سچا ذکر وہی ہے جسے صرف رب جانے، نہ کہ پوری دنیا

مذہب دل کا معاملہ تھا، اب آنکھوں کا کھیل بن گیا ہے۔ عبادت کا مقصد خدا کا قرب ہونا چاہیے، نہ کہ دکھاوا۔ سچا ذکر وہی ہے جسے صرف رب جانے۔ تسبیح، نماز، پوجا سب عاجزی کی علامت ہوں، نہ کہ تکبر کا اظہار

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

user

سید خرم رضا

صبح کا وقت تھا، میٹرو میں معمول کی بھیڑ تھی، دفتر پہنچنے کی جلدی، ذہنوں میں دن بھر کے کام کی منصوبہ بندی۔ میں دروازے کے پاس کھڑا باہر کے منظر میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک میری نظر ایک مسافر پر ٹھہر گئی۔ درمیانی عمر کا شخص، لباس سے ایک محنت کش، شاید دفتر جا رہا تھا۔ مگر جو چیز خاص تھی، وہ اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی — انگلیاں دانوں پر پھسل رہی تھیں، لب ہل رہے تھے، نگاہیں جھکی ہوئی تھیں، اور ماحول سے بے نیاز وہ کسی اور ہی دنیا میں تھا۔

یہ منظر نیا نہیں تھا، مگر غیر معمولی ضرور تھا۔ میں نے پہلے بھی لوگوں کو عبادت کرتے دیکھا ہے — ہندو بزرگوں اور خواتین کو منتر پڑھتے، سکھوں کی خواتین کو گرنتھ پڑھتے دیکھا تھا، مگر مسلمانوں میں یوں عوامی جگہوں پر تسبیح پڑھتے کم ہی دیکھا۔ شاید اس لیے چونک گیا۔ کچھ لمحے اس پر نظر ٹکی رہی۔ ذہن میں ایک سوال نقش کر گیا کہ کیا عبادت اب بھی ذاتی عمل ہے یا رفتہ رفتہ ایک سماجی مظاہرہ بنتا جا رہا ہے؟

تسبیح — ایک سادہ سی مالا، مگر صدیوں کی روحانی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے۔ اس کے دانے فقط گنتی کے لیے نہیں بلکہ یکسوئی اور خضوع کا ذریعہ ہیں۔ مسلمان صدیوں سے اس کے ذریعے سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کا ورد کرتے چلے آئے ہیں، تاکہ دل اللہ کی یاد سے آباد رہے اور زبان شکر گزار ہو۔ مگر آج کے زمانے میں، جب ہر عمل کی ایک بصری موجودگی ضروری ہو چکی ہے، کیا تسبیح بھی محض خدا کی یاد کے لیے رہ گئی ہے، یا یہ ہماری مذہبی شناخت کا ایک بیانیہ بن گئی ہے؟

یہ سوال صرف تسبیح تک محدود نہیں۔ مذہب، جو کبھی دل کا معاملہ تھا، اب آنکھوں کا کھیل بن چکا ہے۔ ہم عبادات کرتے ہیں، مگر اس نیت سے کہ لوگ دیکھیں۔ عمرہ ہو یا پوجا ہو یا افطار، کیمرے ہر جگہ موجود ہیں، اور عبادت کا ثواب شاید ’شیئر‘ اور ’لائکس‘ کی گنتی سے ناپا جانے لگا ہے۔


ایسا صرف مسلمانوں میں نہیں ہو رہا۔ غیر مسلم برادریوں میں بھی مذہبی سرگرمیاں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ یاتراؤں میں ہجوم، مندر اور مسجدوں میں مائیک، جلوس اور جلوس میں نعروں کی گونج۔ یہ سب کچھ کیا واقعی روحانیت کے لیے ہو رہا ہے؟ یا ہم اپنے مذہب کو ایک جھنڈے کی طرح لہرا کر دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں؟

ایسا صرف مسلمانوں میں نہیں ہو رہا۔ غیر مسلم برادریوں میں بھی مذہبی سرگرمیاں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ یاتراؤں میں ہجوم، مندر اور مسجدوں میں مائیک، جلوس اور جلوس میں نعروں کی گونج۔ یہ سب کچھ کیا واقعی روحانیت کے لیے ہو رہا ہے؟ یا ہم اپنے مذہب کو ایک جھنڈے کی طرح لہرا کر دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں؟

المیہ یہ ہے کہ ہم جس مذہب میں پیدا ہوتے ہیں، وہ ہمارا انتخاب نہیں ہوتا — محض ایک اتفاق ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم اسی بنیاد پر برتری کا احساس پال لیتے ہیں۔ ہم اپنے مذہب کی ہر رسم کو عین حق سمجھتے ہیں اور دوسروں کی عبادت کو شدت پسندی۔ ہمیں دوسروں کی مذہبی سرگرمیاں تو کھٹکتی ہیں، مگر اپنی سرگرمیاں روحانیت کا اوج نظر آتی ہیں۔ یہی وہ دہرے معیار ہیں جو سماج کو بانٹتے ہیں، نفرتوں کی کھائی پیدا کرتے ہیں۔

مذہب کا اصل جوہر تو انکساری، بردباری اور تحمل ہے۔ مگر جب وہ دکھاوے کا لبادہ اوڑھ لے تو پھر روحانی فائدے کی بجائے معاشرتی نقصان جنم لیتا ہے۔


ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم عبادت کیوں کرتے ہیں؟ تسبیح کے دانے ہم کیوں گنتے ہیں؟ اگر مقصد خدا کا قرب ہے تو کیا وہ خلوت میں حاصل نہیں ہو سکتا؟ اگر ہم تسبیح ہاتھ میں لیے صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم کتنے عبادت گزار ہیں، تو شاید ہمیں عبادت کے مفہوم پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سماج میں مذہبی ہم آہنگی صرف تب ممکن ہے جب ہر فرد اپنے عقیدے کو دل میں رکھے۔ جب تسبیح، منتر، نماز، پوجا — یہ سب عاجزی کے اظہار کا ذریعہ ہوں، تکبر کا نہیں۔ جب ہم دوسروں کے عقائد کا اتنا ہی احترام کریں جتنا اپنے کا کرتے ہیں۔

آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر تسبیح واقعی خدا کی یاد کا ذریعہ ہے تو وہ خاموشی میں زیادہ گونجتی ہے، بھیڑ میں نہیں۔ عبادت کو عوامی نہ بنائیں۔ اپنے رب سے تعلق کو اپنی ذات تک محدود رکھیں، کیونکہ سچا ذکر وہی ہے جسے صرف رب جانے، نہ کہ پوری دنیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔