سونیا گاندھی: مضبوط وجود اور انسانیت سے بھرپور شخصیت... وجاہت حبیب اللہ

سونیا برے وقت میں بھی انسانیت نہیں بھولتیں، راجیو کا جسد خاکی لانے مینابکم پہنچی سونیا نے کہا تھا ’مسٹر گپتا کہاں ہیں؟ میں مسزا گپتا کا سامنا کیسے کروں گی اگر ان کے شوہر کے بغیر میں واپس چلی گئی۔‘

سونیا گاندھی، تصویر@INCIndia
سونیا گاندھی، تصویر@INCIndia
user

وجاہت حبیب اللہ

فروری 1968 میں راجیو گاندھی لندن میں طالب علم تھے۔ تب انھوں نے اطالوی کاروباری اسٹیفنو مائنو کی بیٹی سونیا سے شادی کی۔ وہ سونیا سے اس وقت ملے تھے جب وہ انگلینڈ میں پڑھائی اور کام کر رہے تھے۔ ان کی ملاقات کیمبرج کے ایک یونانی ریستوراں ورسٹی یں ہوئیت ھی۔ راجیو کے انتقال کے بعد غمگین سونیا کے الفاظ تھے ’’جیسے ہی ہماری آنکھیں پہلی بار ملیں، میرے دل کی دھڑکن کافی تیز ہو گئی تھی۔ میں اسے صاف صاف محسوس کر پا رہی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کا استقبال کیا اور جہاں تک میرا معاملہ ہے، یہ پہلی نظر کا پیار تھا۔ حالانکہ ان کا بھی کچھ یہی حال تھا جو انھوں نے بعد میں مجھے بتایا۔‘‘

اس کے بعد یہاں ہندوستان میں میرا کئی بار راجیو سے ملنا ہوا، لیکن سونیا کے ساتھ مجھے کوئی خاص بات چیت یاد نہیں ہے، جب کہ راجیو اور میں دون اسکول (دہرادون) کے ہی طالب علم ہونے کے سبب آپس میں کافی ہنسی مذاق کیا کرتے تھے۔

وزیر اعظم دفتر میں مدت کار پورا ہونے کے بعد مجھے لکشدیپ میں ایڈمنسٹریٹر کی شکل میں تقرر کیا گیا تھا۔ 1988 میں راجیو کے سرکاری لکشدیپ دورہ کے دوران سونیا نے سرکاری پروگراموں سے الگ میری بیوی شاہیلا کے ساتھ وقت گزارا۔ شاہیلا سونیا کو ایکویریم لے گئی جو لکشدیپ کے اس وقت فش ڈائریکٹر جارج ورگیز کے ذریعہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت لکشدیپ آنے والوں کے لیے خاص توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ سونیا ہندوستانی فلاح اطفال کونسل کے ذریعہ قائم بچوں کی نرسری (بال واڑی) گئیں اور ریاستی سماج فلاح بورڈ کے بک بائنڈنگ سنٹر میں خواتین کے ساتھ بھی انھوں نے وقت گزارا۔ اس کے بعد ہم علاقائی کلچرل پروگرام کے افتتاح کے لیے منیکائے گئے۔

اگلے سال راجیو کی حکومت لوک سبھا الیکشن ہار گئی۔ 1989 سے 1991 تک دو غیر مستحکم اتحادی حکومتوں نے ہندوستان کو نسبتاً دیوالیہ بنا دیا تھا۔ ایک بار پھر عام انتخاب ہوئے۔ 21 مئی 1991 کو راجیو نے شری پیرمبدور کے لیے پرواز بھری جو ایک مشکل اور تلخ انتخابی مہم کا آخری مرحلہ تھا۔ یہاں سے انھیں جیت کی پوری امید تھی۔ لیکن جیسے وہ ان لوگوں کے درمیان، جنھیں وہ بے پناہ پیار کرتے تھے، ہمیشہ کی طرح بھروسے اور اعتماد کے ساتھ پہنچے، وہ ان کی آخری پرواز ثابت ہوئی۔


کشمیری آئی اے ایس افسر ڈاکٹر سی کے گریالی تب تمل ناڈو کی صحت و خاندانی منصوبہ بندی کی خصوصی سکریٹری تھیں۔ وہ تمل ناڈو کے تنجاور کے جنوبی علاقہ کلچرل سنٹر کی پہلی ڈائریکٹر بھی تھیں جس کا افتتاح راجیو نے 1986 میں کیا تھا۔ تب افتتاح کے وقت ان کے ساتھ سونیا، وزیر اعلیٰ ایم جی رام چندرن، ایم ایس سبالکشمی اور رقاصہ ڈاکٹر پدما سبرامنیم بھی تھیں۔ گریالی نے ہی جے. فین اینڈ کمپنی کا تابوت خصوصی طور پر منگوایا۔ رجیو کے جسد خاکی کو مینابکم لے جایا گیا جہاں سے سونیا اور پرینکا ان کو لے کے لیے دہلی سے آئے تھے۔

گریالی آج بھی ان دنوں کو جب یاد کرتی ہیں تو کہتی ہیں کہ سونیا نے اس وقت صرف یہی کہا تھا ’’مسٹر گپتا کہاں ہیں؟ میں مسز گپتا کا سامنا کیسے کروں گی اگر میں ان کے شوہر کے بغیر واپس چلی گئی؟‘‘ اور ماں و بیٹی دونوں نے ڈیڑھ گھنٹے تک انتظار کیا جب تک کہ گریالی گپتا کے جسد خاکی کو ایمبولنس سے لانے اور تمام ضروری انتظامات کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس کے بعد ہی وہ خصوصی طیارہ سے دہلی کے لیے روانہ ہوئیں۔

سونیا کی ذاتی نگرانی میں ہی راجیو کو جمنا کے ساحل پر مہاتما گاندھی، راجیو کے اپنے دادا پنڈت نہرو، ان کی ماں اندرا کی سمادھی کے بغل میں ’شانتی وَن‘ (پنڈت نہرو کا سمادھی استھل) احاطہ میں آخری جگہ دی گئی۔ راجیو کی سمادھی کا نام ’ویر بھومی‘ یعنی بہادروں کی زمین رکھا گیا، جس میں سونیا کی سوچ اور پیغام پوشیدہ ہیں۔ تمل ناڈو کے شری پیرمبدور کے جس مقام پر راجیو کا انتقال ہوا تھا، وہاں پر بھی ان کی یاد میں ایک یادگار قائم کیا گیا۔ دونوں کی فن تعمیر کی خصوصیت ہے– سونیا کی بولی کی طرح پرکشش نشیب و فراز اور سایہ دار درختوں کی طرح چھوٹے جنگل۔

میں نے سونیا گاندھی میڈم (میں ان کو ہمیشہ اسی نام سے بلاتا رہا اور آج بھی یہی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں) کو جاننا تب شروع کیا جب راجیو گاندھی کے نظریات کو قومی پالیسی میں آگے بڑھانے کے لیے انھوں نے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کا تصور پیش کیا۔ بغیر کسی اپیل کے اس کے لیے معاشی مدد کی پیشکش ہر طرف سے ہونے لگی۔ اس طرح کی مدد عموماً ان لوگوں سے آئی جن سے راجیو گاندھی کی فیملی انجان تھی، یا میرے جیسے ان لوگوں سے جنھوں نے راجیو گاندھی کے ساتھ کام کیا اور جن کی راجیو نے کسی نہ کسی طرح کی مدد کی تھی۔ امداد کرنے والوں کے لیے راجیو گاندھی کی موت پر آنسو بہا کر اپنا غم ظاہر کرنے کی جگہ ان کے ادھورے خواب کو پورا کرنے میں مدد کرنے سے بہتر بھلا دوسرا طریقہ کیا ہو سکتا تھا؟


فاؤنڈیشن کی شروعات 11 جولائی 1991 کو ملک کے اس وقت کے نائب صدر ڈاکٹر شنکر دیال شرما کی سرکاری رہائش پر ایک میٹنگ میں ہوئی۔ سونیا گاندھی سربراہ تھیں اور ڈاکٹر شرما کے علاوہ دیگر رکن تھے– راہل اور پرینکا، پرانے دوست سمن دوبے، چچازاد بھائی سنیل نہرو اور اندرا گاندھی کے سابق نجی سکریٹری این کے شیسن۔ اس کے بعد وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ، بچپن کے دوست امیتابھ بچن، پی چدمبرم، منی شنکر ایر، ایم جے اکبر، سیم پترودا اور شیکھر راہا جیسے سابق معاونین کو بھی شامل کیا گیا۔ ایس بی چوہان، ڈاکٹر سی این آر راؤ، وی کرشن مورتی اور مونٹیک سنگھ اہلووالیہ بھی اس میں شامل ہوئے۔

اسی سال اگست میں سونیا نے فیصلہ کیا کہ فاؤنڈیشن میں ریسرچ اور تحقیق کے لحاظ سے ایک ’تھنک ٹینک‘ بھی بنایا جائے گا۔ عابد حسین کو اس کا نائب سربراہ بنایا گیا جو آندھرا پردیش کیڈر کے معروف سول سروینٹ تھے اور حال فی الحال میں امریکہ کے سفیر کی ذمہ داری سے آزاد ہو کر لوٹے تھے۔ سونیا سے، جو افسوسناک طور پر میرے عزیز دوست کی بیوہ بن گئی تھی، میں نے اس نوتشکیل یونٹ میں اپنی خدمات دینے کی گزارش کی۔ ضرورت پڑنے پر میں نے اپنی ملازمت چھوڑنے کی بھی بات کہی۔ سونیا نے مجھے بتایا کہ وہ اس پیشکش کی عزت کرتی ہیں لیکن وہ اسے تبھی قبول کریں گی جب میں اپنی سروس چھوڑ دوں۔ مجھے سونیا گاندھی کے ساتھ کام کرنے کا راستہ مل چکا تھا، لیکن انھوں نے کبھی بھی ان لوگوں سے کوئی قربانی نہیں مانگی جنھوں نے ان کو مدد کی پیشکش کی۔ وہ یہی مانتی تھیں کہ انھیں دینے والا بننا ہے، عطیہ لینا نہیں ہے۔ اکتوبر 1991 میں بطور سکریٹری میں فاؤنڈیشن میں تقرر ہو گیا۔ وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے بھی راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کے لیے 100 کروڑ روپے کے ایک فنڈ کی منظوری دی لیکن سونیا نے اسے بھی انتہائی خلوص کے ساتھ منع کر دیا۔

فاؤنڈیشن کے پاس صحت، خواندگی، جسمانی قوت اور سائنس و ٹیکنالوجی پر پروگرام چلانے کے لیے الگ الگ یونٹس تھیں۔ راجیو کو 19 نومبر 1991 کو امن، تخفیف اسلحہ اور ترقی کے لیے اندرا گاندھی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ تخفیف نیوکلیائی اسلحہ، امن عالم اور عالمی معاشی ترقی کے لیے ان کے کام اور بہترین تعاون کو عالمی منظوری دی گئی تھی۔ یکم اور 2 مئی 1993 کو راجیو گاندھی فاؤنڈیشن نے نیوکلیائی اسلحہ سے پاک دنیا اور تشدد سے پاک عالمی معیشت بنانے کے لیے ایک منصوبہ کار پر غور و خوض کے لیے ’دی راجیو گاندھی میموریل انیشیٹو فار دی ایڈوانسمنٹ آف ہیومن سولائیشن‘ منعقد کی۔ اس میں دولت مشترکہ کے اس وقت کے جنرل سکریٹری امیکا انیاؤکو اور سری لنکا کے جے آر جے وردھنے اور مالدیپ کے آئی ایچ ذکی سمیت کئی سابق صدور، وزرائے اعظم اور وزراء نے شرکت کی۔ کئی نوبل انعام یافتگان، نظریہ ساز اور اسٹاک ہوم (سویڈن) سے بین الاقوامی امن بیورو کی عالمی سربراہ میجر برٹ تھیوری بھی اس میں شامل ہوئیں۔

آج اپنی 75ویں سالگرہ مناتے ہوئے جب سونیا گاندھی ملک بھر کے اپنے شیدائیوں کے ساتھ ساتھ یقیناً ناقدین کے ساتھ ہندوستان کی سب سے اہم سیاسی لیڈروں میں شمار ہیں، مجھے اچھے دنوں کے ساتھ ساتھ اس برے وقت کی بھی یاد ہو آتی ہے جب انھوں نے پہلی بار اپنے مضبوط وجود اور انسانیت کا مظاہرہ کیا۔ یہ ہندوستان کے سیاسی فلک پر ان کے لگاتار عروج سے بھی جڑا ہوا ہے۔فروری 1968 میں راجیو گاندھی لندن میں طالب علم تھے۔ تب انھوں نے اطالوی کاروباری اسٹیفنو مائنو کی بیٹی سونیا سے شادی کی۔ وہ سونیا سے اس وقت ملے تھے جب وہ انگلینڈ میں پڑھائی اور کام کر رہے تھے۔ ان کی ملاقات کیمبرج کے ایک یونانی ریستوراں ورسٹی یں ہوئیت ھی۔ راجیو کے انتقال کے بعد غمگین سونیا کے الفاظ تھے ’’جیسے ہی ہماری آنکھیں پہلی بار ملیں، میرے دل کی دھڑکن کافی تیز ہو گئی تھی۔ میں اسے صاف صاف محسوس کر پا رہی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کا استقبال کیا اور جہاں تک میرا معاملہ ہے، یہ پہلی نظر کا پیار تھا۔ حالانکہ ان کا بھی کچھ یہی حال تھا جو انھوں نے بعد میں مجھے بتایا۔‘‘


اس کے بعد یہاں ہندوستان میں میرا کئی بار راجیو سے ملنا ہوا، لیکن سونیا کے ساتھ مجھے کوئی خاص بات چیت یاد نہیں ہے، جب کہ راجیو اور میں دون اسکول (دہرادون) کے ہی طالب علم ہونے کے سبب آپس میں کافی ہنسی مذاق کیا کرتے تھے۔

وزیر اعظم دفتر میں مدت کار پورا ہونے کے بعد مجھے لکشدیپ میں ایڈمنسٹریٹر کی شکل میں تقرر کیا گیا تھا۔ 1988 میں راجیو کے سرکاری لکشدیپ دورہ کے دوران سونیا نے سرکاری پروگراموں سے الگ میری بیوی شاہیلا کے ساتھ وقت گزارا۔ شاہیلا سونیا کو ایکویریم لے گئی جو لکشدیپ کے اس وقت فش ڈائریکٹر جارج ورگیز کے ذریعہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت لکشدیپ آنے والوں کے لیے خاص توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ سونیا ہندوستانی فلاح اطفال کونسل کے ذریعہ قائم بچوں کی نرسری (بال واڑی) گئیں اور ریاستی سماج فلاح بورڈ کے بک بائنڈنگ سنٹر میں خواتین کے ساتھ بھی انھوں نے وقت گزارا۔ اس کے بعد ہم علاقائی کلچرل پروگرام کے افتتاح کے لیے منیکائے گئے۔

اگلے سال راجیو کی حکومت لوک سبھا الیکشن ہار گئی۔ 1989 سے 1991 تک دو غیر مستحکم اتحادی حکومتوں نے ہندوستان کو نسبتاً دیوالیہ بنا دیا تھا۔ ایک بار پھر عام انتخاب ہوئے۔ 21 مئی 1991 کو راجیو نے شری پیرمبدور کے لیے پرواز بھری جو ایک مشکل اور تلخ انتخابی مہم کا آخری مرحلہ تھا۔ یہاں سے انھیں جیت کی پوری امید تھی۔ لیکن جیسے وہ ان لوگوں کے درمیان، جنھیں وہ بے پناہ پیار کرتے تھے، ہمیشہ کی طرح بھروسے اور اعتماد کے ساتھ پہنچے، وہ ان کی آخری پرواز ثابت ہوئی۔

کشمیری آئی اے ایس افسر ڈاکٹر سی کے گریالی تب تمل ناڈو کی صحت و خاندانی منصوبہ بندی کی خصوصی سکریٹری تھیں۔ وہ تمل ناڈو کے تنجاور کے جنوبی علاقہ کلچرل سنٹر کی پہلی ڈائریکٹر بھی تھیں جس کا افتتاح راجیو نے 1986 میں کیا تھا۔ تب افتتاح کے وقت ان کے ساتھ سونیا، وزیر اعلیٰ ایم جی رام چندرن، ایم ایس سبالکشمی اور رقاصہ ڈاکٹر پدما سبرامنیم بھی تھیں۔ گریالی نے ہی جے. فین اینڈ کمپنی کا تابوت خصوصی طور پر منگوایا۔ رجیو کے جسد خاکی کو مینابکم لے جایا گیا جہاں سے سونیا اور پرینکا ان کو لے کے لیے دہلی سے آئے تھے۔


گریالی آج بھی ان دنوں کو جب یاد کرتی ہیں تو کہتی ہیں کہ سونیا نے اس وقت صرف یہی کہا تھا ’’مسٹر گپتا کہاں ہیں؟ میں مسز گپتا کا سامنا کیسے کروں گی اگر میں ان کے شوہر کے بغیر واپس چلی گئی؟‘‘ اور ماں و بیٹی دونوں نے ڈیڑھ گھنٹے تک انتظار کیا جب تک کہ گریالی گپتا کے جسد خاکی کو ایمبولنس سے لانے اور تمام ضروری انتظامات کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس کے بعد ہی وہ خصوصی طیارہ سے دہلی کے لیے روانہ ہوئیں۔

سونیا کی ذاتی نگرانی میں ہی راجیو کو جمنا کے ساحل پر مہاتما گاندھی، راجیو کے اپنے دادا پنڈت نہرو، ان کی ماں اندرا کی سمادھی کے بغل میں ’شانتی وَن‘ (پنڈت نہرو کا سمادھی استھل) احاطہ میں آخری جگہ دی گئی۔ راجیو کی سمادھی کا نام ’ویر بھومی‘ یعنی بہادروں کی زمین رکھا گیا، جس میں سونیا کی سوچ اور پیغام پوشیدہ ہیں۔ تمل ناڈو کے شری پیرمبدور کے جس مقام پر راجیو کا انتقال ہوا تھا، وہاں پر بھی ان کی یاد میں ایک یادگار قائم کیا گیا۔ دونوں کی فن تعمیر کی خصوصیت ہے– سونیا کی بولی کی طرح پرکشش نشیب و فراز اور سایہ دار درختوں کی طرح چھوٹے جنگل۔

میں نے سونیا گاندھی میڈم (میں ان کو ہمیشہ اسی نام سے بلاتا رہا اور آج بھی یہی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں) کو جاننا تب شروع کیا جب راجیو گاندھی کے نظریات کو قومی پالیسی میں آگے بڑھانے کے لیے انھوں نے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کا تصور پیش کیا۔ بغیر کسی اپیل کے اس کے لیے معاشی مدد کی پیشکش ہر طرف سے ہونے لگی۔ اس طرح کی مدد عموماً ان لوگوں سے آئی جن سے راجیو گاندھی کی فیملی انجان تھی، یا میرے جیسے ان لوگوں سے جنھوں نے راجیو گاندھی کے ساتھ کام کیا اور جن کی راجیو نے کسی نہ کسی طرح کی مدد کی تھی۔ امداد کرنے والوں کے لیے راجیو گاندھی کی موت پر آنسو بہا کر اپنا غم ظاہر کرنے کی جگہ ان کے ادھورے خواب کو پورا کرنے میں مدد کرنے سے بہتر بھلا دوسرا طریقہ کیا ہو سکتا تھا؟

فاؤنڈیشن کی شروعات 11 جولائی 1991 کو ملک کے اس وقت کے نائب صدر ڈاکٹر شنکر دیال شرما کی سرکاری رہائش پر ایک میٹنگ میں ہوئی۔ سونیا گاندھی سربراہ تھیں اور ڈاکٹر شرما کے علاوہ دیگر رکن تھے– راہل اور پرینکا، پرانے دوست سمن دوبے، چچازاد بھائی سنیل نہرو اور اندرا گاندھی کے سابق نجی سکریٹری این کے شیسن۔ اس کے بعد وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ، بچپن کے دوست امیتابھ بچن، پی چدمبرم، منی شنکر ایر، ایم جے اکبر، سیم پترودا اور شیکھر راہا جیسے سابق معاونین کو بھی شامل کیا گیا۔ ایس بی چوہان، ڈاکٹر سی این آر راؤ، وی کرشن مورتی اور مونٹیک سنگھ اہلووالیہ بھی اس میں شامل ہوئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔