بھوپیندر سنگھ: جتنی گہری اور غمناک آواز سے گاتے تھے، اتنی ہی مہارت سے گٹار پر چلتی تھی انگلیاں

بنیادی طور پر چٹان کی طرح ٹھوس لیکن پرسکون رویہ کے بھوپی نے بطور ایک ’لیپ‘ یعنی ہوائین گٹار ساز کے طور پر کیریر کی شروعات کی اور اس طرز کے کئی آلۂ موسیقی بجائے۔

بھوپیندر سنگھ
بھوپیندر سنگھ
user

انیرودھ بھٹاچاریہ

نام گم جائے گا... میری آواز ہی پہچان ہے...۔ یہ نغمہ ہمارے ذہن میں آج بھی اسی طرح درج ہے جیسے 45 سال پہلے تھے۔ گلزار کی ہدایت کاری میں بنی فلم ’کنارہ‘ (1977) میں راگ یمن پر مبنی اس دو نغمے کو آواز دینے والی لتا منگیشکر کا اسی سال فروری میں انتقال ہو گیا اور اب اپنی آواز کے جادو سے اسے الگ ہی شناخت دینے والے بھوپندر بھی چلے گئے۔ لیکن ان کی یادیں ہمارے ساتھ رہیں گی (...گر یاد رہے...)۔ ہندی فلم انڈسٹری کے غالباً پہلے موسیقار-گلوکار، فلم صنعت میں ’بھوپی جی‘ نام سے مشہور بھوپیندر نے بہت پرسکون زندگی گزاری۔ کہیں کوئی چھپی ہوئی سطح رہی بھی ہو تو ان کی صاف گوئی کے نایاب لمحوں میں بھی شاید ہی کبھی سامنے آئی۔ وہ کشور کمار نہیں تھے۔ انھوں نے آپ کو اپنی حیرت انگیز بصیرت سے کبھی چونکایا نہیں، اپنے شیدائیوں کے ساتھ کبھی لکاچھپی کھیلتے بھی نہیں دیکھے۔ اپنی یادوں کے گلیارے میں اترنے کے معاملے میں خاصے صابر بھوپی کو آپ نے کبھی جذبات کے بہاؤ میں بہتے بھی نہیں دیکھا ہوگا۔

بنیادی طور پر چٹان کی طرح ٹھوس لیکن پرسکون رویہ کے بھوپی نے بطور ایک ’لیپ‘ یعنی ہوائین گٹار ساز کے طور پر کیریر کی شروعات کی اور اس طرز کے کئی آلۂ موسیقی بجائے۔ اکاسٹک گٹار اور 12 تار (اسٹرنگ) والا گٹار بھی جو تب تک اتنے مقبول نہیں تھے۔ یہ تو شاید منموجی اور آل راؤنڈر موسیقار راہل دیو برمن (آر ڈی برمن) کا بھروسہ تھا جو انھوں نے بھوپیندر میں دیکھ لیا تھا اور اس سے حاصل حوصلہ، جس کے سہارے بھوپی تار والا کوئی بھی آلۂ موسیقی آسانی سے بجا لیتے تھے۔ جنوب-مغرب ایشیا اور شمالی افریقہ میں مشہور، چھوٹی گردن اور ناسپاتی کے سائز والا ’اود‘ ایسا ہی آلۂ موسیقی تھا جسے آر ڈی برمن نے خاص طور سے اپنے ’بھوپی‘ کے واسطے فلم ’عبداللہ‘ (1980) میں بجانے کے لیے منگایا تھا۔ وقت کے ساتھ بھوپندر نے اپنے فن میں جیسی مہارت حاصل کی، وہ حیرت انگیز ہے۔ انھیں اکاسٹک گٹار کی باریکیاں سکھانے والے گٹارساز بھانو گپتا یاد کرتے ہیں کہ کس طرح بھوپیندر نے ’آ جا آ جا، میں ہوں پیار تیرا‘ (فلم تیسری منزل-1966) کی ریہرسل کے دوران اسے لیپ گٹار پر آریجنل سے بھی تیز بجایا تھا۔ ایک دو سال میں ہی بھوپیندر نے اکاسٹک گٹار پر ایسی مہارت حاصل کر لی کہ وہ آر ڈی برمن کے آرکیسٹرا میں دلیپ نائک کا متبادل بن کر ابھرے۔ ’آ جا آ جا...‘ میں گٹار پر حیرت انگیز تجربہ کرنے والے نائک کی جگہ لینا آسان نہیں تھا۔ یہ بھوپندر کے کیریر کی اہم منزل تھی اور بس، اس کے بعد انھوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔


دم مارو دَم (فلم ’ہرے راما، ہرے کرشنا‘، 1971) گانے کے شروعاتی کچھ سیکنڈ میں 12 تار والے گٹار پر نکلا وہ بے مثال ساز بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ یہی وہ گانا تھا جس کے بعد بھوپندر آٹھ دیگر لوگوں کے ساتھ آر ڈی برمن کے نورتنوں میں شامل ہو چکے تھے۔ ان کی کامیابی کی کہانی بے مثال ہے۔ 70 کی دہائی کی شروعات سے وسط تک کا آر ڈی برمن کا کوئی بھی ہِٹ گانا اٹھا لیجیے، ہر گانے میں کہیں نہ کہیں بھوپی کا گٹار ضرور مل جائے گا۔ ’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو‘ (فلم یادوں کی بارات-1973) ہو یا ’تیرے بنا، جیا جائے نہ‘ (فلم گھر-1978) جیسے گانوں کو لیڈ کرنا رہا ہو یا پھر ایک جادوئی وقفہ کے ساتھ آواز کا پیچھا کرتا ہوا ’تیرا مجھ سے ہے، پہلے کا ناطہ کوئی‘ (فلم آ گلے لگ جا-1973) اور ’چنگاری کوئی بھڑکے‘ (فلم امر پریم-1971) جیسا اندر سے نکلے ہوئے جذبات میں ٹھہراؤ کا جادو، یہ چمتکار بھوپی ہی کر سکتے تھے۔

آلۂ موسیقی بجانے کے سفر میں دو دہائی تک ان کے ساتھ رہے کیرسی لارڈ نے مصنف اور اکثر ان کے معاون بالاجی وِٹھل سے یوں ہی تو نہیں کہا ہوگا کہ ’’بھوپیندر کا گٹار بالکل انسان کی آواز جیسا تھا۔‘‘ حالانکہ ان کے بیشتر شیدائیوں کے لیے یہ بھوپی کی جادوئی آواز کا ایک حیرت انگیز دور تھا جو دیگر سے مختلف تھا۔ پرانی ہندی فلموں کے سنگیت پریمی عام طور پر گلوکاروں، موسیقاروں، نغمہ نگاروں کو جس سلسلے میں یاد کرتے ہیں، وہ مقبولیت کے اس تار کو ہلکا کر دیتا ہے۔ پردے کے پیچھے سے موسیقی میں جادو بھرنے والے شاید ہی کبھی ان پارکھی لوگوں کے درمیان اپنی موجودگی درج کرا پاتے ہیں جو گلوکار کی آواز اور ساز کی مٹھاس کے پیچھے کا دستخط دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے اس بات کو سمجھتے ہوئے ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ بھوپیندر صرف اپنی آواز کے لیے سب سے زیادہ یاد کیے جائیں گے، نہ کہ اس گٹار کے لیے جو کیرسی لارڈ کے لیے ایک انسان کی طرح گاتا تھا۔

ہندی فلم کے طویل دور میں ان کی آواز میں غالباً سب سے زیادہ گہرائی تھی جسے ان کی مدھم ڈیلیوری ایک خواب کی طرح گہری لے میں تبدیل کر دیتی۔ یہ دیگر طریقوں سے کافی الگ تھا جس نے 1970 اور 1980 کی دہائی کے شروع میں موسیقی کے ہدایت کاروں کو ہندی فلم کی اصل دھارا کی آوازوں سے الگ کچھ نیا تلاش کرنے کے لیے راغب کیا۔


بھوپی کا رواداری کے ساتھ استعمال کرنے والے آر ڈی برمن جنھوں نے ’بیتی نہ بتائی رینا‘ (فلم پریچے-1972) میں ان کا سب سے اچھا استعمال کیا، کے علاوہ جئے دیو ’ایک اکیلا اس شہر میں‘ (فلم گھروندا-1977)، ’زندگی سگریٹ کا دھواں‘ (فلم فاصلہ-1974)، خیام ’آج بچھڑے ہیں کل کا ڈر بھی نہیں‘ (فلم تھوڑی سی بے وفائی-1980)، ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا‘ (فلم آہستہ آہستہ-1981)، ’کرو گے یاد تو‘ (فلم بازار-1982)، اور مدن موہن نے ان کا شاندار استعمال کیا جنھوں نے اپنی آخری فلم موسم (1975) میں بھوپیندر کو وہ نغمہ دیا جو ان کی شناخت بن گیا اور جس کے لیے وہ سب سے زیادہ جانے جاتے ہیں، یعنی ’دل ڈھونڈتا ہے، پھر وہی، فرصت کے رات دن‘۔

یہ مدن موہن ہی تھے جنھوں نے بھوپیندر کو چیتن آنند کی فلم ’حقیقت‘ (1964) میں سب سے پہلے ایک اداکار-گلوکار کے طو رپر بریک دیا تھا۔ حقیقت میں پردے پر جو جوان گانا گاتے نظر آتا ہے، وہ بھوپیندر ہی ہیں۔ اور اگر چیتن آنند اپنی پر اڑ جاتے تو بھوپیندر ہی فلم ’آخری خط‘ (1966) میں گووند کے مرکزی کردار میں پردے پر نظر آتے، نہ کہ راجیش کھنہ۔ اس کی جگہ وہ’رُت جواں جواں‘ گاتے ہوئے ایک گلوکار کے کردار میں دکھایے دیے۔ لیکن بھوپیندر کو اداکاری میں زیادہ دلچسپی بھی نہیں تھی۔ بعد کے دنوں میں بھوپیندر نے اپنے غیر فلمی تقاریب کی ایک فہرست بھی تیار کر لی جس میں اہم طور پر غزلیں (شاید اس لیے کہ ان کے شیدائیوں کو اس کے علاوہ کوئی چیز اس طرح پسند نہیں آتی تھی)، بلکہ بیٹلس، سیمون اینڈ گرفنکیل، نیل ڈائمنڈ، جان ڈینور اور دیگر کو وقف البم شامل ہیں۔ ایک گلوکار کی شکل میں ان کے بعد کے کاموں کے بارے میں کم ہی جانکاری ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انھیں 70 اور 80 کی دہائی کے شروع میں ان کی گلوکاری کے لیے سب سے زیادہ یاد کیا جائے گا۔

اپنے لائیو کنسرٹس میں بھی لوگوں کے مطالبہ پر انھوں نے خود کو اس دور کا اپنا سب سے مشہور نغمہ گاتے ہوئے ہی پایا۔ شاعر-گلوکار بشر نواز کے الفاظ میں یہ ’نگاہ دور تلک جا کے لوٹ آئے گی‘ جیسا ہی کچھ تھا۔ فلم ’بازار‘ (1982) کا یہ مشہور نغمہ (کرو گے یاد) بشر نواز نے ہی لکھا ہے جسے بھوپیندر نے انتہائی اثردار طریقے سے گایا ہے۔

(انیرودھ بھٹاچاریہ ہندی فلم موسیقی کی دنیا کے مشہور و معروف رائٹر ہیں۔ ’ایس ڈی برمن، دی پرنس میوزیشین‘ ان کی 2018 میں شائع کتاب ہے جو ٹرینکوبر، ویسٹ لینڈ سے شائع ہوئی ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔