سرسید احمد خاں کا تعلیمی مشن...یوم پیدائش کے موقع پر

سر سید احمد خاں نے اپنی حکمت عملی اور دانائی سے مسلمانوں کے تئیں برطانوی نو آبایاتی نظام کی انتقامی آگ کو کچھ ٹھنڈا کیا اور مسلمانان ہند کے لیے اپنی ہر سانس وقف کر دی

<div class="paragraphs"><p>سر سید احمد خاں</p></div>

سر سید احمد خاں

user

شاہد صدیقی علیگ

یہ امر مسلمہ ہے کہ اگر پہلی ملک گیر جنگ آزادی 1857 کا طبل نہ بجتا تو سرسید احمد خاں ایک عظیم مؤرخ ہوتے یعنی تاریخ کے بجائے انہیں تعلیمی میدان میں نمایاں کارہائے انجام دینے میں تحریک آزادی کی ناکامی کا بڑا ہاتھ ہے۔ وہ 1857ء کے عینی شاہد ہیں۔جنہوں نے موت وزندگی سے بے نیاز مجاہدین کے ذریعہ کمپنی بہادر کی عمل داری ریت کے ذروں کی طرح اڑتی بھی دیکھی اوردوبارہ فرنگیوں کی بالادستی قائم ہونے کے مجاہد ین کے ساتھ ساتھ نہتے شہریوں پر حیوانیت و جبر واستبداد کے پہاڑٹوٹتے ہوئے بھی۔منتقم فوجیوں کے عدل و انصاف کے مغائرلوٹ مار، دراز دستی اور انسانیت سوز قتل وغارت گری نے سرسید احمد خا ں کی روح کو جھنجوڑ کر ر کھ دیا۔انہوں نے بجنور کے عظیم انقلابی نواب محمود خاں کو جو پیشن گوئی کی تھی آخر وہ سچ ثابت ہوئی۔

”خداکی قسم نواب صاحب میں تمہاری خیر خواہی سے کہتاہوں کہ تم اس ارادہ کو دل سے نکال دو۔حکام انگریزی کی عملداری کبھی نہیں جائے گی۔“

بہرحال سر سید احمد خاں نے اپنی حکمت عملی اور دانائی سے مسلمانوں کے تئیں برطانوی نو آبایاتی نظام کی انتقامی آگ کو کچھ ٹھنڈا کیا اور مسلمانان ہند کے لیے اپنی ہر سانس وقف کر دی۔ مستقبل شناس سرسید احمد نے انہیں ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تعلیم کا فسوں دیا۔سرسید کا نقطہ نظر تھا کہ قوم کی کامیابی کا واحد زینہ جدید تعلیم ہے۔ انہوں نے پند ونصیحت کی کہ وہ ہرحال میں اسے حاصل کریں۔ لیکن سر سید نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ اس پر عمل آواری کرتے ہوئے سنہ 1859ء میں گلشن اسکول (مرادآباد) ، 1863ء میں وکٹوریہ اسکول (غازی پور) اور سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔مزید برآں 1875ء میں علی گڑھ میں ایک مدرسہ کی داغ بیل ڈا لی جوبعد ازاں 1877ء ایم۔ اے۔ او۔ کالج کہلایا۔


مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے متعلق سنہ1868ء کی ایک رپورٹ کے مطابق کلکتہ عدالت عالیہ سے 240/سند یافتہ وکیلوں میں ایک مسلمان،107 سندیافتہ ڈاکٹروں میں محض ایک مسلمان،محکمہ تعمیرات کے ہزاروں ملازمین میں صرف ایک مسلمان سب انجینئر تھا۔ اسی طرح جب سرسید نے ایم۔اے۔ او ۔کالج کی بنیاد رکھی تھی تو اس وقت برصغیر میں مسلم گریجوٹیس کی تعداد بہ مشکل بیس(20) تھی۔جن میں سترہ(17)بی۔اے اور تین(3) ایم۔اے تھے۔لیکن سنہ 1877ء میں محمڈن اینگلو اور نیٹل کالج کی تشکیل سے لے کر سرسید احمد کی وفات (1898ء) تک مسلم پوسٹ گریجوٹیس کی تعداد میں % 15 اضافہ دیکھنے میں آیا یعنی ان کی تعداد بیس(20) سے بڑ ھ سے تین (300) سو ہوگئی تھی۔جن میں 126/پوسٹ گریجوٹیس اور 174 انڈر گریجوٹیس تھے۔

1886ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کی طرز پرصوبائی ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی گئیں۔جس نے برصغیر میں جدید تعلیم کے لیے انقلاب آفریں کارنامہ انجام دیے۔ ان کے اجتماعات میں ممتاز شخصیات شامل ہوتیں اور جن کی تقاریر شرکاء کے ذہن ودل پر اپنے قوی اثرات مرتسم کرتیں۔جس کے بعد مختلف علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کراچی، اسلامیہ کالج پشاور اور حلیم کالج کانپور وغیرہ علی گڑھ تحریک کے بطن سے ہی نکلے ہو ئے ادارے ہیں۔


علاوہ ازیں سرسید احمدنے برادران وطن کے رجحان کوآئی۔سی۔ ایس۔ کی طرف موڑنے کے لیے سول سروس امتحان کی ایک انجمن بھی قائم کی۔ان دنوں آئی۔سی۔ ایس۔کے امتحان انگلستان میں منعقد ہوتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کو سول سروس امتحانات میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ ان کی کاوشوں سے ابنائے وطن کا ایک بڑا حصّہ اس میں شریک ہونے کے لیے کمر بستہ ہوگیا۔

بلا شبہ سرسید احمد کی روشن کی ہوئی تعلیمی شمع سے معاشرے کا ہر طبقہ مستفید ہوا۔جس کا اندازہ 1896ء میں لیفٹیننٹ گورنر بنگال کے ان خیالات سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ:

”1881ء میں جب میں نے بنگال چھوڑا تھا تو صوبہ مذکورہ کے تمام مدارس اور کالجوں میں ایک لاکھ پچاس ہزار مسلمان طالب علم تھے اور اپنے آنے پر مجھ کو معلوم ہو ا کہ یہ تعداد قریب چار لاکھ نوے ہزار ہوگئی۔“

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرسید کے تعلیمی مشن کی اوائل میں مسلمانان ہند نے پرزور مخالفت کی۔ان کی راہ میں مختلف رکاوٹیں حائل کیں لیکن نباض وقت اور مصمم ارادے کے مجسمہ نے کسی کی کوئی پرواہ نہیں کی۔لہٰذا سرسید کے ناقد بھی ان کی استقامت کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔لیکن مصلح قوم سرسید احمد کی مساعی جمیلہ کی عظمت کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ ان کے خلاف مکّہ مکرمہ سے کفر کا فتویٰ لانے والے مولوی علی بخش بھی ایم۔ او۔کالج میں اپنے بھتیجے مشکور بخش کو کالج میں داخلے کے لیے سرسید احمد کو مکتوب لکھتے ہیں تو شروع اوائل میں علی گڑھ تحریک کا مذاق اڑانے والے طنز ومزاح کے مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی سرسید کے تئیں اپنی دلّی کیفیت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ:


جی میں آتا ہے علی گڑھ جاکے سید سے کہوں:مجھ سے چندہ لیجیے مجھ کو مسلماں کیجیے

بہر کیف سرسید احمد خان کی بے لوث کاوشوں او ر جانفشانیوں کا ثمرہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں کھڑا ہے۔جس سے بہرہ مند ہوکر ہر سال بے شمار فرزند ان علی گڑھ مختلف میدانوں میں اپنی نمایاں خدمات انجا م دیتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔