روس-امریکہ کی نئی شراکت داری، یوکرین کے مستقبل پر سنگین سوالات

صدر ٹرمپ اور پوتن کی قیادت میں، یوکرین میں انتخابات کرانے اور ماسکو نواز حکومت کے قیام کی کوششیں جاری ہیں، جس پر یورپی ممالک سخت تشویش کا شکار ہیں

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

آشیش رے

روس اور امریکہ کے درمیان جو نئی شراکت داری ابھرتی نظر آ رہی ہے، وہ یوکرین پر ایسا فیصلہ مسلط کر رہی ہے جو نہ صرف وہاں کی حکومت اور عوام کی خواہشات کے برعکس ہے بلکہ کیو میں ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دینے والا بھی ہے۔

اس شراکت داری کا مقصد یہ ہے کہ یوکرین میں جلد از جلد انتخابات کروا کر صدر وولودیمیر زیلنسکی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا جائے۔ زیلنسکی روس کے ساتھ تنازع کا باعزت حل نکالنے میں ناکام رہے، جس کی وجہ سے ان کی پہلے سے کمزور ہوتی مقبولیت مزید گر سکتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بننے والے عالمی نظم کو چیلنج کرنے پر تُلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ یوکرین میں طویل عرصے سے انتخابات نہیں ہوئے اور وہاں مارشل لا نافذ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ زیلنسکی کی عوامی حمایت صرف چار فیصد رہ گئی ہے۔ ٹرمپ تقریباً وہی مؤقف اپنا رہے ہیں جو روس کی حکومت اختیار کیے ہوئے ہے، جو زیلنسکی کو نو نازی قرار دیتی ہے اور ماسکو نواز حکومت کے قیام کی حمایت کر رہی ہے۔

ریاض میں 18 فروری کو ہونے والی بات چیت میں یوکرین کو شامل نہیں کیا گیا۔ ٹرمپ کا مؤقف تھا کہ یوکرین میں انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ وہاں کی حکومت کا نقطہ نظر تسلیم کیا جا سکے۔ تاہم، یہ بیان امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے اس مؤقف سے مختلف تھا جو انہوں نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات کے بعد دیا۔ روبیو کا کہنا تھا کہ امن معاہدہ ایسا ہونا چاہیے جو تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہا کہ یوکرین نے ہی روس پر حملہ کیا اور اسے جنگ شروع ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ پہلی بار ایک بڑے بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ 17 فروری کو پیرس میں یورپی رہنماؤں کی ہنگامی میٹنگ میں برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے کہا کہ یورپ کو ایسی بحرانی صورت حال کا سامنا ہے جو کئی نسلوں میں ایک بار آتی ہے۔


ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن یہ طے کر چکے ہیں کہ یوکرین کے مستقبل کو یورپ کے وجودی بحران میں تبدیل کر دیا جائے، جیسے 1940 میں ہوا تھا جب امریکہ جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا اور یورپ مکمل طور پر ہٹلر کے رحم و کرم پر تھا۔ اس وقت یورپ کی سلامتی کے مفادات امریکہ کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک لاکھ امریکی فوجی یورپ میں تعینات ہیں اور امریکی جوہری ہتھیار بھی یورپی ساحلوں پر موجود ہیں۔

روس اور امریکہ نے یوکرین کے مسئلے پر ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی ٹیم بنا دی ہے، جس کی قیادت وزرائے خارجہ لاوروف اور روبیو کر رہے ہیں۔ روبیو کے مطابق دونوں ممالک نے ایک مستقل مشن کی بنیاد رکھ دی ہے جو یوکرین جنگ کے خاتمے پر کام کرے گا اور جیو پولیٹیکل و اقتصادی تعاون کی راہیں تلاش کرے گا۔ زیلنسکی نے اس معاہدے کو روس کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

لاوروف نے مذاکرات کو مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو نہ صرف سن رہے ہیں بلکہ سمجھ بھی رہے ہیں۔ روس نے واضح کر دیا ہے کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت اس کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہوگی اور یورپی افواج کا وہاں قیام ماسکو کے لیے ناقابل قبول ہوگا۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا نے واضح کیا کہ نیٹو کو 2008 کے بخارسٹ معاہدے میں کیے گئے یوکرین کی رکنیت کے وعدے کو ختم کرنا ہوگا۔

جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے یوکرین کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے اور 68 لاکھ یوکرینی پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے مطابق 60 فیصد یوکرینی پناہ گزین پولینڈ میں ہیں، جرمنی میں دس لاکھ جبکہ برطانیہ میں ڈھائی لاکھ مقیم ہیں۔ صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ نے یورپ کے ساتھ مل کر روسی جارحیت کی مخالفت کی تھی، لیکن ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ موقف بدل رہا ہے۔ یورپی رہنما پوتن کو ہٹلر جیسا خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ ٹرمپ اس سوچ سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں۔


ریاض میں ہونے والے مذاکرات کے دوران امریکی سفیر والٹز نے کہا کہ جنگ کا مستقل خاتمہ ضروری ہے، نہ کہ عارضی۔ تاہم، یوکرین اور یورپ میں پائیدار امن کے لیے ٹرمپ کو یورپ کی سلامتی کی ضمانت دینی ہوگی لیکن وہ فوری حل پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، مغرب نے روس کو یقین دلایا تھا کہ نیٹو مشرق کی طرف توسیع نہیں کرے گا، لیکن روس کی کمزور معیشت کا فائدہ اٹھا کر نیٹو نے سابق کمیونسٹ ممالک میں اپنی موجودگی بڑھا دی۔ 1990 میں امریکی صدر جارج بش نے جرمن چانسلر ہیلمٹ کول کو ماسکو میں یقین دہانی کرائی تھی کہ نیٹو کا مشرقی یورپ میں پھیلاؤ نہیں ہوگا، لیکن بعد میں امریکہ نے اس پالیسی کو ترک کر دیا۔

اب جبکہ ریاض میں مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے، ٹرمپ نے زبانی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ روس یوکرین کے 20 سے 22 فیصد علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکتا ہے اور یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہیں ملے گی۔ دوسری جانب، پوتن نے امریکی قیدیوں کو رہا کر کے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو مزید خوشگوار بنا دیا ہے۔

زیلنسکی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسے کسی معاہدے کو تسلیم نہیں کریں گے جس میں انہیں شامل نہ کیا جائے۔ تاہم، کیا وہ یورپی حمایت کے بل پر لڑتے رہ سکیں گے؟ برطانوی وزیر اعظم سٹارمر امریکہ جا رہے ہیں تاکہ ٹرمپ کو یورپی سلامتی کی اہمیت کا احساس دلایا جا سکے، لیکن ٹرمپ یورپی یونین کے ساتھ کسی گہرے اتحاد کے خواہاں نہیں۔ وہ اسے ایک اقتصادی حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔


ٹرمپ نے پوتن کو عالمی سیاست کے منظرنامے پر دوبارہ نمایاں کر دیا ہے۔ اگرچہ جوہری ہتھیاروں میں کمی ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے، لیکن یہ یکطرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ ہونی چاہیے۔ روس اپنی جی ڈی پی کا 40 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، اور اس کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے، لیکن امریکی کمپنیاں روسی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہو سکتی ہیں، جو ماسکو کے لیے سودمند ہوگا۔ اگر روس کو دوبارہ جی-7 میں شامل کر کے جی-8 بنا دیا جائے تو یہ اس کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

یورپ کے پاس اب واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے خود انحصاری اختیار کرے اور دفاع پر زیادہ سرمایہ خرچ کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔