سر سید احمد خان: علم، بصیرت اور اصلاحِ قوم کے پیامبر

سر سید احمد خان نے تعلیم، سائنسی فکر اور اصلاحی جدوجہد کے ذریعے پسماندہ مسلمانوں کو نیا شعور دیا۔ علی گڑھ تحریک نے قوم کو علم، خود اعتمادی اور خدمت کے جذبے سے روشناس کرایا

<div class="paragraphs"><p>سر سید احمد خان</p></div>
i
user

عمران اے ایم خان

سترہ اکتوبر 1817 کو پیدا ہونے والے سر سید احمد خان ایک دوراندیش اور روشن خیال شخصیت تھے۔ وہ اس وقت کے ہندوستان میں پیدا ہوئے جب مسلم معاشرہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد شدید پسماندگی، خوف اور تعصب میں مبتلا تھا۔ اس دور میں زیادہ تر لوگ مذہب کو رسوم و رواج کے ساتھ جوڑ کر عقل اور سائنسی سوچ کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ سر سید احمد خان نے اپنے وقت کی سماجی اور تعلیمی خرابیوں کو سمجھا اور یہ جان لیا کہ مستقبل میں ترقی وہی کر پائے گا جو سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم میں مہارت حاصل کرے گا۔ انہوں نے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر قبول کیا اور اس کے لیے خود پر ہونے والی تنقید کی پروا نہ کی۔ ان کا عزم اور دوراندیشی آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وجود میں زندہ ہے، جو ان کے درست ہونے کی واضح گواہی ہے۔

سر سید احمد خان صرف ایک تعلیمی مصلح نہیں تھے بلکہ ایک فکری رہنما بھی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ عقل و استدلال کو اندھی تقلید کے مقابلے میں مقدم رکھا۔ انہوں نے مذہبی اور ثقافتی جذبات میں پڑنے والے تعصبات کی نشاندہی کی اور لوگوں کو سمجھایا کہ جذباتی وابستگی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

ابتدائی طور پر سر سید مقامی زبانوں میں تعلیم کے حامی تھے لیکن ان کے 1869-70 کے انگلینڈ کے دورے نے ان کے نظریات کو تبدیل کر دیا۔ وہاں کے تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ جدید تعلیم اور انگریزی زبان کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مدرسہ العلوم قائم کیا، جو 1877 میں ’محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘ میں تبدیل ہوا اور آخرکار 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے روپ میں پھلا پھولا۔ ’ایم اے او کالج ‘ نے طلبہ کو جدید تعلیم دی اور اس میں غیر مسلم طلبہ کو بھی داخلہ دیا گیا، جس سے یہ پیغام گیا کہ علم اور ترقی میں فرقہ بندی کا کوئی مقام نہیں۔

سر سید احمد خان کی جدوجہد آسان نہیں تھی۔ انہیں مذہبی رہنماؤں اور قدامت پسند طبقے کی طرف سے شدید تنقید، الزام تراشی اور بعض اوقات توہین کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انگریزی تعلیم مسلمانوں کو دین سے دور کرے گی مگر سر سید نے ہر رکاوٹ کے باوجود اپنی کوشش جاری رکھی۔ انہوں نے تعلیم کے فروغ کے لیے کمیٹی بنائی اور عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے مسلسل کام کیا۔


سر سید احمد خان نے قومی ہم آہنگی کے لیے بھی اپنی زندگی وقف کی۔ انہوں نے ہندو اور مسلمان کو ’قوم کی دو آنکھیں‘ قرار دیا اور کہا کہ اگر ایک آنکھ ضائع ہو جائے تو ملک بدصورت ہو جائے گا۔ پٹنہ میں 1883 اور گرداسپور میں 1884 میں دی گئی تقاریر میں انہوں نے مسلمانوں، ہندوؤں اور عیسائیوں کو ایک ہی وطن کے شہری قرار دیا اور مذہبی اختلافات کو سیاسی یا قومی اہمیت دینے سے منع کیا۔ انہوں نے بین المذاہب احترام کے اصولوں کو فروغ دیا، حتیٰ کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر گائے کے ذبیحے کے خلاف بھی انہوں نے رواداری اور امن کا پیغام دیا۔

ان کی قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے فارغ التحصیل شخص اعتماد سے لبریز اور اپنے میدان کا ماہر ہوتا ہے۔ وہاں کے ہاسٹل میں رہنے کی وجہ سے وہ سادگی پسند اور ذات پات کے اختلاف پر یقین نہیں کرتا۔ اتنا ضرور ہے کہ علیگیرین ہندوستان کے ہر شہر بلکہ بیرونِ ملک بھی اپنی الگ شناخت قائم کر لیتے ہیں، لیکن اس میں بھی ملک و ملت کے لیے فکر اور خدمت کا جذبہ غالب رہتا ہے۔ یہ براہ راست ثبوت ہے کہ سر سید احمد خان کا وژن آج بھی زندہ ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کی روشنی میں نوجوان طبقہ بہتر انسان، بہتر شہری اور محقق بن رہا ہے۔

سر سید احمد خان کے فکری اور تعلیمی اصول آج بھی ہم سب کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے جدید تعلیم لازمی ہے، مگر عقل، اخلاقیات، انسانیت اور رواداری کے بغیر کوئی بھی معاشرہ حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا۔ ان کی بصیرت، ثابت قدمی اور خدمت کا جذبہ آج بھی نوجوانوں اور طلبہ کے لیے مشعل راہ ہے۔

پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی کہا تھا کہ سر سید احمد خان ایک ایسا اصلاحی رہنما تھے جو مذہب اور سائنسی سوچ کو بغیر کسی بنیاد پرستی یا تعصب کے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ وہ نہ تو کمیونٹی کی حد تک محدود تھے اور نہ ہی کسی فرقہ وارانہ ایجنڈے کے حامی۔ ان کی زندگی اور کام ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ مذہبی اختلافات کے باوجود معاشرتی اور قومی ترقی ممکن ہے۔

آج 17 اکتوبر کو نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بلکہ پوری دنیا میں سر سید ڈے یا عیدِ علیگ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن صرف ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد کی یاد دہانی نہیں، بلکہ علم، فکری آزادی، رواداری اور انسانی خدمت کے اصولوں کا عالمی دن بھی ہے۔ سر سید احمد خان کی تعلیمات اور بصیرت ہمیں ہمیشہ یاد دلاتی ہیں کہ ترقی کا راستہ عقل، علم اور انسانیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔