ایسی ہنسی سے کون نہ ڈر جائے؟... اپوروانند

نہرو پلیس کی بھیڑ منظم نہیں تھی۔ ضروری نہیں کہ یہ لوگ بجرنگ دل یا آر ایس ایس کے اراکین ہوں۔ وہ فلسطین کا پرچم دیکھتے ہی مشتعل ہو گئے۔ ویسے ہی جیسے عدالت غزہ کے لیے ہمدردی کی بات سنتے ہی ناراض ہو گئی۔

عدالت، تصویر آئی اے این ایس
i
user

اپوروانند

ہم ہندوستان کے کئی علاقوں میں پولیس اور ہندوتوا بھیڑ کو ایک ہی طرح سے کام کرتے دیکھ چکے ہیں۔ خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کے معاملے میں۔ لیکن جب عدالت بھی ہندوتوادی حب الوطنوں کی طرح دلیل پیش کرنے لگے، تب الرٹ ہو جانا چاہیے۔ سمجھ جانا چاہیے کہ پانی سر سے اوپر جا چکا ہے۔ یہ تنبیہ ملی ممبئی اور دہلی کے 2 واقعات سے۔

ایک واقعہ بامبے ہائی کورٹ کا ایک تبصرہ ہے، اور دوسرا دہلی کے نہرو پلیس میں بھیڑ کا رد عمل۔ دونوں کا تعلق غزہ میں اسرائیل کے ذریعہ جاری قتل عام سے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بامبے ہائی کورٹ کے کمرے اور دہلی کے نہرو پلیس میں کیا یکسانیت ہے؟


’فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف ہندوستان میں آواز اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے پاس اپنے ہی اتنے مسائل ہیں!‘ یہ کوئی سڑک چلتا آدمی نہیں بول رہا ہے، بامبے ہائی کورٹ نے سی پی آئی (ایم) کو یہ پھٹکار لگائی جب اس نے عدالت کے آگے غزہ میں اسرائیل کے ذریعہ کیے جا رہے قتل عام کے خلاف مظاہرہ کی اجازت طلب کرتے ہوئے عرضی لگائی۔

پولیس نے اس احتجاجی مظاہرہ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد سی پی آئی (ایم) نے عدالت سے اجازت مانگی تھی۔ عدالت نے اجازت دینا تو دور، عرضی دہندگان کو نصیحت دے ڈالی کہ وہ ’حب الوطن بنیں‘، اپنے ملک کے مسائل پر توجہ دیں۔ باہر اتنی دور غزہ میں کیا ہو رہا ہے، اس سے انھیں کیا لینا دینا ہے۔


حب الوطنی اور فلسطینیوں کے تئیں یکجہتی میں مخالفت کیونکر ہو، یہ سوال عدالت سے پوچھا جا سکتا ہے۔ ’حب الوطن بنو‘، اس حکم کا مطلب کیا یہ ہے کہ دوسروں کے دکھ درد سے کوئی رشتہ نہ رکھو اور خود غرض بن جاؤ؟ کیا حب الوطنی یہ سکھلاتی ہے کہ ہم خود میں گم ہو جائیں اور اپنے چاروں طرف جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے آنکھ کان بند کر لیں؟

حب الوطنی کی جتنی بھی تشریحات دنیا بھر کے عظیم فلسفیوں نے کی ہیں، اس میں تنگ نظری کی کہیں جگہ نہیں ہے۔ وہ علیحدگی پسند نہیں ہے۔ کیا فلسطین لفظ میں کچھ ہے جو محب وطن کان کو کھٹکتا ہے؟


کچھ دوست کہہ سکتے ہیں کہ یہ جج کا فوری رد عمل بھر تھا، اور یہ انھوں نے اپنے حکم میں نہیں لکھا۔ ہمارے لیے فکر کی بات یہ فوری رد عمل ہی ہے۔ کوئی کسی کو حب الوطن ہونے کے لیے نصیحت دینے کا حق رکھتا ہے، یہ بات ہی باعث فکر ہونی چاہیے۔ لیکن اس سے آگے یہ فکر کی بات ہے کہ جج کہہ رہے ہیں کہ حب الوطن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ کسی اور سے ہمدردی نہ دکھلائیں۔

سی پی آئی ایم کی عرضی خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہا ’’ہمارے ملک میں بہت سے مسائل ہیں۔ ...مجھے یہ کہتے ہوئے دُکھ ہو رہا ہے کہ آپ دور اندیش نہیں ہیں۔ آپ غزہ اور فلسطین کو تو دیکھتے ہیں، لیکن یہاں کی چیزوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ اپنے ملک کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتے؟ اپنے ملک کو دیکھیے۔ حب الوطن بنیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ حب الوطن ہیں، لیکن یہ حب الوطنی نہیں ہے۔ پہلے اپنے ملک کے شہریوں کے لیے حب الوطنی دکھائیں۔‘


عدالت کا کہنا تھا کہ پارٹی کو پہلے کوڑے کچرے، آلودگی، نالی وغیرہ مسائل پر احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ باہر کیا ہو رہا ہے، یہ خارجہ پالیسی کا معاملہ ہے اور اسے حکومت پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔

ناقدین نے ٹھیک ہی کہا کہ عدالت آئینی حقوق کو بھول گئی معلوم پڑتی ہے۔ ہندوستان کے لوگوں کو اپنے نظریات رکھنے اور انھیں ظاہر کرنے کا پورا حق ہے۔ لوگ حکومت کے پاس اپنا یہ حق رہن نہیں رکھ سکتے۔ اسرائیل اور فلسطین پر حکومتی رخ کی مخالفت کرنے کا حق بھی ہندوستان کے لوگوں کا ہے اور اسے چھینا نہیں جا سکتا۔


جو بات ممبئی کی عدالت کہہ رہی تھی، وہ دہلی کے نہرو پلیس میں ایک بھیڑ بھی کہہ رہی تھی۔ کوئی 31-30 لوگ نہرو پلیس میں فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف مظاہرہ کرنے اکٹھا ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں فلسطینی جھنڈے تھے۔ ان کے اکٹھا ہونے کی دیر تھی کہ آس پاس، دکانوں سے کچھ لوگ نکل آئے اور انھوں نے فلسطینی پرچم چھین کر پھاڑ دیے۔ ’اپنے ملک کا جھنڈا کہاں ہے؟‘ انھوں نے مظاہرین سے پوچھا۔

اس بھیڑ کا سوال بامبے ہائی کورٹ کے سوال سے مختلف نہیں تھا۔ ’اپنے ملک کا جھنڈا دکھاؤ، دوسرے ملک کا جھنڈا کیوں اٹھایا ہے؟‘ یہ سوال بامبے ہائی کورٹ کی اس پھٹکار سے الگ نہیں کہ ’حب الوطن بنیے! اتنے ہزار میل دور دوسرے ملک کا مسئلہ کیوں اٹھاتے ہیں؟‘


بامبے ہائی کورٹ چاہتا ہے کہ سی پی آئی ایم کوڑے کچرے، بے روزگاری، آلودگی کی بات کرے۔ نہرو پلیس کی بھیڑ چاہتی ہے کہ مظاہرین بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حالت کی بات کریں۔ دونوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔

عدالت اور سڑک میں تفریق مٹ جانا فکر کی ایک بات ہے۔ لیکن دوسری بڑی فکر ہونی چاہیے ایک نئی حب الوطنی یا فوری نیشنلسٹ رد عمل کا پیدا ہونا۔ نہرو پلیس کی بھیڑ منظم نہیں تھی۔ اس کے لوگ بجرنگ دل یا آر ایس ایس کے اراکین ہوں، یہ ضروری نہیں۔ وہ فلسطین کا جھنڈا دیکھتے ہی مشتعل ہو گئے۔ ویسے ہی جس طرح عدالت غزہ کے لیے ہمدردی کی بات سنتے ہی ناراض ہو گئی۔


دونوں رد عمل پہلے سے سوچے ہوئے یا منصوبہ بند نہیں تھے۔ یہ دونوں رد عمل کچھ کچھ اسرائیلی رد عمل کی طرح ہیں۔ نیویارک ہو یا لندن، سڑک پر کسی کے گلے میں کفایہ دیکھتے ہی اسرائیلی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہندوستان میں ایک بڑا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو کفایہ یا فلسطینی جھنڈا دیکھتے ہی مشتعل ہو اٹھتا ہے۔ وہ نہرو پلیس میں بغیر کسی محنت اور اپیل کے اکٹھا ہو گیا۔ وہ بھیڑ مظاہرین سے ترنگا پرچم دکھانے کو کہہ رہی تھی۔ ویسے ہی، جس طرح عدالت سی پی آئی ایم کو حب الوطن بننے کے لیے کہہ رہی تھی۔

اس فوری رد عمل کو کیا ہندوتوای فوری رد عمل کہنا غلط ہوگا؟ فلسطین کا پرچم ہو، یا ہرا پرچم ہو، یا برقع یا ٹوپی، انھیں دیکھتے ہی، یا اذان سنتے ہی جب کوئی مشتعل ہو اٹھے، کیا اسے فطری کہیں گے؟ نہرو پلیس میں فلسطینی پرچم سے یہ رد عمل ہوا۔


پونے میں محسن شیخ کا لباس دیکھ کر کچھ لوگ مشتعل ہو اٹھے اور ان کا قتل کر دیا۔ عدالت قاتلوں کے تئیں اس لیے نرم تھی کہ ان کا رد عمل، جس کی وجہ سے محسن شیخ کا قتل ہو گیا، فوری رد عمل تھا۔ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ نہیں تھا۔

2014 سے 2025 تک اس ہندوتوادی فوری رد عمل کا دائرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ کچھ خاص طرح کی آوازوں، رنگوں، عمارتوں، لباس سے ایک خاص طرح کا پُرتشدد رد عمل ہوتا ہے۔ اب اس پر رد عمل کرنے والے کا بس نہیں رہ گیا ہے۔


یہ ہندوؤں کے ایک بڑے طبقہ کے حسی نظام کے سکڑنے کی اطلاع ہے۔ یہ ہندوؤں کے لیے بُری خبر ہے، کیونکہ انسانی حسی نظام بقیہ جانداروں سے مختلف اور بہتر اسی معنی میں ہے کہ وہ اپنے جسمانی و حیاتیاتی حدود سے تجاوز کرتا ہے۔

انسانی حسی نظام آخر انسانی کیوں ہے؟ یہ صرف اپنے جسم میں لگی کسی چوٹ سے زخمی نہیں ہوتا، بلکہ کسی دیگر کی چوٹ سے بھی ہل جاتا ہے۔ ویتنام میں ناپام بم سے جل کر بھاگتی ہوئی لڑکی کی تصویر نے ہم سب کو پریشان کر دیا۔ اس کے لیے ویتنامی ہونے کی شرط نہیں تھی۔ انسانی حسی نظام میں اپنی جسمانی سرحد سے تجاوز کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ بعد میں ہمدردی تک پہنچ جاتا ہے۔

ہم صرف رام دھاری سنگھ دنکر کی نظم پڑھ کر متاثر نہیں ہوتے، محمود درویش کی نظم پڑھ کر بھی پریشان ہوتے ہیں۔


ہندوستان میں ہندوؤں کا ایک حصہ اب ہمدردی کی صلاحیت سے محروم ہو رہا ہے۔ وہ بھوک سے تڑپتے بچوں یا بمباری سے نیست و نابود غزہ کو دیکھ کر پریشان نہیں ہوتا، قہقہہ مار کر ہنس پڑتا ہے۔ ایسی ہنسی سے کون انسان ڈر نہ جائے؟ یہ ہنسی اس سماج کی غیر اخلاقیت کی اطلاع ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ بشکریہ دی وائر ہندی ڈاٹ کام)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔