہ میں رائے رکھنے والے جسٹس عبدالنذیر نے اپنے فیصلہ میں صاف لکھا ہے۔

اللہ بلاشبہ غفور الرحیم ہے۔ رحمن ہے کریم ہے اور اس نے اپنے حبیبؐ سے امت مسلمہ کو بخشنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ سب مسلمان اپنے دنیاوی گناہوں کا کفارہ اور سزا بھگت کر بالآخر جنت نشین ہوجائیں گے۔ مگر آج کل کے علمائے کرام و مولوی صاحبان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جنت سے پہلے جہنم نشین ہونے والے مسلمانوں کی وافر مقدار ان میں سے ہی ہوگی۔ اس میں کوئی حیرانی بھی نہیں ہونی چاہئے۔ ان طبقات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو اس بات کے لئے ذمہ دار بنایا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو دین پر کاربند رکھنے کے لئے اعلیٰ انسانی اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ ساری زندگی بسر کریں گے اور مسلمانوں کے حق اور مفادات کے لئے بات کرنے میں نہیں جھکیں گے۔ سیاسی لوگ تو ہیں ہی بدنام لیکن جب آج کے علمائے کرام اور مولوی صاحبان کو حرص وہوس کی آغوش میں کلکاریاں مارتے دیکھتا ہوں تو مجھے سیاسی رہنما ان سے کم تجربہ کار لگتے ہیں کیونکہ میں ان میں بے حیائی اور ڈھٹائی کے باوجود زیادہ خوف خدا کا احساس پاتا ہوں۔ مجھے یہ تلخ نوائی اس لئے کرنی پڑ رہی ہے کیونکہ یہ لوگ ملی اور اجتماعی مسائل میں بھی مصلحت کوشی اور زبان بندی سے کام لیتے ہیں۔

’’عملی طور پر مسجد لازمی طور پر اسلام کا جزلاینفک نہیں ہے‘‘ ( فیصلہ سپریم کورٹ 1994 اسماعیل فاروقی بنام سرکار) 24 سال پہلے سپریم کورٹ کی پانچ نفری بنج نے اپنے فیصلے میں یہ ریمارک دیا تھا۔ بنیادی طورپر یہ معاملہ مسجد اور اس سے ملحق زمینوں کو سرکار کے ذریعہ ایکوائر کرنے کے خلاف سپریم کورٹ پہنچا تھا۔ اسماعیل فاروقی اس کیس میں مدعی تھے جیسا کہ 27 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ میں سنائے گئے اس فیصلہ میں رائے رکھنے والے جسٹس عبدالنذیر صاحب نے اپنے فیصلہ میں صاف لکھا ہے کہ اس سابقہ فیصلہ کو لکھتے وقت نہ اسلام کی کسی مذہبی کتاب کا حوالہ دیاگیا ہے اور نہ کسی مذہبی عالم سے تبادلہ خیال کیاگیا ہے اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اس قسم کا فیصلہ ظہور میں آیا۔ اس بنچ کے سربراہ جسٹس وینکٹ چلیا تھے۔ ابھی جو میں محترم علمائے کرام اور مولوی صاحبان ذی شان کی بابت قصیدہ خوانی کر رہا تھا اس کا سبب یہی تھا کہ اس وقت ایسے نازک معاملے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی خاموش رہا اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی بھی۔ قیامتِ دین جماعت اسلامی بھی خاموش رہی اور جمعیۃ علمائے ہند بھی۔ ملی جماعت ہونے کی دعویدار تمام جماعتیں اس المناک فیصلہ پر خاموش بیٹھی رہیں۔ خود کو مسلمانوں کی سب سے متحرک سیاسی جماعت اتحاد المسلمین بھی چپی سادھے رہی۔ کسی نے اس فیصلہ کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج نہیں کیا اور نہ فیصلہ کے اصلاح کے لئے سپریم کورٹ کی بڑی آئینی بنچ کا مطالبہ کیا۔ اس وقت نہ حالات اتنے سنگین تھے اور نہ عدلیہ پر شکنجہ کسنے کی کوششیں تھیں۔ یہ سب علمائے کرام اور ملی تنظیمیں اپنے اپنے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں خاموش بیٹھے رہے اور27 ستمبر کو فیصلہ آنے تک بھی کسی کی سرگوشی سنائی نہیں دی ہے۔ خاموش یوں ہیں کہ اگر بولے تو مسلم عوام سوال کریں گے کہ جب یہ فیصلہ آیا تھا تو آپ نے کیا کیا تھا؟ بلکہ عملی طورپر اس فیصلہ کی تائید کررہے ہیں کہ ’’اب بابری مسجد کا مقدمہ صرف ملکیت کا مقدمہ ہے۔‘‘ اس کا دھرم اور ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ایک فیصلہ سے بھارت میں موجود لاکھوں مسجدوں کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس سابقہ مقدمہ میں بنیادی بات یہ کہی گئی تھی کہ مسلمانوں کو عبادت کے لئے ’’مسجد کی ضرورت لازمی نہیں ہے۔‘‘ وہ کہیں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ان کی نمازسڑک پر بھی ہوسکتی ہے اور کھیت کھلیان میں بھی۔ چنانچہ کسی ایک فرقہ کی عبادت گاہ کو دوسرے مذاہب کی عبادت گاہ کے مساوی رکھنا چاہیے۔ یہی سیکولرازم کے مطابق ہے۔ چنانچہ جس طرح مندروں اور ان کی زمینوں کو سرکار ایکوائر کرسکتی ہے اسی طرح مسجد اور اس سے ملحق زمین کو بھی ایکوائر کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کی مساجد اور ان مساجد کے اوقاف پر اتنا بڑا حملہ ہوگیا مگر دین سے قلعوں یعنی مدارس ومساجد کے یہ سپہ سالار خاموش رہے۔ چونکہ یہ فیصلہ بنا مذہبی کتاب کو سمجھے بغیر بنا کسی عالم دین سے مشورہ لئے بغیر کیا گیا تھا اس لئے عدالت کے سامنے نہ کوئی آیت قرآنی تھی اور نہ حدیث اور نہ معاملہ کا فقہی پہلو۔ اللہ رب العزت نے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مسجد تعمیر کرنے اور وہاں نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ مسجد میں نماز ادا کرنا لازمی اور واجب ہے۔ گھروں میں ( مردوں کے لئے) نماز پڑھنے کو منع کیاگیا۔ انہیں باربار مسجدیں آباد کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن شریف میں واضح طورپر کہاگیا ہے کہ مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو رب اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اکثر مسالک نماز جمعہ کے لئے علاقہ کی بڑی مسجد کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک بنا مسجد کے نماز جمعہ کا التزام نہیں ہوسکتا۔ بعض مساجد کو بھی دینی فضیلت حاصل ہے کہ وہاں نماز پڑھنے پر دیگر عام مساجد میں نماز پڑھنے سے کئی گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔ (مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ) اس طرح حدیثوں میں بہت کثرت کے ساتھ آداب مسجد بیان کئے گئے ہیں۔ ہر مسلمان کو جب کسی مسجد میں جائے تو دو رکعت تحیۃ المساجد پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ مسجد میں خوشبو لگاکر آنے کو افضل کہاگیا ہے۔ اسلامی مسجدوں کو پاک وصاف اور اچھی حالت میں رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ رمضان المبارک کے متبرک مہینہ میں مساجد کی اپنی اہمیت بہت واضح ہوجاتی ہے۔ اگرعدلیہ مذہبی کتابوں سے سمجھنے کی کوشش کرتی تو کبھی ایسا فیصلہ نہیں کرتی۔ بہرحال مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ خود کو مسلمانوں کے ٹھیکیدار کہلانے کے خواہش مند یہ بڑے جبّہ اور دستاروالے مسلم مسائل کے تئیں بہت بے بہرہ ہیں۔ یہ افسوسناک فیصلہ اب 24سال بعد دوبارہ منظرعام پریوں آیا کہ سالہاسال سے چل رہا شہید بابری مسجد کا مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے اور ایک سہ نفری بنچ جس میں موجودہ چیف جسٹس دیپک مشرا ، جسٹس عبدالنذیر، جسٹس اشوک بھوشن شامل ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہی اس مقدمہ کی روزانہ سماعت شروع ہوئی تھی تاکہ ایک سال میں اس مقدمہ کا فیصلہ (جوبنیادی طورپر ملکیت کا مقدمہ ہے) ہوجائے جو برسوں سے بھارت کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔حالانکہ 2017 کے آخر میں جب سپریم کورٹ نے فیصلہ کی یہ میعاد مقرر کی تھی اس وقت بھی سوال اٹھا تھا کہ اتنا پیچیدہ مقدمہ جو سالہاسال سے چل رہا ہے کیسے اتنی قلیل مدت میں انجام تک پہنچ سکتا ہے؟ جب روزانہ سماعت شروع ہوئی تھی اس وقت مسلمانوں کی جانب سے سینئر ایڈدکیٹ دھون نے یہ سوال سپریم کورٹ کے سامنے رکھا تھا کہ 1994 کافیصلہ جو بابری مسجد اور اس کی اراضی سے متعلق ہے وہ بابری مسجد کے موجودہ معاملہ پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ اس لئے پہلے اس پرانے فیصلہ پر آئینی اور قانونی نظرثانی کی جائے اور اس کو پھر پانچ رکنی بنچ کے سامنے پیش کیاجائے۔ معزز عدالت عظمیٰ نے ایڈووکیٹ دھون کی بات کا نوٹس لیتے ہوئے اس پر غوروخوض کیا اور پھر 27ستمبر کو یہ فیصلہ سنایاکہ اس معاملہ کو دوبارہ پانچ رکنی بنچ کے پاس بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ موجودہ سہ رکنی بنچ ہی اس مقدمہ کا فیصلہ کرے جسٹس بھوشن نے فیصلہ کے دوران اس بات کی بھی وضاحت کی کہ اسماعیل فاروقی والے کیس (مسجد اسلام کالازمی حصہ ہے) کا بابری مسجد حق ملکیت کے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس مقدمہ کی سماعت صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوگی۔ اس طرح سپریم کورٹ نے بہت وضاحت کے ساتھ یہ صاف صاف کہہ دیا کہ بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ آستھا کی بنیاد پر نہیں بلکہ عدالت کے سامنے موجودہ ثبوتوں وشواہد کی بنیاد پر کیاجائے گا۔ عدالت کی یہ وضاحت ان فرقہ پرستوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اس حق ملکیت کے مقدمہ کو ’’آستھا‘‘ کا معاملہ بتاکر عدالتی سچائیوں کا سامنا کرنے سے بچنے کی کوشش کررہے تھے۔

بنچ کے تیسرے جج جسٹس عبدالنذیر نے اپنا فیصلہ چیف جسٹس مشرا اور جسٹس بھوشن کے فیصلوں کو پڑھنے کے بعد 26اکتوبر کو لکھا۔ ان کا لکھا فیصلہ بنچ کے دونوں ججوں کے فیصلے سے الگ ہے۔ جبکہ دونوں ججوں کی رائے تھی کہ یہ معاملہ اتنا اہم نہیں ہے کہ اسے پانچ رکنی آئینی بنچ کے سپرد کیاجائے ۔ ان کے خیال میں بابری مسجد کے ملکیتی مقدمہ پر اسماعیل فاروقی والے مقدمہ کے فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لئے مزید وقت ضائع نہ کیاجائے۔ لیکن جسٹس عبدالنذیر کی رائے اس کے برخلاف تھی۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ جب سپریم کورٹ ایک سے زیادہ شادی کے معاملہ کو، نکاحِ حلالہ کو، عوامی پارکوں اور باغوں میں رام لیلا اور پوجا کے انعقاد ومسلم خواتین (بوہرہ) کے ختنہ کے مسئلہ کو ایودھیا کی متنازعہ اراضی کے مسئلہ کو بڑی آئینی بنچ کے سپرد کرسکتا ہے تو پھر اسلام میں مسجد کی لازمیت یا عدم لازمیت کے معاملہ کو کیوں بڑی بنچ کو نہیں بھیجا جارہا ہے۔ خاص طورپر اسماعیل فاروقی والا مقدمہ کا فیصلہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں دیا گیاتھا جس کے خلاف مدعی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا کیونکہ فیصلہ نے کئی سوالیہ نشان لگادیئے تھے اور اس فیصلہ تک پہنچنے میں کسی مذہبی سند یا کتب کا حوالہ نہیں دیاگیا تھا۔ اس طرح جسٹس عبدالنذیر نے دونوں جج صاحبان کے فیصلے سے مختلف نوٹ لکھا۔ وہ مسلمانوں کے موقف رکھنے والے سینئر وکیل کپل سبل، دشنیت داس اور راجیودھون کی دلیلوں سے متفق نظر آتے ہیں کہ جب معمولی اور غیر اہم ایشوز کو آئینی بنچ کے سپرد کیاجاسکتا ہے تو پھر قوم کے لئے بے حد اہم اس مسئلہ کو آئینی بنچ کے سپرد کیوں نہیں کیاجاسکتا؟ لیکن بہرحال فیصلہ سہ نفری بنچ کے دوجسٹس صاحبان کی اکثریت سے ہی فائنل ہونا تھا۔ وہ ہوگیا۔

اس فیصلہ کے بعد اب بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی روزانہ سماعت شروع ہوجائے گی۔ اور سپریم کورٹ کی کوشش یہ ہوگی کہ دسمبر 2018 تک اس مندر کا کا فیصلہ ہوجائے۔ مگر ابھی حتمی طورپر کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ اگرچہ ملک کا عدلیہ بہت ذمہ دار اور آزاد ہے۔ اس کی اسی آزادی کا خاتمہ کرنے کے لئے گزشتہ ساڑھے چار سال میں بھاجپا کی سرکار اور اس کے وزیر قانون نے بہت کوشش کیں مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی عوامی شبیہ بگاڑنے کے لئے ان پر کرپشن اور اقرباء پروری کے الزام لگوائے گئے۔ کبھی کالجیم (سپریم کورٹ کے ججوں کی ایک کمیٹی جو مختلف ریاستوں کے سینئر جج صاحبان کو ترقی دے کر سپریم کورٹ میں لاتی ہے اور ہائی کورٹ کے ججوں کی بھی تقرری میں اہم رول ادا کرتی ہے) کی جگہ ججوں کی تقرری کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا شوشہ چھوڑتی رہی ہے مگر عدلیہ ان کو پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتا۔

دواکتوبر 2018 کو موجودہ چیف جسٹس ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ ان کی جگہ جسٹس رنجن گوگوئی سنبھالیں گے۔ جسٹس گوگوئی ان چار سینئر ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف پریس کانفرنس کرکے ان کی پیشہ ورانہ ایمانداری پر سوال کھڑے کئے تھے۔ ہوسکتا ہے بابری مسجد کا معاملہ سماعت کرنے والی بنچ کی نئی تشکیل کے وقت (ریٹائرڈہونے والے جج جسٹس مشرا کی جگہ خالی ہوجائے گی) اس سہ نفری بنچ کو پانچ نفری یاسات نفری بنچ میں تبدیل کردیاجائے۔ بابری مسجدکو شہید کرنے والوں کے خلاف بھی ایک مقدمہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ جسٹس رنجن گوگوئی کو چارج سنبھالتے ہی بہت سے اہم مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدلیہ میں ان کی شبیہ بہت صاف ستھری ، صاف گو، انصاف پسند اور غیر جانبدارجج کی ہے۔ ایسے قابل چیف جسٹس سے بھارت کو بہت سی نیک توقعات ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔