شوال المکرم: عیدالفطر کا مہینہ

شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے اور جو شخص رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجر و ثواب لکھا جاتا ہے

<div class="paragraphs"><p>شوال</p></div>

شوال

user

مدیحہ فصیح

شوال المکرم اسلامی قمری سال کا دسواں مہینہ ہے۔ ماہ شوال کی پہلی تاریخ کو عید الفطر منائی جاتی ہے، جو اسلام کا ایک عظیم الشان تہوار ہے اور مسلمانوں کے لیے بڑی مسرت اور خوشی کا دن ہے۔ شوال عربی مصدر ’شول‘ سے مشتق ہے اورشول کے معنی ’اوپر اٹھنا اور اوپر اٹھانا، بلند ہونا اور بلند کرنا‘ کے آتے ہیں۔ علامہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ایک روایت نقل کی ہے، جس میں شوال کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس مہینے میں لوگوں کے گناہ اٹھا لیے جاتے ہیں (معاف کر دئیے جاتے ہیں)، اس لیے اس مہینے کو شوال کہا گیا۔ جبکہ عیدالفطر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ افطار اور فطر ہم معنی الفاظ ہیں۔ جس طرح ہر روزہ کا ’افطار‘ غروب آفتاب کے بعد کیا جاتا ہے، اسی طرح رمضان المبارک کے پورے مہینے کا ’افطار‘ عید کے روز ہوتا ہے، اس لئے اس مبارک دن کو ’عید الفطر‘ کہتے ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ہجرت کے بعد) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تب (اہل مدینہ نے) دو دن کھیل کود کے لئے مقرر کر رکھے تھے، آپؐ نے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 1134)۔ عید الفطر کا دن انعامات حاصل کرنے کا دن ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عید کا دن انعامات ملنے کا دن ہے (کنز العمال، حدیث نمبر: 24540)۔


حضرت سعد ابن اوس انصاری اپنے والد اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب عید الفطر کا دن آتا ہے، تو فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اے مسلمانو! اپنے رب کریم کی بارگاہ میں آؤ، جو اپنے کرم اور احسان سے (بندوں کو) نیکیوں کی توفیق دیتا ہے اور اس پر اجر عظیم سے نوازتا ہے۔ تمہیں اس کی طرف سے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا، تو تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کی ،تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا ،تو تم نے تراویح پڑھی، سو اب چلو اپنے انعامات لو، پھر جب لوگ عید کی نماز پڑھ لیتے ہیں، تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے: اے لوگو! تمہارے رب نے تمہاری بخشش فرما دی، پس تم اپنے گھروں کو کامیاب و کامران لوٹو، یہ عید کا دن انعام کا دن ہے اور آسمان میں اس دن کا نام یوم الجائزۃ یعنی ’انعام کا دن‘ رکھا گیا ہے (الترغیب و الترھیب للمنذری، حدیث نمبر:1659)

عید الفطر کا دن اللہ تعالیٰ کی رضاء و مغفرت اور دعاء کی قبولیت کا دن ہے۔ ایک طویل حدیث میں عید کے دن کا بڑا پیارا اور خوبصورت منظر بیان کیا گیا ہے، جسے پڑھ کر یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر جوش میں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس انعام والے دن کتنا نوازتے ہیں، چنانچہ فرمایا: جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین میں اُتر کر تمام گلیوں، راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہرمخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امّت! اس کریم رب کی (درگاہ) کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطاء فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں: کیا بدلہ ہے، اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں: اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے اُن کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطاء کر دی اور بندوں سے خطاب فرما کر اِرشاد ہوتا ہے :اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزّت کی قسم، میرے جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے، وہ میں عطاء کروں گا اور جو اپنی دنیا کے بارے میں سوال کروگے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا ، میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری (یعنی پردہ پوشی کا معاملہ) کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا )، میری عزّت کی قسم! اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے رسوا اور ذلیل نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہو گیا، پس فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو امّت کو افطار کے دن (رمضان کے ختم ہونے کے دن) ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں (شعب الإيمان، ج:۵، ص: ۲۷۷، ط: مکتبۃ الرشد)۔


شبِ عید کے فضائل: شوال کا مہینہ بابرکت مہینہ ہے، اس مہینے کی برکتوں کا آغاز اس مہینے کی پہلی ہی رات سے ہو جاتا ہے، جس طرح شوال کا پہلا دن عید الفطرکا بابرکت دن ہے، اسی طرح اس کی رات بھی بابرکت ہے اور احادیث مبارکہ میں اس رات کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ عید کی اس رات کو ’لیلۃ الجائزہ‘ یعنی انعام ملنے والی رات کہا گیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا، اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا، جس دن سب کے دل مردہ ہو جائیں گے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:1781)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں: جو ان راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرے، اس کےلیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (1) لیلۃ الترویۃ یعنی 8 ذی الحجہ کی رات۔ (2) عرفہ یعنی 9 ذی الحجہ کی رات۔ (3) لیلۃ النحر یعنی 10 ذی الحجہ کی رات۔ (4) لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب۔ (5) شعبان کی پندرہویں شب (الترغیب و الترھیب للمنذری، حدیث نمبر:1656)

ماہ شوال حج کی تیاری کا پہلا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: حج کے مہینے طے شدہ اور معلوم ہیں۔ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ ’اشہرِ حج‘ تین ہیں، جن میں سے پہلا شوال اور دوسرا ذیقعدہ اور تیسرا ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ حضرت عمرؓ، حضرت عبد اللہؓ بن عمر، حضرت علیؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ وغیرہ سے یہی روایت کیا گیا ہے اور یہی اکثر تابعینؒ کا قول ہے۔ یہ بات ماہ شوال کی عظمت و فضیلت کو اور بڑھا دینے والی ہے کہ یہ حج کا ابتدائی مہینہ ہے۔

شوال کے چھ روزے رکھنے کی شرعی حیثیت

عید الفطر کے بعد دوسری اہم چیز جس کا تعلق شوال کے مہینہ سے ہے وہ شوال کے چھ روزے ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں اور مسلمان کے لیے مشروع ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھے جس میں فضل عظیم اور بہت بڑا اجر و ثواب ہے ، کیونکہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجر و ثواب لکھا جاتا ہے۔


قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کے چھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والا گویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہو جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہے کہ اسے پورے سال کا اجر ملتا ہے ۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں (صحیح مسلم ، سنن ابو داود ، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ)۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرح اور تفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے اس کے پورے سال کے روزے ہیں۔ جو کوئی نیکی کرتا ہے اسے اس کا اجر دس گنا ملے گا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالی ایک نیکی کو دس گنا کرتا ہے لہذا رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا اور چھ دنوں کے روزے سال کو پورا کرتے ہيں (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)۔

ابن خزیمہ نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزے دس گنا اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تو اس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے۔ حنابلہ اور شوافع فقھاء کرام نے تصریح کی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا پورے ایک سال کے فرضی روزوں کے برابر ہے ، وگرنہ تو عمومی طور پر نفلی روزوں کا اجر و ثواب بھی زيادہ ہونا ثابت ہے ، کیونکہ ایک نیکی دس کے برابر ہے۔


پھر شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائد میں یہ شامل ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اور نقص کو پورا کرتے ہیں اور اس کے عوض میں ہیں، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہو جاتی ہے اور گناہ بھی سر زد ہو جاتا ہے جو کہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے اور روز قیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے۔

روز قیامت بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ‏عزوجل اپنے فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ زيادہ علم رکھنے والا ہے میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو کہ اس نے پوری کی ہیں کہ اس میں نقص ہے ، اگر تو مکمل ہونگی تو مکمل لکھی جائے گي اور اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالی فرمائے گا دیکھوں میرے بندے کے نوافل ہیں اگر تو اس کے نوافل ہونگے تو اللہ تعالی فرمائے گا میرے بندے کے فرائض اس کے نوافل سے پورے کرو ، پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائيں گے ( سنن ابوداود حدیث نمبر 733 ) ۔

شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کر کے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جا سکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔