داستان گوئی کے ’وَنڈرلینڈ‘ نے 20 سال کیے مکمل... پریہ دَرشن
بولنے پر پہرہ اور خطرہ کے دور میں یہ قصے سننا خوش کن ہے جن میں زمانے کی حقیقت بولتی ہوئی معلوم پڑتی ہے۔

داستان گوئی کا منظر، تصویر بشکریہ پریہ درشن پراگ
داستان گوئی کلیکٹیو نے 18 سے 20 جولائی کے درمیان 3 دنوں تک اپنے 20 سال مکمل ہونے کا جشن منایا۔ اس موقع پر 4 داستانیں بھی پیش کی گئیں۔ ویسے ان 20 سالوں میں محمود فاروقی اور ان کی ٹیم نے ایک گمشدہ ندی تلاش کر ڈالی ہے۔ اسے نئی زندگی دی ہے اور کچھ اس طرح دی ہے کہ اس ندی سے کئی شاخیں نکل پڑی ہیں۔
20 سالہ جشن کے موقع پر ادارہ نے ایک کتاب بھی شائع کی ہے ’جشنِ داستان گوئی‘۔ کتاب کو انوشا رضوی نے ترتیب دی ہے۔ کتاب میں ان 20 سالوں کے دوران داستان گوئی کی ٹیم سے جڑے لوگوں کے تجربات ہیں، ان کی یادیں ہیں، الگ الگ داستانوں پر لوگوں کے تبصرے ہیں اور کردار میں داستان گوئی کی تاریخ بھی ہے۔ کتاب یاد دلاتی ہے کہ داستان گوئی صدیوں پرانی روایت رہی ہے۔ کبھی یہ فن عرب اور فارس سے ہوتا ہوا ہندوستان تک پہنچا تھا۔ انیسویں صدی میں اردو کے ساتھ یہ ہندوستان میں اپنے عروج پر پہنچی۔ لیکن دھیرے دھیرے اس کا زوال آنے لگا۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی ختم ہوتے ہوتے ہندوستان میں بچے کھچے داستان گو بھی ختم ہوتے چلے گئے۔ 1928 میں ہندوستان کے آخری داستان گو میر باقی علی کے انتقال کے ساتھ یہ فن بھی دفن ہو گیا۔
بہرحال، داستان گوئی کی داستان کو اردو کے مشہور و معروف ادیب اور دانشور شمس الرحمن فاروقی نے جیسے تاریخ کی دھول سے تلاش کر نکالا، جھاڑ کر اسے نیا کیا اور سب کو یاد دلایا کہ کس طرح یہ بے حد زندہ و جاوید فن ختم ہوتا چلا گیا ہے۔ یہاں سے کمان سنبھالی محمود فاروقی نے، جنھوں نے شمس الرحمن فاروقی کے ذریعہ کھڑے کیے گئے پُتلے کو کپڑے پہنائے، اس میں جان ڈالی، اسے زبان سکھائی... بلکہ کئی زبانیں سکھلا دیں اور زمانے کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بولنے کی ہمت دی۔ اس 20 سالہ جشن کے دوران بھی یہ سمجھ میں آیا کہ فنون کی دنیا میں ایک نیا ’وَنڈرلینڈ‘ ہے جس کی تیزی، تازگی اور تراش طبیعت خوش کر دیتی ہے۔ یہ خیال گزشتہ ہفتہ کی شام دہلی کے ایل ٹی جی آڈیٹوریم میں محمود فاروقی کی ٹیم کے ذریعہ پیش 2 داستانوں ’ایلس اِن ونڈرلینڈ‘ اور ’داستانِ منٹو‘ یا ’منٹوئیت‘ دیکھتے ہوئے پھر سے آیا۔

داستانِ ایلس تو بالکل جگمگ جادو جیسا رہا۔ ترجمہ اور پیشکش اتنا بہترین اور تصوراتی کہ اس کا جواب نہیں۔ ہال میں بیٹھے بچوں کی کھلکھلاہٹ اور بڑوں کی سحر انگیز خاموشی بتا رہی تھی کہ انیسویں صدی کی ایک یوروپی طلسمی کہانی کس قدر ہندوستانی (بلکہ دہلوی) بن گئی ہے۔ محمود فاروقی کی لکھی داستان میں لے، صفائی اور دلچسپی کا بہترین امتزاج تھا اور اب استاد داستان گو ہو چکیں پونم گردھانی اور نسرین انصاری نے اسے نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ دراصل یہ داستان ایک بات اور سمجھا رہی تھی... الفاظ جب ڈھنگ سے ادا کیے جاتے ہیں تو ان میں کتنی طاقت اور احساس پیدا ہوتا ہے، تلفظ کس طرح معنی کو زندہ کر ڈالتے ہیں۔
’ایلس‘ کے مقابلے ’منٹوئیت‘ بے شک کچھ پھیکی سی لگی۔ شاید اس لیے کہ اس بہت طویل داستان کو کانٹ چھانٹ کر مختصر شکل میں پیش کیا گیا۔ پھر داستان میں جو حصے لیے گئے، ان میں کبھی عصمت چغتائی، کبھی کرشن چندر اور کبھی خود منٹو اپنی کہانیاں بتاتے ملتے۔ مجھے لگا کہ یہ ان سامعین کو الجھن میں ڈالنے والا ہو سکتا ہے جنھوں نے پہلے ان سب کو نہ پڑھا ہو (کرشن چندر کو کرشن چندر کہا جانا بھی پریشان کرتا رہا۔ ہندی والوں کو تو کرشن چندر پڑھنے لکھنے اور سننے کی عادت ہے)۔
خیر، جو حصے لیے گئے، وہ بھی دلچسپ تھے اور منٹو کی آزاد و باغی طبیعت کا بیان کرتے تھے۔ اپنی تعلیم سے بغاوت، اپنے والد سے بغاوت، گویا اپنی زندگی سے ہی بغاوت منٹو کی طبیعت میں شامل تھی۔ لیکن جس خلش، بے چینی اور تڑپ نے منٹو کو منٹو بنایا، وہ اس داستان میں نہیں ملی۔ منٹو جلتی ہوئی آگ جیسا ہے جس کے پاس جاتے ڈر لگتا ہے، جس کو چھونے سے ہاتھ جل جاتے ہیں اور جس کی روشنی میں دنیا کی فحاشت اور زمانے کے پاکھنڈ بے پردہ ہو جاتے ہیں۔ پھر منٹو کی سب سے مشہور کہانیاں تقسیم کی جس تکلیف کے درمیان لکھی گئیں، وہ بھی یہاں غیر حاضر لگی۔ شاید کبھی پوری داستان سننے کو ملے تو یہ کہانی بھی نظر آئے۔ ویسے میرا رضوی اور شاداب نے جو پیش کیا، وہ قرینے سے کیا۔
داستان گوئی کے موقع پر ’جشن داستان گوئی‘ نام کی جو کتاب شائع کی گئی، اس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے۔ انوشا رضوی کی تدوین یہ کتاب داستان گوئی کے 20 سالوں کا سفرنامہ ہے۔ اس میں داستان گوئی کلیکٹیو کے اراکین داستانوں سے جڑنے، ان کو تیار کرنے اور ان کو پیش کرنے کی داخلی داستانیں بتاتے ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ داستانیں کیسے تیار کی جاتی ہیں اور اس دوران کتنی طرح کی کشمکش سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ان داستانوں پر الگ الگ لوگوں کا رد عمل بھی شامل ہے۔ لیکن اس کتاب کی اشاعت میں وہ نفاست اور کشش نہیں ہے جو عموماً داستان گوئی کلیکٹیو کے کام میں شامل ہے۔ کتاب میں فہرست نہیں ملتی، نہ ہی کوئی انسلاک دکھائی دیتا ہے۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں بھی اچھی خاصی ہیں۔ یہی لگتا ہے کہ یہ کتاب بہت جلدبازی میں تیار کر کے شائع کر دی گئی ہے۔ امید کریں کہ جو نیا ایڈیشن آئے گا، اس میں یہ غلطیاں درست ہو چکی ہوں گی۔

بہرحال، سب سے خاص بات یہ ہے کہ اپنے 20 سال کے سفر میں داستان گوئی کلیکٹیو نے صرف ایک مقام ہی حاصل نہیں کیا ہے، ایک مثال بھی قائم کی ہے۔ محمود نے پرانی داستانوں کو نئے زمانے کی حقیقت سے جوڑا ہے۔ جو داستانیں انھوں نے منتخب یا تیار کیں، ان سب کا ایک صاف نظریہ ہے، وہ ترقی پسند داستانیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جتنے بڑے دائرے سے انھوں نے داستانیں منتخب کی ہیں، وہ حیران کرنے والا ہے۔ وہ ہندی کے مشہور نالوں ’راگ درباری‘ اور ’ریت سمادھی‘ کی داستان تیار کرتے ہیں، وہ میر جیسے شاعر اور سید حیدر رضا جیسے مصور کو داستان کا موضوع بنا سکتے ہیں، وہ جلیاں والا باغ اور دوسرے واقعات کو داستان گوئی کے دائرے میں لے آتے ہیں، وہ پرانی داستانوں میں بھی نئے رنگ جوڑتے چلتے ہیں۔ ان کے یہاں وجئے دان دیتھا کی لوک کتھا جیسی کہانیوں کا ترجمہ ملتا ہے، تو ایلس اِن ونڈرلینڈ بھی مل جاتا ہے۔ پھر جس دور میں بولنے پر پہرے اور خطرے بڑھتے جا رہے ہیں، اس دور میں محمود ہمیں وہ کہانیاں سنا رہے ہیں جن میں زمانے کا سچ بولتا ہے۔ ایمان، انصاف، انسانیت اور برابری کے حق میں پورے بھروسہ کے ساتھ کھڑی یہ داستانیں ہمارے وقت کی ایک بڑی حصولیابی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان کی معرفت ہماری ادبی دنیا کے کئی نگینے نئی شکلوں میں سامنے آ رہے ہیں۔ یہ محمودیت قائم رہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔