سر سید احمد خان: جہالت کو چیلنج کرنے والا مصلح...حسنین نقوی

سر سید احمد خان نے تعلیم، عقل اور مذہب کے امتزاج سے برصغیر کے مسلمانوں میں نئی فکری بیداری پیدا کی۔ علی گڑھ تحریک کے ذریعے انہوں نے جہالت کے اندھیروں میں علم و ترقی کی شمع روشن کی

<div class="paragraphs"><p>سر سید احمد خان</p></div>
i
user

حسنین نقوی

دہلی میں 17 اکتوبر 1817 کو ایک ایسے مفکر نے جنم لیا جس نے ہندوستانی مسلمانوں کی فکری، سماجی اور تعلیمی سمت ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ سر سید احمد خان—عالم، مصلح، منصف اور بصیرت کے پیکر—ایک شخص نہیں بلکہ ایک تحریک تھے۔ انہوں نے ایسے دور میں عقل و علم کی شمع روشن کی جب سامراجی طاقتوں کا دباؤ، مذہبی جمود اور سماجی پسماندگی نے قوم کو مایوسی میں ڈبو رکھا تھا۔

1857 کی جنگِ آزادی کے بعد جب انگریزوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان بداعتمادی بڑھ گئی تھی، سر سید نے رابطے اور مفاہمت کا راستہ اپنایا۔ ان کی اصلاحی تحریک نے علی گڑھ تحریک کی بنیاد رکھی، جس نے مسلمانوں کے فکری و سماجی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔

عدالتی خدمت سے تعلیمی انقلاب تک

سر سید نے اپنے کیریئر کا آغاز برطانوی عدلیہ میں کیا، جہاں انہوں نے حکمرانوں اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو قریب سے محسوس کیا۔ ان کی ابتدائی تصنیفات جیسے اثار الصنادید اور ’لائل محمڈنز آف انڈیا‘ ان کے تاریخی ذوق اور عملی فہم کا ثبوت تھیں۔ 1864 میں انہوں نے سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی تاکہ سائنسی اور جدید علوم کو اردو میں منتقل کیا جا سکے۔ یہ قدم ان کے یقین کا مظہر تھا کہ جہالت زوال کی اصل جڑ ہے اور علم ہی عزت و ترقی کی کنجی۔

ان کی سب سے بڑی کامیابی 1875 میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام سے ہوئی جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی طرز پر قائم اس ادارے کی جڑیں ہندوستانی تہذیب سے وابستہ ہیں۔ یہ صرف ایک تعلیمی مرکز نہیں بلکہ فکری بیداری اور قومی اتحاد کی علامت بنا۔


ایمان اور عقل کا حسین امتزاج

سر سید نے مذہب اور عقل کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی۔ 1870 میں شروع ہونے والا ان کا مجلہ ’تہذیب الاخلاق‘ اخلاقیات، مذہب اور معاشرتی اصلاح پر عقلی گفتگو کا پلیٹ فارم بنا۔ انہوں نے اسلام کی تشریحات کو جدید سائنس اور منطق کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔

ان کی تفسیر القرآن میں انہوں نے مذہب کو خرافات اور دکھاوے سے پاک کرنے کی کوشش کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ’خدا کا کلام خدا کی تخلیق کے خلاف نہیں ہو سکتا‘، یعنی سچائی چاہے دینی ہو یا سائنسی، دونوں ہم آہنگ ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام ایک زندہ مذہب ہے جو تحقیق اور عقل کے ذریعے مزید نکھرتا ہے۔

معاشرتی اصلاح اور خواتین کی تعلیم

سر سید کی اصلاحی سوچ تعلیمی اداروں تک محدود نہیں تھی۔ وہ سماج میں پھیلی ہوئی قدامت پسندی کے بھی ناقد تھے۔ انہوں نے کثرتِ ازدواج، پردہ نظام اور خواتین کی تعلیم سے غفلت جیسے موضوعات پر کھل کر بات کی۔ ان کا یقین تھا کہ کسی قوم کی ترقی عورتوں کی تعلیم اور کردار کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ معاشرہ اندھی تقلید چھوڑ کر عقل و اخلاق پر مبنی طرزِ زندگی اپنائے۔

سیاسی حکمت اور حقیقت پسندی

1857 کے سانحے کے بعد سر سید نے دیکھا کہ برطانوی اقتدار کے خلاف بغاوت مسلمانوں کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے انہوں نے تصادم کے بجائے تعلیم اور اصلاح پر زور دیا۔

1885 میں جب انڈین نیشنل کانگریس بنی تو انہوں نے اسے قبل از وقت سیاسی تحریک قرار دیا، کیونکہ ان کے خیال میں غیر تعلیم یافتہ قوم سیاست کے لیے تیار نہیں۔ ناقدین نے انہیں برطانوی حامی کہا، لیکن دراصل وہ حقیقت پسند تھے۔ ان کا نعرہ تھا ’پہلے تعلیم، پھر سیاست۔‘


اتحاد و ہم آہنگی کا علمبردار

سر سید کو بعض حلقوں نے فرقہ واریت کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے مخلص داعی تھے۔ انہوں نے کہا تھا، ’’ہندو اور مسلمان ہندوستان کی حسین دلہن کی دو آنکھیں ہیں۔‘‘ ان کا خواب ایک ایسا ہندوستان تھا جہاں مختلف مذاہب کے لوگ علم، اخلاق اور انصاف کی بنیاد پر متحد ہوں۔ ان کے نزدیک اخلاقیات وہ مشترک پل ہے جو سب کو جوڑ سکتا ہے۔

علی گڑھ تحریک: ایک فکری انقلاب

علی گڑھ تحریک صرف تعلیمی بیداری نہیں تھی بلکہ ایک فکری احیاء تھی۔ اس نے مسلمانوں کو خود اعتمادی، تنقیدی سوچ اور جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگی کا شعور دیا۔

اس تحریک سے نکلنے والے دانشوروں میں الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور مولانا آزاد شامل ہیں—جنہوں نے مشرق و مغرب، مذہب و عقل اور روایت و جدیدیت کے درمیان توازن پیدا کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہ صرف علم کا مرکز بلکہ سیکولر اور قومی شعور کا گہوارہ بھی بنی۔

اکیسویں صدی میں سر سید کی معنویت

ایسے دور میں جب معاشرہ تقسیم، غلط معلومات اور بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا شکار ہے، سر سید کا پیغام پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ تعلیم کو نجات کا ذریعہ سمجھنا، بین المذاہب ہم آہنگی کی وکالت کرنا اور مذہب کی عقلی تشریح پیش کرنا—یہ سب آج کے زمانے کے لیے ایک رہنمائی کا نقشہ فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا، ’’اسلام کا چہرہ دنیا کو نفرت کے ساتھ نہیں بلکہ محبت اور بھائی چارے کے ساتھ دکھاؤ۔‘‘ ان کی زندگی یہ سبق دیتی ہے کہ اصلاح ٹکراؤ سے نہیں، خود احتسابی سے شروع ہوتی ہے۔

ہندوستان کی نشاۃِ ثانیہ کا علمبردار

جس طرح ہندو سماج میں راجہ رام موہن رائے نے اصلاح اور نشاۃِ ثانیہ (تجدیدِ فکر) کی شمع جلائی، اسی طرح مسلمانوں میں سر سید احمد خان نے یہ فریضہ انجام دیا۔ دونوں نے جمود اور تنگ نظری کو للکارا، عقل و استدلال کو فروغ دیا، اور تعلیم کو اخلاقی احیاء کا مرکز قرار دیا۔ ان کے نزدیک ہندوستان کی ترقی کی بنیاد تقسیم نہیں بلکہ باہمی تعاون، روشن خیالی اور مشترکہ ترقی تھی۔


1898 میں سر سید کے انتقال کو ایک صدی سے زیادہ گزر چکی ہے لیکن وہ آج بھی نسلوں کو ماضی اور حال، ایمان اور تحقیق کے درمیان پل تعمیر کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ ان کی زندگی اس یقین کی زندہ علامت تھی کہ علم عبادت کی بہترین صورت ہے، اور اصلاح ایمان کا بلند ترین مظہر۔

سر سید کو یاد کرنا محض ماضی کی یاد تازہ کرنا نہیں، بلکہ ایک عملی دعوت ہے—اس وژن کو دوبارہ زندہ کرنے کی کہ ہندوستان تعلیم یافتہ، روادار اور ترقی پسند ہو۔ سر سید نے ایک بار لکھا تھا، ’’جہالت غربت کی ماں ہے اور علم خوشحالی کا باپ۔‘‘ ان کا یہ پیغام آج بھی علی گڑھ کی راہداریوں میں اور اس سے کہیں آگے گونج رہا ہے۔

(مضمون نگار حسنین نقوی، سینٹ زیویئرز کالج ممبئی کے شعبۂ تاریخ کے سابق رکن ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔