یومِ آزادی پر خصوصی پیشکش: ’دل پہ رکھ کر ہاتھ کہیے، ملک کیا آزاد ہے؟‘... کرشن پرتاپ سنگھ
یہ اپنے آپ سے وہ سوال پوچھنے کا وقت ہے جو کبھی ’دھومل‘ نے خود سے پوچھا تھا: ’کیا آزادی صرف 3 تھکے ہوئے رنگوں کا نام ہے...؟‘

’’100 میں 70 آدمی فی الحال جب ناشاد ہے، دل پہ رکھ کے ہاتھ کہیے ملک کیا آزاد ہے؟‘‘ جب ہم اپنا مزید ایک یومِ آزادی منانے جا رہے ہیں، یادوں میں عوامی شاعر عدم گونڈوی کے ذریعہ کبھی پوچھا گیا یہ سوال نئے سرے سے جواب مانگ رہا ہے۔ یوں تو ہماری سماجی، معاشی و سیاسی آزادی پہلے بھی کچھ کم خطرے میں نہیں تھی، لیکن اب محروموں، دلتوں و کمزوروں کو نظر انداز کر استحصال و عدم مساوات بڑھانے، اپنے خیر خواہ میڈیا کی معرفت ان سب کو ہی سماجی انصاف و مساوات کی شکل میں مشتہر کرنے اور یہاں وہاں امیری کے نخلستان بنانے میں لگے برسراقتدار لوگ کھلم کھلا آزادی کا ایسا ماحول تیار کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں کہ وہ ایک طبقہ کے ذریعہ دوسرے کی آزادی پر حملوں کا اسلحہ بن جائے۔
نتیجہ یہ ہے کہ عام لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایک وقت کوئی انھیں بہت دھمکاتا تو وہ اپنی حفاظت کے تئیں پُرامید جذبہ سے اسے جھڑک کر کہہ دیتے تھے کہ ’’چلو چلو، ہمارا گھر توڑ دو گے کیا؟‘‘ لیکن آج جمہوریت کے نام پر چل رہے ’بلڈوزر راج‘ میں کسی کا بھی گھر منہدم کر اسے سڑک پر لا دینا اقتدار کا شغل ہو گیا ہے۔ بلاشبہ یہ حالت بابائے قوم مہاتما گاندھی کے اس خواب کا برعکس ہے، جسے دیکھتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ میرے خوابوں کا سوراج (آزادی) غریبوں کا سوراج ہوگا۔ زندگی کی جن ضروریات کا استعمال راجہ اور امیر لوگ کرتے ہیں، وہی انھیں (غریبوں) بھی میسر ہونی چاہیے۔ اس میں فرق کے لیے جگہ نہیں ہو سکتا... مجھے اس بات میں بالکل شبہ نہیں ہے کہ ہمارا سوراج تب تک مکمل سوراج نہیں ہوگا، جب تک غریبوں کو یہ سبھی سہولتیں دینے کا پورا انتظام نہیں ہو جاتا۔ وہ چاہتے تھے کہ آزادی کے بعد ہم ایسا ملک بنائیں، جس میں غریب سے غریب اور کمزور سے کمزور شخص کو بھی یہ نہ لگے کہ اس کی آواز کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔
اور ایسا تب ہے، جب ملک تو کیا دنیا میں بھی اور انسان تو کیا ایسا کوئی جاندار بھی شاید ہی ہو، جسے اپنے لیے آزادی ضروری نہ ہو، یا پیاری نہ لگتی ہو۔ آزادی اتنی پیاری نہیں ہوتی تو انسانیت کی اب تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ قربانی اسی کے لیے درج نہیں ہوئی ہوتی۔ نہ وہ ہمارے وقت کا اہم سیاسی فلسفہ بن پاتی، نہ اس سے جڑے اس نظریہ پر عام اتفاق بن پاتا کہ کسی شخص، سماج، ملک یا ریاست کی اپنی خواہش کے مطابق کام کرنے پر کسی دوسرے شخص، سماج، ملک یا ریاست کی کسی بھی طرح کی پابندی یا امتناع ہونا چاہیے۔
افسوس یہ ہے کہ اس کے باوجود ہمارے درمیان آزادی کو لے کر بہت سی گمراہیاں پھیلی ہوئی ہیں (یا قصداً پھیلا دی گئی ہیں)۔ ان گمراہیوں کے سبب بہتوں کے لیے سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ آزادی واقعی میں ہے کیا، اور اس کے محفوظ استعمال کا اعلیٰ ترین نظام کون سا ہے؟ ایک سب سے زیادہ مشتہر گمراہی تو آزادی کو لائسنس کے برابر لے جا کر کھڑا کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ آزادی سبھی کنٹرول سے آزادی یا فقدان کی حالت ہے، جس میں کسی بھی ڈسپلن کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
اس گمراہی کا شکار لوگوں کے دل و دماغ میں یہ بات گھستی ہی نہیں کہ آزادی نہ ہی لائسنس ہے اور نہ ہی سبھی ڈسپلن کو پس پشت ڈال دینے یا ان سے بالاتر ہو جانا۔ وہ یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ ایسی آزادی کسی بھی ریاست میں (وہ جمہوری ہو یا تاناشاہی) نہیں حاصل ہو سکتی، اور صرف فطری یا انارکی نظام میں رہنے والوں کو ہی اس کا تجربہ ہو سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج ہم سے وہ آزادی بھی چھین لی جا رہی ہے، جس کا تصور اس کے لیے چلی طویل تحریک کے سب سے بڑے ہیرو کے طور پر بابائے قوم نے کیا تھا۔ بابائے قوم کہتے تھے کہ آزادی باہر، بیرون ملکی یا پرائے نظاموں سے تو نجات دلاتی ہے، لیکن ساتھ ہی خود اپنے نظام کے ذریعہ دانشمندانہ حکومت ہونے یعنی خود کی حکومت رہنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس لیے خود کی حکومتوں سے بندھنا قبول کیے بغیر آزادی کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ البتہ، آزادی اس کی گارنٹی ہے کہ کسی شخص کے کام یا متبادل کسی اور کے کاموں یا متبادلوں کے ذریعہ رخنہ انداز نہیں کیے جائیں گے۔
آزادی کے سلسلے میں وہ کئی اور اہم باتیں کہتے تھے۔ ان میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آزادی بانٹنے سے بڑھتی ہے اور صرف ان لوگوں کو اپنے لیے آزادی مانگنے کا اخلاقی حق ہے جو دوسرون کی آزادی کو ان کا حق مانتے، اس کی حمایت کرتے اور خود پر اپنے آپ ہی پابندی نافذ کرنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ عموماً جب بھی ہم کسی شخص، ملک یا ریاست کی آزادی کی بات کرتے ہیں، اس کی شروعات اس کے وجود، نظریہ، اعتماد اور سیاسی رائے رکھنے اور کوئی بھی مذہب ماننے یا نہ ماننے کی آزادی سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد سماجی رخنات سے آزادی کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بعد اپنی خواہش کے مطابق کچھ کرنے کی آزادی کا، پھر خواہش کے مطابق کچھ بننے کی آزادی کا۔
جنگ آزادی کے تجربہ سے ہم جانتے ہیں کہ قومی آزادی کے ذریعہ کوئی نظام اپنی حکومت اپنے آپ کرنے کا سیاسی حق حاصل کرتا ہے۔ اسی تجربہ سے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سیاسی حق اس نظریے کے تحت ہی سب سے زیادہ محفوظ رہتا ہے کہ مساوات کے بغیر آزادی اور آزادی کے بغیر مساوات مکمل نہیں ہو سکتا۔ جن بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو ہم معمار آئین تصور کرتے ہیں، ان کا بھی یہی ماننا تھا کہ اگر ریاست سماج میں مساوات کو قائم نہیں کرے گا تو ملکی باشندوں کی شہری، معاشی و سیاسی آزادیاں محض دھوکہ ثابت ہوں گی۔
کئی دیگر ماہرین کے مطابق بھی سیاسی مساوات کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ سبھی بالغ اشخاص کو ووٹ کا حق مل جائے، کیونکہ مساوات کے وقار کے بغیر حق رائے دہی کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ ویسے بھی جہاں شدید معاشی عدم مساوات ہوں، وہاں صرف حق رائے دہی سیاسی آزادی کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اس پر یہ سوال حاوی ہو جاتا ہے کہ بڑھتے عدم مساوات کے سبب کہیں بھوک آزادی پر حاوی ہونے کو بے تاب ہو گئی تو؟
رام دھاری سنگھ ’دنکر‘ نے کبھی اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا: آزادی روٹی نہیں، مگر دونوں میں کوئی بیر نہیں/ پر بھوک کہیں بے تاب ہوئی تو آزادی کی خیر نہیں۔
یہاں کہنا ہوگا کہ آزادی کو لے کر جیسی خوابوں کی دنیا ربیندر ناتھ ٹیگو اپنی ایک نظم میں تیار کرتے ہیں، وہ انتہائی نایاب ہے: ’جہاں اڑتا پھرے من بے خوف/ اور سر ہو شان سے اٹھا ہوا/ جہاں گیان ہو سب کے لیے بے روک ٹوک بنا شرط رکھا ہوا/ جہاں گھر کی چوکھٹ سی چھوٹی سرحدوں میں نہ بنٹا ہو جہاں/ جہاں سچ کی گہرائیوں سے نکلے ہر بیان/ جہاں بازو بنا تھکے کچھ مکمل تراشیں/ جہاں سہی سوچ کو دھندلا نہ پائیں اداس مردہ روایتیں/ جہاں دل و دماغ تلاشیں نئے خیال اور انھیں انجام دیں/ ایسی آزادی کے سورگ میں، اے بھگوان، میرے وطن کی ہو نئی صبح!‘
ہندی اور بھوجپور کے متبادل نظریے سے مکمل شاعر گورکھ پانڈے کو بھی آزادی سے کچھ ایسے ہی پھل مطلوب ہیں۔ ’وطن کا گیت‘ میں اپنے ارمان نکالتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے: ’ہمارے وطن کی نئی زندگی ہو/ نئی زندگی اک مکمل خوشی ہو/ نیا ہو گلستاں نئی بلبلیں ہوں/محبت کی کوئی نئی راگنی ہو/ نہ ہو کوئی راجہ، نہ ہو رَنک کوئی/ سبھی ہوں برابر سبھی آدمی ہوں/ نہ ہی ہتھکڑی کوئی فصلوں کو ڈالے/ ہمارے دلوں کی نہ سوداگری ہو/ زبانوں پہ پابندیاں ہوں نہ کوئی/ نگاہوں میں اپنی نئی روشنی ہو/ نہ اشکوں سے نم ہو کسی کا بھی دامن/ نہ ہی کوئی بھی قاعدہ ہٹلری ہو۔‘
لیکن جیسا کہ پہلے کہہ آئے ہیں، آج ہماری آزادی ہمارے خلاف امیر طبقات کا ہتھیار بنا دی گئی ہے، جس کے سبب بین الاقوامی انڈیکس اسے جزوی اور جمہوریت کو لنگڑا قرار دے چکے ہیں۔ نتیجہ کار حالات ایسے ہو چلے ہیں کہ برسراقتدار لوگوں کے ذریعہ ایک طرف ہمیں ملک کو ’وشو گرو‘ بنانے کے خواب (سبز باغ) میں بھرمایا جا رہا ہے، اور دوسری طرف لگاتار بڑھائی جا رہی نفرت، اس کے تشدد، ہمیشہ شکل بدلتے استحصال اور غیر برابریوں کے درمیان آزادی سے جڑے ہمارے کسی بھی خواب یا ارمان کا کوئی پتہ ٹھکانا نہیں رہنے دیا جا رہا۔
اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ ہمارے رعایا سے شہری بننے کے عمل کو الٹ دیا گیا ہے اور ہمارے درمیان کے کئی لوگ پھر سے رعایا بن کر خوش ہونے لگے ہیں۔ کیا پتہ، ان کو معلوم بھی ہے یا نہیں کہ اس طرح ’خوش‘ ہو کر وہ اپنی ہی نہیں، ہم سب کی آزادی کے لیے خطرے پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن آپ کو معلوم ہے تو یہی وقت ہے، جب آپ کو اپنی آزادی کی حفاظت کو لے کر محتاط ہو جانا چاہیے۔ ساتھ ہی ان سارے دھوکوں کو ان کی اصل شکل میں پہچان لینا چاہیے، جو طرح طرح کی شکلوں اور لباسوں میں اس کی راہ میں کانٹے بچھانے کے کام میں لگا دیے گئے ہیں۔ پوچھ سکیں تو اپنے آپ سے وہ سوال بھی پوچھنا ہی چاہیے جو ’دھومل‘ نے کبھی اپنی مشہور نظم میں اپنے آپ سے پوچھا تھا: ’کیا آزادی صرف تین تھکے ہوئے رنگوں کا نام ہے/ جنھیں ایک پہیہ ڈھوتا ہے/ یا اس کا کوئی خاص مطلب ہوتا ہے؟‘
ویسے، آج سب سے بڑا سوال تو فی الحال وہی ہے جو عدم گونڈوی پوچھ گئے ہیں: دل پہ رکھ کے ہاتھ کہیے، ملک کیا آزاد ہے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔