مساجد کے نیچے مندر کی تلاش! آگ بھڑکانے کی کوشش

یوں تو ملک بھر میں مسجدوں کے نیچے مندر کی تلاش کی جا رہی ہے لیکن جو کچھ مغربی اتر پردیش میں کیا جا رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔ یہاں انتظامیہ کی بے حسی اور رہنماؤں کا آگ بھڑکانا لگاتار جاری ہے

<div class="paragraphs"><p>یوپی میں ایک مسجد کے سروے کے لئے جاتی آثار قدیمی کی ٹیم اور ہندووادی عناصر / آئی اے این ایس</p></div>

یوپی میں ایک مسجد کے سروے کے لئے جاتی آثار قدیمی کی ٹیم اور ہندووادی عناصر / آئی اے این ایس

user

ہرجندر

ہرجندر

ملک میں بیکوقت متعدد واقعات رونما ہوئے۔ اچانک سنبھل کی مسجد سے لے کر درگاہ اجمیر شریف تک کے ’سروے‘ کے لیے عدالتوں میں دائر کی گئی درخواستوں کا سیلاب آ گیا۔ مرادآباد اور بریلی میں مسلمانوں کی جانب سے گھر خریدنے پر ہندو پڑوسیوں نے ہنگامہ کر دیا۔ یہ سب الگ الگ واقعات نظر آتے ہیں لیکن ان سے مغربی اتر پردیش میں تناؤ کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

نومبر کے آخری ہفتہ میں اس فرقہ وارانہ تناؤ کے سبب سنبھل میں فساد برپا ہو گیا، جس میں پانچ لوگوں کی جان چلی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ اس نے پیلٹ گن سے ربڑ کی گولیاں چلائی تھیں، اصل گولیاں نہیں۔ تاہم موقع پر تمام شاہدین اور ویڈیو کہہ رہے ہیں کہ پولیس نے چھوٹے ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔

یہ فساد شاہی جامع مسجد کے جلد بازی میں کیے گئے آثار قدیمہ سروے کے بعد ہوا تھا۔ یہ سروے بھی عدالت نے اتنی ہی جلدبازی میں جاری کیے گئے حکم کا نتیجہ تھا۔ جلدبازی کی اس جگل بندی پر شبہ بھی اس لیے ہی ہوتا ہے کہ درخواست گزار نے صرف اس عمارت میں پوجا کرنے کی اجازت طلب کی تھی جو آثار قدیمہ کی حفاظت میں ہے۔ جس دن عدالت میں درخواست دائر کی گئی، اسی دن محکمہ آثار قدیمہ نے عدالت کو بتایا کہ اسے سروے کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ محکمہ نے اسی سال جون میں مسجد کا سروے کیا تھا اس کے پہلے 1998 اور 218 میں بھی اس کا سروے ہو چکا ہے۔ اس دوران محکمہ نے مسجد کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کا کوئی کام نہیں کیا۔


اتر پردیش حکومت نے سنبھل میں بیرونی افراد کے لوگوں کے داخلہ پر روک لگا دی۔ اس کا استعمال خصوصی طور پر سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوں، صحافیوں، حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی ٹیموں اور کارکنوں کو وہاں جانے سے روکنے کے لیے کیا گیا۔ تشدد بھڑکنے سے ایک دن قبل شام کو سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاءالرحمن برق بنگلورو میں تھے۔ انہیں اپنے انتخابی حلقہ میں آنے سے روک دیا گیا۔ سروے سے قبل یا بعد میں امن اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے شہری تنظیموں کی کوئی امن کمیٹی قائم نہیں کی گئی۔

دریں اثنا، مظفرنگر ایک مرتبہ پھر خبروں کی سرخی بن گیا ہے۔ یہاں ریلوے اسٹیشن کے قریب بنائی گئی ایک مسجد کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ یہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی زمین پر بنی ہے، اس لیے اسے دشمن جائیداد قرار دیا جائے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا کہ یہ مسجد 1930 میں ہی وقف کے طور پر عطیہ کی گئی تھی، اس اعتبار سے یہ تقسیم کے وقت لیاقت علی کی ملکیت نہیں تھی۔ اس دوران کچھ خبریں سامنے آئیں کہ مقامی انتظامیہ نے اس مسجد کو دشمن جائیداد قرار دینے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

اسی دوران بدایوں کی شاہی جامع مسجد کا تنازع بھی سرخیوں میں آ گیا ہے۔ 800 سال پہلے شمس الدین التمش کے حکم پر تعمیر ہونے والی اس مسجد کو بھی مندر ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

سماجی کارکن راکیش رفیق کا کہنا ہے کہ مغربی اتر پردیش کے لوگ کبھی بھی فرقہ وارانہ نہیں رہے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر سومپال شاستری بھی تقریباً ایسا ہی بیان دیتے ہیں لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ پورے مغربی اتر پردیش میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی جو کوششیں تقریباً ایک دہائی پہلے شروع ہوئیں، اب وہ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ ہر ضلع، ہر قصبے میں ایسی مساجد کی تلاش کی جا رہی ہے جنہیں مندر ہونے کا دعویٰ کیا جا سکے۔

مظفرنگر کے اس کشیدہ ماحول کے ایک ہفتے کے اندر ہی پڑوسی ضلع مرادآباد کی ایک کالونی ٹی ڈی آئی سٹی میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ وہاں رہنے والے ایک ہندو ڈاکٹر نے اپنا گھر ایک مسلم ڈاکٹر جوڑے کو بیچ دیا تھا۔ کئی مقامی افراد نے احتجاج کرتے ہوئے گھر کی رجسٹری منسوخ کرنے کی مانگ کی۔ اس غیر جائز مطالبے کو دبانے یا لوگوں کو خاموش کرانے کی بجائے مقامی انتظامیہ درمیان کا راستہ اختیار کرتی نظر آئی۔ ستمبر میں ایسا ہی ایک واقعہ مظفرنگر میں بھی پیش آیا تھا، جہاں بھارتی کالونی میں ایک مسلم خاتون نے مکان خریدا، تو کچھ تنظیموں نے لوگوں کو اُکسا کر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس سے کچھ دن پہلے ایسی ہی ایک واقعہ بریلی میں بھی ہوا تھا۔


یہ سب کچھ کم یا زیادہ پورے ملک میں ہو رہا ہے لیکن جس پیمانے پر اور جس شدت سے اسے مغربی اتر پردیش میں کیا جا رہا ہے، وہ پریشان کن ہے۔ انتظامیہ کی غفلت اور بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دینا یہاں کا مستقل رجحان بن چکا ہے۔

اس کی ابتدا 2013 کے مظفرنگر فسادات سے ہوئی تھی۔ ان فسادات میں علاقے کے موثر جٹ طبقے کو مسلمانوں کے خلاف اُٹھا کر تصادم میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 44 سے زیادہ لوگوں کی جان لینے والا یہ فساد اگرچہ اپنی کوشش میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکا، لیکن اس نے مغربی اتر پردیش کو وہ دھبہ دیا جسے بعد میں دھونا ممکن نہیں تھا۔ اس وقت ریاست میں سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی۔ بی جے پی کو لگ رہا تھا کہ اقتدار میں واپسی کا راستہ اس کشیدگی کو مسلسل بڑھا کر ہی کھولا جا سکتا ہے۔ بی جے پی اس میں کامیاب بھی رہی۔

جب اسمبلی انتخابات آئے تو اس کشیدگی کو نئے انداز سے ہوا دی گئی۔ تب تک مرکز میں نریندر مودی کی حکومت بن چکی تھی۔ یہ کہا گیا کہ کیرانہ میں ہندوؤں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اخباروں اور ٹیلی ویژن پر ایسے گھروں کی تصاویر دکھائی گئیں جن کے باہر لکھا تھا 'فروخت کے لیے'۔ اتنا ہی نہیں، بی جے پی نے ایسے ہندو خاندانوں کی فہرست بھی جاری کر دی جو وہاں سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔ تمام تنازعات کے درمیان انسانی حقوق کمیشن بھی متحرک ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ پوری کہانی جھوٹ تھی جو صرف انتخاب جیتنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ایسی ہی کہانیوں کی مدد سے بی جے پی نے نہ صرف انتخابات جیتے بلکہ اتر پردیش میں اپنی حکومت بھی بنائی۔

سومپال شاستری اس کہانی کے ایک اور پہلو کی طرف دھیان دلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی اتر پردیش میں یہ سارا تبدیلی 2009 میں شروع ہوئی جب جٹ لیڈر چودھری اجیت سنگھ نے بی جے پی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے انتخاب لڑا۔ اس سے بی جے پی کو مغربی اتر پردیش میں پاؤں جمانے کا موقع ملا۔


کچھ دن پہلے مظفرنگر کا ایک ویڈیو سرخیوں میں آیا تھا جس میں ایک استاد نے کلاس کے تمام بچوں کو ایک مسلم طالب علم کو باری باری پیٹنے کے لیے کہا تھا۔ پانچ دسمبر کو خبر آئی کہ اس استاد کو ضمانت دے دی گئی ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہمیشہ کی طرح آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا۔ انہوں نے سنبھل کے فسادات کی موازنہ بنگلہ دیش میں ہو رہی وارداتوں سے کی۔ ایودھیا رام کتھا پارک میں رامائن میلے کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 500 سال پہلے بابر نے جو کچھ کمبھ میں کیا تھا، وہی بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے اور وہی سنبھل میں ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تینوں واقعات کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے اس خطاب کے تین دن بعد گازی آباد میں ہندو تنظیموں نے بڑا احتجاج کیا۔

بنگلہ دیش کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ وہاں صرف ہندو ہی نہیں، بلکہ تمام اقلیتی طبقوں اور کئی جگہ تو مسلمانوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مشرفی مرتضی کا گھر بھی جلا دیا گیا کیونکہ وہ عوامی لیگ کے رکن تھے۔ عیسائی اقلیتی بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک گردوارہ پر بھی وہاں حملہ ہو چکا ہے۔

راکیش رفیق کا کہنا ہے کہ مغربی اتر پردیش اس وقت جس حالت میں ہے، وہاں کچھ بھی کرنے کی گنجائش بہت محدود ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کے رہنماؤں کو سنبھل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ تمام لوگ جو امن کے راہنما ہو سکتے تھے، انتظامیہ ان کے خلاف کھڑی ہے۔

ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر بتاتے ہیں کہ حالات اب کافی بدل چکے ہیں۔ پہلے جب کہیں کشیدگی ہوتی تھی، تو مقامی انتظامیہ تمام فرقہ وارانہ برادریوں کے لوگوں کو ساتھ لے کر قومی یکجہتی کمیٹی بناتی تھی۔ اس کے لوگ کشیدگی زدہ علاقوں میں جا کر لوگوں سے امن قائم رکھنے کی اپیل کرتے تھے۔ لیکن اب انتظامیہ کی جانب سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔

مغربی اتر پردیش بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر بہت اہم علاقہ ہے۔ مرکز یا ریاست میں کہیں بھی حکومت بنانی ہو، تو اس علاقے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا کر ووٹ جمع کرنے والے اس علاقے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔