نیا قانون یا بھگوڑوں کے لیے نجات نامہ؟ شاہ کے بیان سے ہندوستان کی قانونی ساکھ پر سوال...آشیش رے
مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے ’غیر موجودگی میں مقدمہ‘ والے بیان نے بھگوڑوں کے لیے قانونی راہیں آسان کر دی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس موقف سے چوکسی اور دیگر مقدمات میں ہندوستان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے

ان لوگوں کے لیے یہ خوش خبری ہے جو تفتیش یا عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے ہندوستان واپس آنے کے مخالف ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے فرار کی راہ خود مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے بیان سے ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔
سی بی آئی کے 16 اکتوبر کو ایک اجلاس میں، جو بھگوڑوں کی حوالگی سے متعلق تھا، امت شاہ نے اعلان کیا کہ نیا فوجداری ضابطہ ہند یعنی بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا (بی این ایس ایس)، ’غیر موجودگی میں مقدمہ‘ (ٹرائل ان ابسنشیا) کی اجازت دیتا ہے۔ اس قانون کی دفعات 355 اور 356 کے مطابق مخصوص حالات میں عدالت کسی ملزم کی غیر موجودگی میں بھی مقدمہ چلا سکتی ہے۔
پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کے مطابق، شاہ نے واضح کیا کہ اگر کوئی بھگوڑا قرار دیا گیا شخص عدالت میں حاضر نہیں ہوتا تو عدالت اس کے لیے وکیل مقرر کر کے مقدمہ میں پیش قدمی کر سکتی ہے۔ شاہ نے کہا کہ اس قانون کے تحت ’غیر موجودگی میں مقدمہ‘ چلانے کے اختیارات کا بھرپور استعمال ہونا چاہیے۔‘‘
اگر اس بیان کو حکومتِ ہند کی نئی پالیسی تصور کیا جائے تو اس سے برطانیہ اور بیلجیم میں پناہ لیے بھگوڑوں کو واپس لانے کی ضرورت تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔ اب جب کہ شاہ خود اس قانون کے مکمل نفاذ کی وکالت کر چکے ہیں، ان بھگوڑوں کے وکیل ممکنہ طور پر غیر ملکی عدالتوں میں یہ دلیل دیں گے کہ ہندوستان خود ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانے پر آمادہ ہے۔
ستمبر 2024 تک سی بی آئی کے پاس بدعنوانی کے 6900 سے زائد مقدمے زیرِ التوا تھے اور 2024 میں ہی ثبوتوں کی کمی کی بنیاد پر 174 مقدمے بند کر دیے گئے۔ بعض مقدمے پانچ سے دس سال سے زیرِ تفتیش ہیں، حالانکہ قاعدے کے مطابق ایک سال کے اندر تحقیق مکمل ہونی چاہیے۔
اسی طرح، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی کامیابی کی شرح نہایت کم ہے، 5892 مقدمات میں صرف 8 میں سزا ہوئی، یعنی کامیابی کی شرح 0.1 فیصد سے بھی کم۔
ایک مثال راج سیٹھیا کی ہے، جنہیں 1985 میں پنجاب نیشنل بینک سے مبینہ فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ وہ دو سال قید میں رہے اور 2019 میں 34 سال بعد بری ہوئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ سی بی آئی نے ان پر جھوٹے مقدمات بنائے تھے، جس سے ان کی زندگی برباد ہو گئی۔
شاہ کے بیان کے اگلے ہی دن، 17 اکتوبر کو بیلجیم کے شہر اینٹورپ کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا کہ ہیروں کے کاروباری میہل چوکسی کی گرفتاری جائز تھی۔ تاہم یہ کارروائی محض ابتدائی تھی، اصل سماعت، یعنی اس کے ہندوستان کے حوالے کیے جانے کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی حکام نے اس ابتدائی فیصلے کو میڈیا میں اس طرح پیش کیا جیسے چوکسی کا ہندوستان آنا طے ہو گیا ہو۔ کئی رپورٹوں میں تو ممبئی کی آرتھر روڈ جیل میں اس کے لیے ’بہتر سہولتوں والی سیل‘ کی خبر بھی شائع ہوئی۔ یہ سب غلط اور قبل از وقت تھا، جس سے بیلجیم کی عدالت میں مقدمہ متاثر ہو سکتا ہے، کیونکہ یورپی قوانین کے مطابق میڈیا ٹرائل ملزم کے منصفانہ مقدمے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
بیلجیم کی عدالت نے جس حوالگی معاہدے کا حوالہ دیا وہ دراصل 1901 میں بیلجیم اور برطانیہ کے درمیان طے پایا تھا اور 1954 میں ہندوستان نے اسی معاہدے کو برطانوی نوآبادیاتی شقوں کے بغیر من و عن اپنا لیا۔ سی بی آئی کے مطابق اس پرانے معاہدے کے کچھ نکات چوکسی کے الزامات پر لاگو ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ’فراڈ کے ذریعے دولت حاصل کرنا‘ اور ’کارپوریٹ یا سرکاری دھوکہ دہی۔‘
ترجمہ شدہ عدالتی فیصلے میں درج ہے کہ 27 اگست 2024 کو حکومتِ ہند نے چوکسی کے خلاف دو گرفتاری وارنٹ جاری کیے اور 25 نومبر 2024 کو بیلجیم کے حکام سے ان کے نفاذ کی درخواست کی۔ پھر 29 نومبر 2024 کو عدالت نے انہیں مؤثر قرار دیا لیکن بیلجیم پولیس نے 12 اپریل 2025 کو جا کر انہیں نافذ کیا یعنی ساڑھے چار ماہ کی تاخیر، جس کے اسباب غیر واضح ہیں۔
اسی دوران، مارچ 2025 میں بیلجیم کا ایک اقتصادی وفد، شہزادی ایسٹرڈ کی قیادت میں، ہندوستان آیا اور دفاعی سازوسامان کے سودوں پر دستخط کیے، جن میں ہندوستانی فوج کے لیے 105 ملی میٹر توپ کی فراہمی بھی شامل تھی۔ مبصرین کے مطابق یہ تجارت سیاسی و عدالتی تعاون کے ساتھ جوڑنے کی ایک مثال ہو سکتی ہے۔
چوکسی نے 14 اپریل 2025 کو اپیل دائر کی مگر سماعت ستمبر 2025 تک مؤخر رہی۔ بیلجیم کے 1874 کے ایکٹ کے مطابق اگر یہ اندیشہ ہو کہ کسی شخص کو اس کے ملک میں تشدد یا غیر منصفانہ سلوک کا سامنا ہوگا تو اسے حوالگی سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ چوکسی کو اس اندیشے کے ثبوت فراہم کرنے ہوں گے۔ تاہم عدالت نے اینٹیگا میں اس کے اغوا کے واقعات کو ہندوستانی حکام کی ہدایت پر مبنی ماننے سے انکار کیا۔
دوسری طرف، لندن کی ہائی کورٹ نے جون 2025 میں اسی معاملے پر ایک مقدمے کی ابتدائی سماعت میں چوکسی کے الزامات قابلِ سماعت قرار دیے، یہ بات ہندوستان کے لیے قانونی خطرے کی گھنٹی ہے۔
اسی فیصلے میں، عدالت نے آرٹیکل 6 (منصفانہ سماعت) اور آرٹیکل 3 (غیر انسانی سلوک سے تحفظ) کا حوالہ دیا۔ چوکسی کے وکلا کا کہنا تھا کہ ہندوستانی میڈیا کی کوریج اس کے منصفانہ مقدمے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ اگرچہ بیلجیم عدالت نے یہ دلیل نہیں مانی مگر فیصلے کے بعد ہندوستانی میڈیا کی رپورٹنگ نے چوکسی کو نئی قانونی بنیاد فراہم کر دی۔
چوکسی کا کیس واحد نہیں۔ حال ہی میں برطانیہ کی اپیل کورٹ نے سنجے بھنڈاری کے خلاف ہندوستان کی حوالگی کی درخواست مسترد کر دی، کیونکہ عدالت نے تسلیم کیا کہ ہندوستان میں تشدد عام ہے اور حکومت نے اب تک اقوام متحدہ کے انسدادِ تشدد کنونشن (یو این سی اے ٹی) کی توثیق نہیں کی۔ یہی دلیل مستقبل میں چوکسی یا دیگر مقدمات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔