گمنام عظیم مجاہد آزادی شوکت عثمانی، جنہوں نے وطن پر سب کچھ قربان کیا
شوکت عثمانی ایک عظیم مجاہد آزادی، ادیب اور صحافی تھے جنہوں نے 16 سال قید و بند میں گزارے، مگر آزادی کے بعد نظرانداز کیے گئے۔ ان کی قربانیاں تاریخ کے اوراق میں دب کر رہ گئیں

تحریکِ آزادی ہند میں بے شمار ایسے گمنام ہیرو موجود ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا سب کچھ قربان کر دیا، مگر تاریخ کے صفحات میں ان کے نام ماند پڑ گئے۔ انہی میں ایک شوکت عثمانی بھی ہیں، جن کا شمار بیک وقت ایک ادیب، مفکر، معروف صحافی، کمیونسٹ نواز رہنما اور مردِ مجاہد آزادی میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کی کہانی نہ صرف جدوجہد، قربانی اور عزم کی مثال ہے بلکہ یہ تاریخ کے اس المیے کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ اپنے ہی وطن میں وہ بھلا دیے گئے۔
شوکت عثمانی کا اصل نام مولا بخش استا تھا۔ وہ 21 دسمبر 1901ء کو راجستھان کے بیکانیر شہر کے استا محلے میں پیدا ہوئے۔ والد بہاالدین پیشے سے سنگ تراش تھے۔ ان کی دادی انہیں بچپن میں 1857ء کی پہلی جنگِ آزادی کی کہانیاں سناتیں، جس سے کم عمری ہی میں ان کے دل میں آزادی کی جوت جل اٹھی۔ اخبارات میں برطانوی مظالم کی خبریں پڑھ کر ان کا جذبہ اور بھی توانا ہو گیا۔
ان کے عزیز محمد حنیف استا نے ایک واقعہ بیان کیا کہ اسکول کے زمانے میں جب انگریز وائسرائے بیکانیر آیا تو شوکت عثمانی کو اس کے استقبال کا کام سونپا گیا، مگر وہ چھری ساتھ لے کر پہنچے اور وائسرائے کے سامنے ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ بلند کر دیا۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ مہاراجہ کالج میں داخل ہوئے مگر اسی دوران تحریکِ خلافت شروع ہو گئی۔ شوکت عثمانی نے بلا جھجک اس میں شمولیت اختیار کی اور مولوی عبدالباری کی اپیل پر ہجرت کا فیصلہ کیا۔ محض اٹھارہ سال کی عمر میں موچی کا بھیس بدل کر کئی نوجوانوں کے ساتھ ترکی کے لیے نکلے، مگر ارادہ بدل کر افغانستان ہوتے ہوئے روس پہنچ گئے۔
روس میں انہوں نے اسٹالن سے ہندوستان کی آزادی کے لیے ہتھیار فراہم کرنے کی درخواست کی۔ یہیں قیام کے دوران ان کا رجحان کمیونزم کی طرف ہوگیا۔ 22 جنوری 1922ء کو وہ ہندوستان واپس آئے اور محنت کشوں و مزدوروں کو برطانوی حکومت کے خلاف منظم کرنے لگے۔
ان کی سرگرمیوں نے برطانوی حکام کو پریشان کر دیا اور 9 مئی 1923ء کو ’کانپور کیس‘ میں گرفتار کر لیے گئے۔ 26 اگست 1927ء کو رہائی ملی، مگر وہ دوبارہ سرگرم ہو گئے۔ نتیجتاً 20 مارچ 1929ء کو ’میرٹھ سازش کیس‘ میں پھر گرفتار ہوئے اور یکم جولائی 1935ء کو رہائی پائی۔
14 اگست 1940ء کو ’ایکٹ آف ڈیفنس‘ کے تحت آگرہ سے گرفتار کیے گئے اور بریلی، فتح گڑھ کی جیلوں میں سختیاں جھیلیں۔ 7 جنوری 1945ء کو رہائی ملی، مگر ضلع بدری کا حکم بھی ساتھ دیا گیا۔
آزادی کے بعد شوکت عثمانی نے تین سال ممبئی میں ’نیشنل سیفیئرز یونین‘ " کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور پھر لندن روانہ ہو گئے۔ وہاں آٹھ سال گزارنے کے بعد قاہرہ پہنچے اور مختلف اخبارات میں کام کیا۔ آخرکار وطن واپس آئے، لیکن انہیں وہ عزت اور مقام نہ ملا جس کے وہ مستحق تھے۔
یہ ناانصافی انہیں اس قدر دکھی کر گئی کہ بالآخر وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنی زندگی کے تقریباً 16 سال قید و بند میں گزار دیے، اس کا انجام یہ تھا کہ اپنے وطن میں اجنبی بنا دیا گیا۔
شوکت عثمانی 26 فروری 1978ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آج بیشتر اہلِ وطن ان کے نام سے بھی ناواقف ہیں۔ موجودہ تعلیمی نصاب میں بھی ان کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ایک تاریخی ستم ظریفی ہے کہ جنہوں نے مادرِ وطن کی آزادی کے لیے سب کچھ قربان کر دیا، ان کی داستان آنے والی نسلوں تک نہیں پہنچائی گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔