غزہ میں صہیونی حیوانیت کے مناظر

اسرائیلی درندگی کے شکار فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے صہیونی فوج کی درندگی اور دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا اور راہ میں کتنے بھیانک مناظر نے ان کے کلیجے دہلا دیے

<div class="paragraphs"><p>غزہ پٹی پر اسرائیلی حملہ / Getty Images</p></div>

غزہ پٹی پر اسرائیلی حملہ / Getty Images

user

سراج نقوی

شمالی غزہ میں صہیونی فوج کی حیوانیت کے جو واقعات سامنے آ رہے ہیں وہ کس بھی انسان کو ذہنی توازن کھونے کی حد تک خوفزدہ کرنے کے لیے کافی ہیں، یہ مناظر کسی حماس حامی میڈیا یا پھر غیر جانبدار میڈیا کی رپورٹوں میں نہیں بلکہ بی بی سی کی رپورٹوں میں مظلوم فلسطینیوں کی دردناک داستانوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ان سے دنیا اندازہ کر سکتی ہے کہ اسرائیل کس طرح حماس پر قابو نہ پانے کی جھنجلاہٹ میں فلسطین کے عام شہریوں کے ساتھ وہ سلوک کر رہا ہے جو مہذب ممالک میں جانوروں تک کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ جنگ سے متعلق ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جن کو دیکھنا تو کیا انھیں سننے کی بھی کمزور دل آدمی تاب نہیں لا سکتا۔

جمعرات کے روز بی بی سی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسرائیلی درندگی کے شکار فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے صہیونی فوج کی درندگی اور دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا اور راہ میں کتنے بھیانک مناظر نے ان کے کلیجے دہلا دیے۔

اس رپورٹ میں بیان کیے گئے واقعات کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے شروع کرنے سے پہلے رپورٹ پر ایک وارننگ لکھی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ”اس کہانی میں کچھ واقعات اور حقائق آپ کو ذہنی طور پر پریشان کر سکتے ہیں۔“ بلکہ ذہنی طور پر پریشان سے بھی زیادہ سخت لفظ اس صورتحال کے لیے شائد مغز پاشی ہو سکتا ہے۔ بہرحال بی بی سی کی اس اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی زبردست بمباری کے بعد جب ایک فلسطینی کنبے نے 16نومبر کے بعد اپنا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس اتنا بھی وقت نہیں تھا کہ گھر سے کچھ ضروری سامان ساتھ لے پاتے یا گھر میں تالا تک لگا پاتے، لیکن گھر کو اس حالات میں چھوڑنے کے بعد ان پر راہ میں جو مصائب گزرے اور انھوں نے اسرائیلی فوج کی بربریت کے جو چشم دید ثبوت بی بی سی کے نمائندے کو سنائے وہ انتہائی خوفناک ہیں۔ جہد المسراوی نام کے ایک مظلوم فلسطینی نے بتایا کہ اس کے بیٹے عمر کو اسرائیلی فوج نے 2012میں ایک حملے میں مار دیا تھا۔ جہد کے بیٹے کی موت بھی اس کا ثبوت ہے کہ کس طرح اسرائیل کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے صبر و تحمل کا امتحان لیتا رہا ہے۔ بہرحال جہد نے بتایا کہ اس کا کنبہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھا کہ جو صلاح الدین سے جنوب کی سمت ایک خطرناک سفر پر جا رہا تھا۔ جہد کے ساتھ اس کی بیوی اور چار بیٹے بھی تھے۔ ان کے علاوہ والدین، بھائی بہن، چچازاد بھائی بہن اور ان کے کنبے بھی تھے۔ جہد کے مطابق اس سفر میں ایک چیک پوائنٹ سے پہلے گزرنے کے انتظار میں اس کے والد تین مرتبہ بے ہوش ہوئے۔ چیک پوائنٹ کے چاروں طرف کافی دور تک اسرائلی فوجی تھے۔ جہد کے مطابق چیک پوائنٹ پر تلاشی کے دوران وہاں موجودتقریباً50 فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے انڈر وئیر اتار دیں اور زمین پر بیٹھ جائیں۔ ان میں سے کئی لوگوں کی آنکھوں پر پٹّی باندھ دی گئی۔ جہد کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو فوجی ایک منہدم عمارت کے ملبے کے پیچھے لے گئے۔ جہد نے گولیاں چلنے کی آواز سنی شائد ان لوگوں کو مار دیا گیا تھا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کس طرح اسرائیلی فوجی عام شہریوں پر نہ صرف تشدد کر رہے ہیں بلکہ انھیں بے سبب قتل بھی کر رہی ہے۔حیرت یہ ہے کہ چند بے حس ممالک اب بھی اسرائل کی جنگ کو دفاع میں کی جانے والی جنگ قرار دے کر انسانیت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔محمد نام کے ایک اور شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ جنوبی غزہ کی طرف سفر کے دوران ایک اسرائیلی فوجی نے اس سے تمام کپڑے اتارنے کے لیے کہا۔ محمد کے مطابق وہ پوری طرح برہنہ تھا اور اسے شرم آ رہی تھی۔ محمد کے بیان کے مطابق ایک خاتون فوجی نے اپنی بندوق اس کی طرف تان دی اور اسے ہٹانے سے پہلے میرا مضحکہ اڑایا اور توہین کی۔محمد کو تقریباً دو گھنٹے تک برہنہ رہنا پڑا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بی بی سی کے نمائندے کو اس معاملے میں صفائی دیتے ہوئے کہا کہ کپڑے یہ معلوم کرنے کے لیے اتروائے گئے کہ کسی کے پاس کوئی دھماکہ خیز مادہ تو نہیں ہے۔ حالانکہ اسرائیلی فوج کی یہ دلیل اس لیے ناقابل قبول ہے کہ اس شک میں کپڑے اتروانے میں جسم پرانڈر وئیر کو چھوڑ کر بھی شک دور کیا جا سکتاتھا۔ آئی ڈی ایف یعنی اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بی بی سی نمائیندے کے سامنے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کا م کر رہے ہیں۔‘ کیا اس سے بڑا کوئی جھوٹ ہو سکتا ہے کہ عام شہریوں سے ان کے گھروں کو خالی کرانے والی فوج بین الاقوامی قوانین پر عمل آوری کا دعویٰ بھی کرے۔ کون سا بین الاقوامی قانون ہے کہ جو دشمن فوج کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ شہری علاقوں پر حملہ آور ہو، شہریوں کا قتل عام کرے اور جو بچ جائیں انھیں ہجرت کے لیے مجبور کرے؟ یہ سفر کرنے والے کئی دیگر فلسطینیوں نے بتایا کہ انھوں نے چیک پوائینٹ سے گزرنے کے بعد بھی راہ میں کئی مقامات پر بے حد خراب حالت میں کئی لاشیں دیکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بکھری ہوئی لاشیں سڑ رہی تھیں اور مکھیوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔پورے علاقے میں بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ جہد نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ایک جلی ہوئی کار میں ایک سر کٹی ہوئی لاش دیکھی کہ جس کا ہاتھ کار کی اسٹئیرنگ پر تھا۔ اس طرح کے مناظر دیکھ کو کون ہوگا کہ جو نہ تڑپ جائے۔ سوال یہ ہے کہ ایک کار چلانے والے شخص سے کہ جو شمالی غزہ چھوڑ کر جنوبی غزہ کی سمت جا رہا تھا وہ کس طرح اسرائیلی فوج کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا اور کون سا قانون ہے کہ جو ا ن حالات میں بھی کسی فوج کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ مسافر کو اس بہیمانہ ڈھنگ سے قتل کر دے۔جہد نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ راستے میں ایک مقام پر انھیں مخالف سمت سے ایک اسرائیلی ٹینک اتنی تیزی سے اپنی طرف بڑھتا ہو ا نظر آیا کہ سب لوگوں کوگھبراہٹ میں لاشوں کے اوپر سے پھلانگتے ہوئے تیزی سے دوڑنا پڑا۔یہ تما مناظر اسرائیلی فوج کی درندگی بیان کرنے کے لیے کافی ہیں حالانکہ کئی واقعات ایسے بھی ہیں کہ جنھیں احاطہ تحریر میں لانے سے بھی قلم کانپتا ہے۔


غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج نے اس حد تک بمباری کی ہے کہ وہاں کوئی اسکول تک اس سے نہیں بچا ہے۔70فیصدی سے زیادہ اسکولی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔ جو بچی ہیں ان میں پناہ گزینوں کو رکھا گیا ہے۔ بین الاقوامی قوانین پر عمل کے دعوے کرنے والے جھوٹے صہیونی شائد یہ نہیں چاہتے کہ فلسطینیوں کی زندہ بچ جانے والی نوجوان نسل تعلیم بھی حاصل کرے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک چھ لاکھ سے زیادہ فلسطینی طلباء کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔تین ہزار سے بھی زیادہ طلباء کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے، لیکن فلسطینیوں کا جذبہ ان تمام حالات کے باوجود کتنا جواں ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مصر کی سرحد سے ملے ہوئے شہر رفہ میں ایک فلسطینی اسکول ماسٹر اب بھی طلباء کو پڑھانے کا عمل تمام مشکل حالات میں ایک بہت چھوٹی اور عارضی جگہ میں اپنی طرف سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ طارق نام کا یہ ماسٹر یہاں بچوں کو مفت تعلیم دے رہا ہے۔ انھیں اگریزی پڑھا رہا ہے۔ طارق کی کلاس میں تقریباً 30بچے پڑھ رہے ہیں، جو نہایت معصومیت سے حالات کے معمول پر آنے کے منتظر ہیں۔ فلسطینیوں کی زندگی کا یہ وہ روشن پہلو ہے جو جنگ کی ہولناک تاریکیوں میں بھی امید کی ایک کرن پیدا کرتا ہے، اور اہل فلسطین

میں یہ اعتماد بھی پیدا کرتا ہے کہ، ”ہم ہونگے کامیاب ایک دن“۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔