تو اس بار جلوس میں یہ ہے بریلی کے ’لونڈوں‘ کا پلان!

لڑکا مجھے سمجھا گیا کہ بریلی کے ’لونڈوں‘ نے پورا پلان بنا لیا ہے۔ خرچ دل کھول کر کیا ہے۔ ڈریس تیار ہے۔ ڈی جے بھی آ چکا ہے۔ اب بس موقع ملنے کی دیر ہے

<div class="paragraphs"><p>عید میلادالنبیؐ کے جلوس کی فائل تصویر / Getty Images</p></div>

عید میلادالنبیؐ کے جلوس کی فائل تصویر / Getty Images

user

مشاہد رفعت

میں نے سوچا تھا کہ اس بار عید میلادالنبیؐ کے جلوس سے پہلے محلے محلے جا کر انجمنوں کے صدر اور سیکرٹری سے پوچھوں گا کہ ڈی جے تو نہیں لانے والے؟ اگر لا رہے ہیں تو کتنے پیسوں میں لائیں گے اور ڈی جے کے ساتھ بیس بھی ہوگا یا نہیں؟ میرا پلان تھا کہ تمام معلومات کی ایک رپورٹ بنا کر آپ سب کے سامنے رکھ دوں گا۔ ہر سال اس طوفان بدتمیزی پر قلم گھسانے کے علاوہ میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں! مگر افسوس، میں اتنا بھی نہیں کر سکا۔ کہیں نہیں جا سکا، کسی سے کچھ نہ پوچھ سکا۔ منیر نیازی کی نظم کا مصرعہ مجھ پر بالکل فٹ بیٹھا – “ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں”۔ اپنی کاہلی کی وجہ سے مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اس بار جلوس سے پہلے ڈی جے کی کوئی تفصیل نہیں ملے گی۔ مگر پھر اچانک، میری قسمت نے میری کاہلی کو مات دے دی اور مجھے ایک ہی جگہ پر اپنے تمام سوالوں کے جواب مل گئے۔ آپ بھی یہ تمام جواب پڑھ لیں اور جان لیں کہ اس بار عید میلادالنبیؐ کے جلوس میں بریلی کے لونڈوں (لڑکوں) نے کیا پلان بنایا ہے۔

تو جناب، یہ سین ہے پرانے شہر میں ایک چکن کی دکان کا۔ مغرب کی نماز کے بعد کا وقت ہے۔ استاد کُندی پر ایک مرغے کے پیس بنا رہا ہے اور شاگرد دوسرے مرغے کی کھال اتار رہا ہے۔ شاگرد کا دوست پاس ہی کھڑا ہے، اس انتظار میں کہ کب اس کا یار کام سے فارغ ہوگا اور کب وہ اسے ساتھ لے کر اپنے مشن پر نکلے گا۔ ہر بار جب دوست کو لگتا ہے کہ اب چھٹی ہونے ہی والی ہے، تبھی کوئی گاہک آ جاتا ہے۔ اسی چکر میں تقریباً بیس منٹ گزر چکے ہیں۔ انتظار کرنے والا لڑکا اب کسمسانے لگا ہے۔ مگر اب تقریباً طے ہے کہ چھٹی میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کیونکہ پنجرے میں صرف ایک ہی مرغا بچا ہے۔ آخری مرغا ذبح ہوتے ہی وہ اپنے دوست سے کہتا ہے - جلدی چل، انجمن والے آج ڈریس بانٹ رہے ہیں، پرسو جلوس ہے، چل نا!


بات بہت واضح تھی، سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ انجمن والے لوگ عید میلادالنبیؐ کے جلوس کا یونیفارم بانٹ رہے ہوں گے۔ میں نے لڑکے سے پوچھا – نئی ڈریس بنی ہے؟ اس نے جلدی جلدی ٹی شرٹ پہنتے ہوئے ’ہاں‘ میں سر ہلا دیا۔ میں نے پوچھا - کتنے پیسے دیے تم نے؟ وہ بولا – اُتے ای دیے جتے پچھلی دفعہ دیے تھے، ساڑھے تیرہ سو۔ میں نے جلدی سے اگلا سوال پوچھا – ڈی جے کیا ہے اس بار؟ اس سوال پر لڑکا مسکرایا اور کچھ رُک کر بولا – ہاں، کیا ہے۔ میں نے پوچھا - کتنے میں ہوا؟ وہ چوڑا ہو کر بولا – پورے چالیس ہزار میں۔ اب میں نے اپنا آخری اور سب سے ضروری سوال پوچھا – اس بار ڈی جے کے ساتھ بیس لیا ہے یا نہیں؟ میرے اس سوال کو خوب سمجھتے ہوئے لڑکا ذرا اور مزہ لے کر مسکرایا، پھر اپنی ایک بھوں چڑھاتے ہوئے بولا – ڈی جے والے نے کہا ہے کہ اگر سب کے ڈی جے میں بیس ہوئی اور سب نے بجائی تو میں تمہارے والے میں بھی لگا دوں گا، اتے ای پیسوں میں! یہ کہہ کر لڑکے نے استاد سے اجازت لی اور دوست کے ساتھ پُھر ہو گیا۔

جاتے جاتے وہ لڑکا مجھے سمجھا گیا کہ بریلی کے ’لونڈوں‘ نے پورا پلان بنا لیا ہے۔ خرچ دل کھول کر کیا ہے۔ ڈریس تیار ہے۔ ڈی جے بھی آ چکا ہے۔ اب بس موقع ملنے کی دیر ہے۔ جیسے ہی موقع ملے گا، ڈی جے کے ساتھ بیس بھی بجے گا اور لڑکے ہوا میں رومال لہرا لہرا کر خوب کودیں گے۔ آپ سے جو بن پڑے، کر لیجئے گا! مجھ سے جو ہو سکتا تھا، میں نے کر دیا۔