صحافت کی بے باک آواز سنکرشن ٹھاکر کا 63 سال کی عمر میں انتقال، ان کی خدمات ناقابل فراموش
سنکرشن ٹھاکر کی مادری زبان میتھلی تھی، جو لوک کہانیوں اور شاعری سے لبریز زبان ہے، اور شاید اسی نے ان میں صحافت کے اندر کہانی گوئی والی گہرائی جیسا شوق پیدا کیا۔

ہندوستان کے معتبر سیاسی صحافیوں اور مصنفین میں شمار کیے جانے والے سنکرشن ٹھاکر 8 ستمبر 2025 کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 63 سال تھی۔ دہائیوں تک ٹھاکر کی تحریروں نے رپورٹنگ کے سخت اصولوں پر عمل کیا جس نے انھیں ہندوستانی سیاست، خصوصاً بہار اور اس کے رہنماؤں کی بدلتی ہوئی سیاست کا ایک معتبر مبصر بنا دیا۔ ان کی وفات آزاد صحافت کی دنیا میں ایک ایسا خلا چھوڑ گئی ہے جہاں یقین، گہرائی اور ہمدردی ان کے کام کی پہچان ہوا کرتی تھی۔
ابتدائی زندگی
1962 میں بہار میں پیدا ہونے والے سنکرشن ٹھاکر کا بچپن اسی ریاست میں گزرا، جو بعد میں ان کی صحافت کا کینوس اور ان کی تخلیقی تحریک بنی۔ ان کی مادری زبان میتھلی تھی، جو لوک کہانیوں اور شاعری سے لبریز زبان ہے، اور شاید اسی نے ان میں صحافت کے اندر کہانی گوئی والی گہرائی جیسا شوق پیدا کیا۔ وہ سینئر صحافی جناردن ٹھاکر کے بیٹے تھے۔ اس وجہ سے اخبار اور سیاسی معاملات ان کے بچپن کا حصہ رہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے والد کی پہچان کو کبھی نمایاں نہیں کیا، لیکن ذمہ داری کے ساتھ صحافت کی وراثت کو آگے بڑھایا۔
پٹنہ اور بعد میں دہلی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ فطری طور پر صحافت کی طرف راغب ہوئے۔ قریبی دوستوں کے مطابق ان کے ابتدائی دن مشاہدے میں خاموشی کے تھے۔ وہ زیادہ سنتے اور کم بولتے، اور بہار کی سیاسی زندگی کو گاؤں کے چوکوں سے لے کر پٹنہ کے طاقتور ایوانوں تک بغور دیکھتے۔ ہندوستان کی سطح در سطح جمہوریت کا شعور انہی برسوں میں ان میں بیدار ہوا۔
کیریئر اور ’دی ٹیلی گراف‘
سنکرشن ٹھاکر کے کام پر ایم جے اکبر کا گہرا اثر تھا، جن کے زیرِ تربیت انہوں نے ’سنڈے میگزین‘ میں کئی برس گزارے۔ 1984 میں ایک نوجوان رپورٹر کے طور پر انہوں نے بھوپال گیس سانحہ، اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے سکھ مخالف فسادات اور سری لنکا میں نسلی تنازعہ جیسے بڑے واقعات کی رپورٹنگ کی۔ ان کی رپورٹنگ صرف حقائق نہیں بلکہ انسانی قدروں پر بھی مرکوز ہوتی تھی۔ ٹھاکر ’تہلکا ویکلی‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر بھی رہے، جسے انہوں نے 2004 میں لانچ کرنے میں مدد دی۔ بعد میں وہ ’دی ٹیلی گراف‘ واپس آگئے، جہاں انہوں نے 1985 میں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ وہ وہاں دہلی بیورو کے چیف اور دیہی امور کے ایڈیٹر رہے۔ ’دی ٹیلی گراف‘ نے انہیں زبان اور اسلوب میں تجربات کی آزادی دی اور انہوں نے اس اعتماد کا بدلہ پر اثر کہانی گوئی سے دیا۔
ٹھاکر اپنے سخت فیلڈ ورک کے لیے جانے جاتے تھے۔ انہیں ٹی وی اسٹوڈیو کے بجائے گاؤں کی چھوٹی کچہری پسند تھی، اور تیز و شور شرابہ والے پینل ڈبیٹ کے بجائے غیر رسمی گفتگو۔ بڑھتے ہوئے شور اور فوری خبروں کے دور میں وہ صبر اور باریک بینی پر مبنی بیانیے کے ساتھ نمایاں نظر آتے تھے۔
بہار اور اس کے رہنماؤں کے مورخ
بہت کم صحافی بہار کی تبدیلی کو سنکرشن ٹھاکر جیسی حساسیت اور استقامت سے جوڑ پائے۔ ان کی توجہ تجزیاتی اعداد و شمار کے بجائے انسانی تجربات، مکالموں اور کرداروں پر رہی۔ ان کے لیے لالو پرساد یادو اور نتیش کمار صرف سیاسی چہرے نہیں بلکہ بہاری عوام کی خواہشات اور تضادات کی عکاسی تھے۔
ان کی تحریر کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ تفصیلات سے بھرپور، کرداروں سے لبریز اور کبھی کبھی شاعرانہ انداز میں لکھی گئی ہوتی تھی۔ وہ ماحول، مناظر اور روزمرہ زندگی کی جھلک کو اپنی تحریر میں شامل کرنے سے گھبراتے نہیں تھے۔ ان کے ساتھی اکثر ان کی تیز نظر اور مزید تیز قلم کا ذکر کرتے۔ تاہم، ان کی زبان نہایت عام فہم اور دلکش تھی۔ وہ ہمیشہ پرنٹ اور طویل تحریر کے حامی رہے، اور سمجھتے تھے کہ سچائی سیاق و سباق میں ہے، نہ کہ مختصر جملوں میں۔ ٹھاکر عوامی سیاست کے صحافی تھے، وہ ڈرائیوروں، دکانداروں اور چائے فروشوں سے بات کرنے کو اہمیت دیتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک یہی لوگ اصل سچائی کے حامل تھے جنہیں ایلیٹ طبقہ اکثر نظرانداز کرتا ہے۔
اگرچہ وہ زیادہ تر بہار کی سیاست کے مورخ کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں، لیکن ان کی تحریریں اس سے آگے بھی جاتی ہیں۔ انہوں نے دیہی مسائل، نقل مکانی اور ترقی کے نام پر محروم رہ جانے والے لوگوں پر گہری ہمدردی کے ساتھ لکھا۔ ان کی کشمیر سے کی گئی رپورٹنگ بھی اسی گہرائی کی حامل تھی، جہاں وہ صرف شورش یا فوجی کارروائی نہیں بلکہ اس کے انسانی پہلو پر توجہ دیتے۔ ان کا ماننا تھا کہ صحافت کا ایک اخلاقی فرض ہے۔ ان کی نظر میں طاقتور سے سوال کرنا ہی نہیں بلکہ کمزور اور حاشیے پر موجود طبقات کی حالتِ زار کو محفوظ کرنا بھی بہت اہم ہے۔ ان کی تحریروں میں تجزیہ کے ساتھ ساتھ ایک زندہ ضمیر کی جھلک بھی ملتی تھی۔
استاد اور ساتھی
نیوز روم میں سنکرشن ٹھاکر ایک شفیق لیڈر تصور کیے جاتے تھے۔ نوجوان رپورٹرس ان کی واضح سوچ، اسٹوری کے جوہر تلاش کرنے کی صلاحیت اور صبر سے ایڈیٹنگ کرنے کے سبب ان کی عزت کرتے تھے۔ وہ اداریہ اجلاس میں سب سے زیادہ بولنے والے نہیں ہوتے تھے، لیکن جب بولتے تو ان کی دلیل گہرائی اور تجربے پر مبنی ہوتی۔ ان کے ساتھی ان کی بذلہ سنجی اور گرمجوشی کو یاد کرتے ہیں۔ وہ سیاست اور صحافت کے خود ساختہ غرور پر ہنسی اڑانے میں بھی ماہر تھے، لیکن دیانت کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔
اعزازات اور پہچان
اپنے طویل کیریئر میں سنکرشن ٹھاکر کو کئی ایوارڈ ملے، جن میں 2001 میں ’پریم بھاٹیا ایوارڈ برائے سیاسی رپورٹنگ‘ نمایاں ہے۔ 2003 میں انہیں کشمیر پر کتاب لکھنے کے لیے ’اپّن مینن فیلوشپ‘ ملا۔ مگر ان کے لیے اصل اعزاز ان کے ساتھیوں اور قارئین کی عزت تھی، جس نے انہیں منفرد مقام دیا۔ ان کی کتابیں آج بھی ان سب کے لیے لازمی مطالعہ ہیں جو ’منڈل‘ کے بعد بہار کی سیاست کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
ذاتی زندگی اور وراثت
اپنی عوامی شخصیت کے باوجود سنکرشن ٹھاکر ایک پرائیویٹ زندگی گزارنے والے انسان تھے۔ وہ اپنے خاندان کو بہت اہمیت دیتے اور اکثر دہلی کی سیاست کی ہلچل سے ہٹ کر پرسکون ماحول میں وقت گزارتے۔ بہار سے ان کا تعلق صرف پیشہ ورانہ نہیں بلکہ ذاتی بھی تھا۔ وہ اس کی مٹی، اس کی تاریخ، اس کی جدوجہد اور اس کے حسن سے جڑے ہوئے تھے۔ وہ اپنی بیوی، بچوں اور اُن بے شمار ساتھیوں، شاگردوں اور قارئین کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں، جن کے لیے وہ ایک رہنما اور استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔