کیا بچوں کو حج پر ساتھ لے جانا چاہئے؟

آج حج کا وہ رکن ادا ہونا ہے جس کے بغیر حج ہو ہی نہیں سکتا یعنی رکن عظیم ’وقوف عرفہ‘ لیکن کئی سوالوں کی طرح ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ والدین کو اپنے ساتھ حج میں بچوں کو لے جانا چاہئے یا نہیں۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سوال یہ ہےکہ کیا والدین کو اپنے بچوں کو حج پر ساتھ لے جانا چاہیے؟ کیا بچے حج پر جاسکتے ہیں؟ اسلامی تعلیمات بچوں کے حج کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو مقدس سفر پر روانہ ہونے والے والدین کو درپیش ہوتے ہیں۔

بعض مسلم والدین کے نزدیک بچوں کو حج پر ساتھ لے جانے سے انھیں اسلام کے پانچویں رکن کے بارے میں کما حقہ علم ہوسکتا ہے اور انھیں کعبۃ اللہ، مسجد الحرام، منیٰ، میدانِ عرفات میں قیام وعبادات کے بارے میں عملی طور پر بہتر انداز میں بتایا جاسکتا ہے اور اس کا انھیں خود عملی تجربہ ہوسکتا ہے۔

برطانیہ میں مقیم ایک مسلم خاتون ریحانہ سیّد اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ حج پر لے کر آئی ہیں۔ وہ اپنے خاوند کے ہمراہ سعودی عرب آئی ہیں۔ انھوں نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنے بیٹے کو حج کی اہمیت اور اس مقدس سفر کے ثمرات بتانے کے لیے ساتھ لائی ہوں۔ یہ سفر بھی اس کو اپنے دین کے بارے میں تعلیم دینے کا حصہ ہے‘‘۔

لیکن بہت سے مسلمان اس رائے کے حامی نہیں کیونکہ ایک تو کم سن بچوں یا نابالغوں پر اسلام نے حج فرض نہیں کیا ہے۔ دوسرا بہت سے والدین ان کے سفرحج کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔

دبئی کی وزارت اسلامی امور کے مفتیِ اعظم ڈاکٹر محمد القبیسی نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مذہبی فرائض کا تعلق بلوغت اور انھیں ادا کرنے کی سکت اور مالی استطاعت سے ہے۔ حج اور عمرے سمیت بچوں پر کوئی مذہبی ذمہ داری عاید نہیں ہوتی ہے۔ البتہ اگر ان کے سرپرست یا والدین انھیں حج پر ساتھ لے جانا چاہیں تو انھیں لے جاسکتے ہیں۔ اس حج کا ثواب انھیں اور ان کے اس سرپرست کو ملے گا جس نے ان کا مالی بوجھ اٹھایا ‘‘۔

مسلمان اس ضمن میں نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ اس کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ’’ایک مرتبہ ایک عورت اپنی گود میں بچہ اٹھائے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے اللہ کے نبی ﷺ سے مخاطب ہوکر کہا ’’ کیا بچوں کو حج کرنے کا ثواب ملے گا؟‘‘ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں فرما یا ’’جی ہاں اور اس میں آپ کے لیے بھی ثواب ہے‘‘۔

ڈاکٹر القبیسی کم عمری کے اس حج کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس سے بلوغت کے بعد اس بچے پر یہ فریضہ ساقط نہیں ہوجاتا ہے اور بالغ ہونے کے بعد صاحب استطاعت ہونے کی صورت میں اس فرد کو دوبارہ حج ادا کرنا پڑے گا۔ نیز بچے کو تمام مناسکِ حج خود ادا کرنے چاہییں۔ تاہم اگر بچہ اتنا بڑا نہیں تو اس کے سرپرست کو اس کی رہنمائی کرنی چاہیے اور جو مناسک وہ خود ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا ہے تو وہ اس کو اس کی طرف سے ادا کرنے چاہییں۔ ان میں جمرات کو کنکر مارنے کی سنت ہے۔ یہ سنت سرپرست بچے کی جانب سے ادا کرسکتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر القبیسی نے خبردار کیا ہے کہ بچوں کو حج پر ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرتے وقت احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ بچوں کو گرم موسم میں لُو لگ سکتی ہے، وہ حج کے دوران میں مختلف امراض کا شکار ہوسکتے ہیں اور دوسری مشکلات بھی درپیش ہوسکتی ہیں۔ اگر والدین بچوں کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انھیں ہر دم ان کا خیال رکھنا ہوگا اور انھیں جم غفیر میں لے جانے سے گریز کرنا ہوگا‘‘۔

ابھی تک سعودی حکومت کے جانب سے اس مرتبہ حج میں شریک بچوں کے سرکاری طور پر اعداد وشمار جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ 20 لاکھ سے زیادہ عازمین دنیا کے مختلف ممالک سے حج کے لیے مکہ مکرمہ میں آئے ہیں۔ مناسکِ حج کی ادائی کا عمل شروع ہوچکا ہے اور وہ اتوار کی رات کو منیٰ میں منتقل ہوئے تھے۔

ماہرین نے حج پر بچوں کو ساتھ لے جانے والے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کھانسی کا شربت، درد کی کوئی دوا، پانی اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے چھتری ضرور رکھیں۔ بچوں کو سادہ کپڑے یا احرام پہنائیں۔ مزدلفہ میں جانے کے لیے رات کے ٹھنڈے وقت کا انتخاب کریں تاکہ دن کو سورج کی حدّت سے بچا جاسکے۔

(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Aug 2018, 6:32 AM