عید میلاد النبی پر خصوصی پیشکش: ’ترے حسن خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی‘

ایک بنیادی سوال بھی پیدا ہوتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیا اس امت نے ان عظیم قربانیوں کو یاد رکھا جو اس کی دنیوی و اخروی کامیابی کی خاطر اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی تھیں

<div class="paragraphs"><p>عید میلاد النبی / علامتی تصویر</p></div>

عید میلاد النبی / علامتی تصویر

user

آفتاب احمد منیری

ہم جس ماہِ مبارک سے گزر رہے ہیں، اسے آمنہ کے لعل، عبداللہ کے درِّ یتیم حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کی نسبت سے خصوصی شرف حاصل ہے۔ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش یقینی طور پر انسانی تاریخ کا مہتم بالشان واقعہ ہے۔ جس عظیم محسن انسانیتؐ کی آمد نے دنیا سے ظلمتوں کا خاتہم کیا اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر انسانوں کے رب کی غلامی میں داخل کیا، ایسے رحمت والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہونا ایک ایسا سرمایۂ افتخار ہے جس پر خالق کائنات کی جتنی بھی حمد و ثنا کریں وہ کم ہے۔

لیکن یہاں ایک بنیادی سوال بھی پیدا ہوتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیا اس امت نے ان عظیم قربانیوں کو یاد رکھا جو اس کی دنیوی و اخروی کامیابی کی خاطر اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی تھیں۔ کیا محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی اور مطالب صرف یہ ہیں کہ ہم ہر سال ماہ ربیع الاول میں آپؐ کی آمد کا جشن منائیں اور پھر حسب سابق اپنی مادی زندگی میں غرق ہو جائیں۔ دنیا اور متاع دنیا کی اس بیجا محبت نے ہمیں ایک ایسے سراب میں گم کر دیا ہے جہاں ہر چمکنے والی چیز پر سونے کا گماں ہوتا ہے۔ اس پردۂ غفلت میں زندگی کے روز و شب بسر کرنے والے فرزندان اسلام کے اوپر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسرار منکشف نہیں ہو سکے۔ اگر ہم نے اوراق سیرت کا مطالعہ سوزِ دل کے ساتھ کیا ہوتا تو ہم یہ جانتے کہ محبت رسول کے چشمے اطاعت رسولؐ سے پھوٹتے ہیں۔


اگر یہ عرض کیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہماری ذلت و رسوائی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے رسول کریم علیہ السلام کی تعلیمات سے مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ بقول شاعر:

ترے حسن خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی

میں اس میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا

میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا

ترے دشمنوں نے ترے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا

قرآن کریم نے مقامِ رسالت کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا تھا ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ۔‘‘ [احزاب: 21] (ترجمہ- اور تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ موجود ہے۔) لیکن صد افسوس کہ اس اسوۂ کامل سے روشنی حاصل کرنے کے بجائے ہم محبت رسولؐ کے نام پر رسومات کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہماری سماجی، معاشرتی اور اخلاقی زندگی کے اندر ہر قدم پر تعلیمات نبویؐ کی مخالفت ہوتی ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ مثلاً ہمارے نبیؐ کا اخلاق ایسا کریمانہ تھا کہ آپ کے دشمن بھی آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین و دنیا کی پیشوائی عطا فرمائی تھی۔ لیکن دنیا کی محبت آپ کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ آپ نے فقیروں جیسی زندگی گزاری۔ دنیا سے بے رغبتی کا عالم یہ تھا کہ آپ کے پاس جو بھی مالِ غنیمت آتا اسے شام ہونے سے پہلے لوگوں میں تقسیم فرما دیتے۔


یہ واقعہ ہے کہ آپؐ کی حیات طیبہ کا ہر شعبہ صبح قیامت تک امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہے۔ لیکن اس پیکر محبت و مودت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حال یہ ہے کہ وہ پیسے اور نام و نمود کی طلب کے لیے اپنے ہاتھوں انسانی رشتوں کا خون کر رہی ہے۔ سماجی برتری کا معیار شرافت نفس اور پرہیزگاری کی جگہ دولت اور جھوٹی شہرت قرار پائی ہے۔ ہمارا معاشرہ زندہ لاشوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ آج مسلم سماج کا یہ حال ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ناحق ستاتا ہے، کوئی کسی کو ذلیل کرنے پر آمادہ ہے، تو کوئی کسی کا مال غصب کر لینا چاہتا ہے۔ القصہ مختصر یہ کہ جس کو ذرا بھی کوئی موقع ہاتھ آتا ہے تو وہ اس کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے کہ کس طرح کمزور کو دبایا جائے اور ظالمانہ طریقے پر دوسروں کے حقوق غصب کر لیے جائیں۔ جبکہ امت رسولؐ ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض تھا کہ ہم امت وسط کا کردار ادا کرتے ہوئے معاشرہ میں بھلائی کو عام کرتے اور ظلم کے اندھیروں کو شکست دیتے۔ اس گئے گزرے دور میں بھی یہ کرشمہ ہو سکتا ہے۔ اگر ہم رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنی معاشرتی زندگی میں اتارنے کا عزم کر لیں تو یقیناً یہ دنیا بدل سکتی ہے۔

قرآن کریم نے اخلاق نبویؐ کے محاسن بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’اِنک لعلیٰ خُلقٍ عظیم‘‘ (ترجمہ- آپ اخلاق کے سب سے اونچے منصب پر فائز ہیں)۔ اب ذرا غور فرمائیے! ہم جس رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے گیت گاتے ہیں، کیا ان کی تعلیمات کے ساتھ بھی ہمارا یہی رویہ ہے۔ جس صاحب خلق عظیمؐ نے پتھروں کی بارش کے درمیان رحمت کی دعائیں کیں، ان کی امت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی سماجی اور معاشرتی زندگی میں اخلاق نبویؐ کو اپنا شعار بنائے۔

یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ ہماری زندگی میں پیش آنے والے زیادہ تر مسائل ایسے ہیں جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کے نتیجہ میں ہمارے گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں۔ ہم آج پریشان بھی اس لیے ہیں کہ ہم نے قرآنی ہدایات اور تعلیمات نبویؐ کے مطابق زندگی گزارنا چھوڑ دیا ہے اور اس مشہور حدیث کے مصداق بن گئے ہیں کہ ’’اسلام کی ابتدا بطور اجنبی ہوئی، وہ پھر سے اجنبی ہو جائے گا۔ لہٰذا اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)


یہ حدیث وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم نے طریقہ مصطفیٰؐ سے مجرمانہ غفلت نہ برتی ہوتی تو آج ظلمتوں کے تاریک سائے ہمیں زیر نہ کر رہے ہوتے۔ بقول شاعر:

تیرا نقش پا تھا جو رہنما تو غبارِ راہ تھی کہکشاں

اسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔