یوم تعلیم کے موقع پر خصوصی تحریر: مولانا آزاد، صحافت کے امام

بیسویں صدی میں جن مفکروں، دانشوروں، زعماء، علماء اور سیاست دانوں نے ہندوستان کی تعمیر و تشکیل میں اپنا کردار انجام دیا ان میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا نام منفرد اہمیت کا حامل ہے

مولانا ابوالکلام آزاد
مولانا ابوالکلام آزاد
user

شاہد صدیقی علیگ

بیسویں صدی میں جن مفکروں، دانشوروں، زعماء، علماء اور سیاست دانوں نے ہندوستان کی تعمیر و تشکیل میں اپنا کردار انجام دیا ان میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا نام منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ وہ بیک وقت صحافی، انشا پرداز، خطیب، مفسر قرآن حکیم، قوم و ملت کے رہنما، تحریک آزادی کے روح رواں اور کامیاب سیاست داں تھے۔

قابل ذکر امر ہے کہ مولانا محی الدین احمد آ زاد نے صحافت کے میدان میں قدم رکھنے سے قبل ہی دسمبر 1899ء میں امام غزالی کی سوانح عمری لکھنی شروع کر دی تھی۔ لیکن باضابطہ طور پر وہ تصنیف اور تالیف کے حلقے میں ’ماہنامہ گلدستہ شاعری: نیرنگ عالم کے ذریعہ داخل ہوئے جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 22/جنوری 1901ء کو ادبی المصباح،1902ء ہفتہ وار احسن الاخبار (کلکتہ)،مارچ 1903ء حذ نگ نظر (لکھنؤ)،1903ء ایڈورڈ گزٹ (شاہجہاں پور) جیسے جریدوں کی ذمہ داری بہ حسن خو بی انجام دی جو ان کی عظمت کے مظہر ہیں۔ معاشرتی اصلاحات کے لیے 20/نومبر 1903ء میں ماہنامہ لسان ا لصدق جاری کیا۔ 1900 تا 1903ء کے دوران مولانا آزاد کے مضامین میں دینی مسائل، اخلاقیات، فلسفہ اور معاشرتی مسائل کا عکس زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔


اکتوبر 1905ء میں ماہنامہ الند وہ لکھنؤ کے بطور معاون مدیر ایسی خدمت پیش کی کہ ان کی تحریروں کا سحر ہر خاص وعام کے سر چڑھ کر بولنے لگا۔ جس کے سبب قومی تحریکوں میں مولانا کی موجود گی ناگزیر سمجھی جانے لگی۔اسی زمانے میں مولانا پر علامہ شبلی نعمانی اور سرسید احمد خاں کے تفکرات کا غلبہ نظر آنے لگا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ تحریک سے متاثر ہوکر انگریزی سیکھنی شروع کردی اور جلد ہی اتنی دسترس حاصل کرلی کہ لغت کی مدد سے انگریزی اخبار پڑھنے لگے۔انگریزی اخبارات کے مطالعہ نے ان کے نظریے کو نئی اقدارسے آشنا کیا۔جس کے بعد انہوں نے شعر ی،ادبی،معاشرتی اور مذہبی مواد کے ساتھ ساتھ سائنٹفک،تاریخ،جغرافیہ،معاشیات اور سماجیات جیسے مختلف النوع مضامین لکھنے شروع کردئیے اور ایک اعلیٰ معیار ی صحافی کی شکل میں اپنی شناخت قائم کی اور اپنے ہی قول ’جس میدان میں قدم اٹھائیں پوری طرح اٹھائیں اور جہاں تک راہ ملے بڑھتے چلے جائیں۔‘ پر کھرے اترے۔

اپریل1906ء میں سہ روزہ جریدہ وکیل(امرتسر) میں ملازمت کی۔ جنوری 1907ء میں دار السلطنت کلکتہ کی ادارت کی۔ بعض گھریلو وجوہات، والد کی شدید علالت و انتقال اور بیرونی سفر کے بموجب مولانا آزاد کے قلم پر پانچ سال سکوت طاری رہا،لیکن بیرونی سفر نے ان کے دل و دماغ پر ایسے انقلابی تصورات مرتسم کیے کہ انہوں نے صحافت کے ذریعہ وطن عزیز کی آزادی، مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کر انہیں انقلابی شعور سے سرشار کرنے نیز مذہب و سیاست کے میدانوں سے متعارف کرانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ مگر موقع و محل کے نقطہء نظر انہوں نے1909ء تا1912ء تحریر سے زیادہ اپنی شعلہ بیاں تقریر سے قوم وملت کو جھجھوڑا اور ایک فصیح و بلیغ مقرر کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم کی۔ تاہم آزاد کا صحافی مزاج زیادہ دن تک صفحہ قرطاس سے دوری برداشت نہیں کرسکا۔ چنا نچہ انہوں نے 13/نومبر 1912ء کو ایک انقلابی ہفتہ وار الہلال کا نوقوس پھونکا،یہ پہلا باتصویر سیاسی اخبار تھا اور اس کی تعداد اشاعت غالباً 52/ہزار تھی۔ جس کے اداریے اور مضامین نے انگریزی ایوان حکومت میں لغزش پیدا کردی۔جس سے خائف ہوکر حکومت بنگال نے اخبار پر دوبارہ ضمانت طلب کی اور بالآ خر18/نومبر 1914ء کے شمارے کے بعد الہلال کو بند کرنا پڑا۔لیکن جلد ہی مولانا نے دوسر ے ہفت روزہ البلاغ نو مبر 1915ء میں اشاعت شروع کی۔ البلاغ میں بھی الہلال کی روح کارفرماتھی۔ انگریز انتظامیہ نے مولانا آزاد کے قلمی انقلاب کو اپنے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرے سمجھا۔ لہٰذا 17/تا24/مارچ6 191ء البلاغ کے شمارے کے بعد ان کی پریس کو ضبط کرلیا گیا مگر مولانا کے پائے استقامت کو ذرا جنبش نہ ہوئی۔ جسے دیکھ کر انتظامیہ نے 28/مارچ 1916 ء کو (Defence Of Regulation) دیفنس آف انڈیا کے نادری ایکٹ کی دفعہ3 کے تحت پنجاب،یوپی اور بمبئی صوبوں کی حدود میں مولانا کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ہی چار روز میں بنگال چھوڑنے کا حکم صادر کردیا۔مولانا مجبور ہوکر رانچی(جھارکھنڈ) چلے گئے،جہاں کچھ دنوں کے بعدمرکزی حکومت نے انہیں قید کرلیا۔ رہائی کے بعد مولانا آزاد ایک صحافی کی جگہ جنگ آزادی کے جانباز سپاہی کی شکل میں منظر عام پر آئے۔مولانا آزاد نے 15/سالہ صحافتی زندگی اور تحریک آزادی میں حصے لینے کی پاداش میں 9/سال 8/مہینے 24/دن قید فرنگ کی صعوبیتں برداشت کی یعنی ان کی زندگی کا ہر ساتواں دن قید وبند میں گزرا۔

جس کی بابت امام الہند مولانا آزاد فرماتے ہیں:

”وہ ساتوں حصے کی مناسبت مختل ہوگئی اور سبت کی تعطیل کا معاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔“

مولانا آزاد نے صحافت کی دنیا میں وہ مثال قائم کی جس کی ہندوستان میں پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔