سونیا اور راہل اب سیدھے مودی پر حملے کو تیار

دو الگ الگ مقامات پرعلیحدہ تقریبات میں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کا پیغام بالکل واضح تھا کہ اب کانگریس کے دونوں اعلی رہنماؤں نے بی جے پی اور وزیر اعظم کو سیدھے چیلنج دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی ایک فائل تصویر 
سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی ایک فائل تصویر
user

قومی آوازبیورو

9 مارچ کو ممبئی میں ایک میڈیا کانکلیو سے خطاب کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا کہ ہمارے ملک، ہمارے سماج اور ہماری آزادی پر مستقل منصوبہ بند حملے ہو رہے ہیں۔ وہیں8 مارچ کو سنگاپور میں وہاں رہ رہے ہندوستانیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ ہندوستان میں آ ج کل بہت ہی گندی سیاست کا کھیل چل رہا ہے۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ کہ تشدد اور یہاں تک کہ قتل کے ذریعہ متبادل آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے حساب سے سوچنےکی آزادی، اتفاق نہ کرنا ،اپنی پسند سے کھانے، اپنی خواہش سے کسی سے ملنے جلنے اور شادی کرنے اور دیگر کئی باتوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔

سامعین میں موجود جب ایک شخص کے یہ کہنے پر کہ نہرو۔ گاندھی خاندان سے تعلق رکھنے والے وزراء اعظم کی قیادت میں ہندوستان نے کوئی ترقی نہیں ہوئی تو راہل گاندھی نے ان سے سوال کیا ’’آپ نے جو بات مجھ سے ابھی کہی ہے، وہ بات نریندر مودی کے سامنے کہنے کی کبھی آپ میں ہمت نہ ہو گی۔ اس طرح کی تقریب میں کسی شخص کے ذریعہ میرے ہی سامنے میری تنقید کرنا میرے لئے فخر کی بات ہے‘‘۔

ماں اور بیٹے دو الگ الگ مقامات پر دو علیحدہ تقریبات کو خطاب کر رہے تھے۔ دونوں کی زبان اور کہنے کا طریقہ الگ تھا لیکن دونوں ہی کا پیغام صاف تھا۔ دونوں ہی رہنماؤں نے بی جے پی اور مودی حکومت کے خلاف بولنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

سونیا کے خطاب میں کئی سیاسی حملے تھےاور نشانہ بالکل سٹیک تھا۔ مودی دور میں ملک کے موجودہ حالات پر کسی کے ذریعہ دیئے گئے اب تک کے سب سے زیادہ چبھنے والے بیان تھے۔

ان کے خطاب کے کچھ حصوں سے ان کےمطالب کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

کیا میکسیمم (زیادہ) حکومت کا مطلب منیمم (کم سے کم) سچائی ہوتی ہے۔

اس بات کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہ کرے۔ یہ ہندوستان کے خیال کو نئے سرے سے گڑھنے کا ایک بہت ہی احتیاط سے تیار کیا گیا منصوبہ ہے۔ اس میں تاریخ کو پھر سے لکھنا، حقیقت کے ساتھ ہیرا پھیری کرنا، قوم کے معماروں کو بدنام کرنا اور شدت پسندی کو پھیلانا شامل ہے۔

مذہبی تناؤ بھڑکایا جا رہا ہے۔ پرتشدد بھیڑ اور نجی سیناؤں کو حکومت کے تحفظ کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ دلتوں اور خواتین پر مظالم کے معاملوں میں انتہائی غیر حساس ہونے کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔انتخابات جیتنے کے لئے سماج کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔

غریبوں کو مضبوط بنانے کے بنیادی مقاصد کے بجائے آدھار کو کنٹرول کے لئے ایک گھس پیٹھ کے ذریعہ میں بدلا جا رہا ہے ۔

اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے بہت آسان اور اچھے انداز میں سوالوں کے جواب دئے اور مودی کے عین خلاف سبھی لوگوں کے سوالوں کے جواب دئے۔

جب سونیا سے پوچھا گیا کہ وہ نریندر مودی کے بارے میں کیا سوچتی ہیں تو سونیا نے کہا ’’میں نے پوری رمائن پڑھ دی اور اب آپ مجھ سے رام اور سیتا کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ‘‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کیا آپ مودی کو صلاح دیں گی تو سونیا نے طنز کرتے ہوئے کہا ’’کیا وہ کسی سے صلاح مانگتے ہیں‘‘۔

کانگریس پارٹی کے دوبارہ اقتدار کے امکانات پر سونیا نے کہا ’’سال 2014 میں ہم اس لئے ہارے کیونکہ ہم مستقل دو ٹرم سے اقتدار میں تھے۔ اور یقینی طور پر ہمارے خلاف حکومت مخالف لہر تھی لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ ہم تشہیر میں پچھڑ گئےتھے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم واپسی کرنے جا رہے ہیں۔ ہم انہیں اقتدار میں واپس نہیں آنے دیں گے۔ بی جے پی کے اچھے دنووں کا حال بھی انڈیا شائننگ جیسا ہی ہوگا‘‘۔

سنگاپور میں راہل نے بھی اسی طرح کے اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’ہم ان کا (مودی) مقابلہ کریں گے اور ہم انہیں ہرائیں گے‘‘۔ راہل گاندھی نے نریندر مودی کے گلے لگانے کی حکمت عملی پر بھی حملہ کرنے کا موقع نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس طرح کے پروگرام میں کسی شخص کے ذریعہ میرے سامنے میری تنقید کئے جانے پر مجھے فخر ہے ‘‘۔ ا س کے آگے انہوں نے کہا ’’نریندر مودی ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ اس پروگرام کے بعد میں آپ سے گلے مل کر کہنا چاہوں گا کہ آپ میرے لئے بہت اہم ہیں‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Mar 2018, 7:47 AM