روس ابھی رکا نہیں ہے، بڑا حملہ کرنے ہی والا ہے، یوکرین کی کمر ٹوٹ چکی ہے!

یوکرین میں روس اپنے سبھی اہداف حاصل کر رہا ہے، آپ یہ سمجھنے کی غلطی مت کیجیے کہ یہ یوکرین اور روس کے درمیان کی جنگ ہے، ناٹو اپنی پوری طاقت کے ساتھ روس سے جنگ لڑ رہا ہے، بس زمینی لڑائی میں شامل نہیں۔

یوکرین، تصویر آئی اے این ایس
یوکرین، تصویر آئی اے این ایس
user

سوربھ کمار شاہی

اگر آپ خبروں کے لیے مغربی پریس پر پوری طرح منحصر ہیں اور فوجی پالیسی سے متعلق آپ کا شعور کم ہے، تو یہ سوچنے کے لیے آپ کو معاف کر دیا جائے گا کہ روس جنگ کے دوران یوکرین میں شکست کھا رہا ہے۔ ٹھیک ہے، جہاں تک پروپیگنڈہ جنگ کا سوال ہے، وہ یوکرین میں شکست کھا رہا ہے۔ مغربی حملہ کے نظریے سے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا ہے۔ لیکن زمین پر اصلی لڑائی کچھ مختلف ہے۔ جیسا کہ پہلے اندازہ کیا گیا تھا، روس کی جنگ کی رفتار اتنی تیز نہیں ہے، لیکن وہ اپنے سبھی اہداف حاصل کرتا جا رہا ہے۔

راقم الحروف مارچ میں یوکرین میں تھا اور اسے ناٹو ممالک، خصوصاً پولینڈ اور امریکہ کے افسران، سفارت کاروں اور جاسوسوں سے ملنے کا موقع ملا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یوکرین کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ شروعاتی کچھ ملاقاتوں کے بعد یہ صاف ہو گیا کہ یوکرین کے جنرل کمانڈ کے پاس اسٹریٹجک فیصلے لینے کے لیے کچھ بھی نہیں اور تکنیکی معاملوں میں بھی ان کی بہت کم شراکت داری ہے۔ آپ یہ سمجھنے کی غلطی مت کیجیے کہ یہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ہے۔ زمین پر لڑائی کا معاملہ اگر چھوڑ دیا جائے تو ناٹو اپنی پوری طاقت کے ساتھ روس سے جنگ کر رہا ہے۔


حالات یہ ہیں کہ روسی مسلح افواج کے ’خصوصی فوجی آپریشنز‘ کے پہلے مرحلہ کے خاتمہ کے بعد ڈانباس علاقے سے باہر یوکرینی فورس محض بری افواج کی شکل میں ہے جو تباہ حال ہے۔ اگر آپ فوجی پالیسی جانتے ہیں، تو آپ سمجھ جائیں گے کہ کسی مسلح فورس کے ساتھ کیا جانے والا یہ انتہائی تباہناک حال ہے۔

یوکرین ٹینک اور ہتھیار بند گاڑیوں سمیت اپنی 85 فیصد کے قریب ہتھیار بند یونٹوں سے محروم ہو گئی ہے، لیکن یہ آئی ایف وی (بری فوج جنگی گاڑی) اور اے پی سی (جوانوں اور ہتھیاروں کو ڈھونے والی گاڑی) تک محدود نہیں ہیں۔ اس کی فضائیہ تباہ ہو گئی ہے اور بحریہ بھی۔ اس کے نقصان کا کم بھی اندازہ کریں تو جنگ کے دوران اس کے 20 ہزار فوجی مارے جا چکے ہیں جب کہ 18 ہزار سے زیادہ اس حد تک زخمی ہوئے ہیں کہ انھیں تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ شروع میں کچھ بھڑکیلی ویڈیوز ڈالی گئیں جن میں یوکرین کے کچھ فضائی دفاعی سامان اور ڈرون روسی فضائی ملکیتوں کو باہر بھگا رہے ہیں۔ یہ سامان اور ڈرون کافی حد تک تباہ کر دیئے گئے ہیں۔ 200 سے زائد کمانڈ اور کمیونکیشن سنٹر اور راڈار سنٹر بھی تباہ کیے جا چکے ہیں۔ چھوٹی رینج والی اور لمبی رینج والی، دونوں قسم کی کل 240 فضائی دفاعی گاڑیاں مٹی میں ملا دی گئی ہیں۔


اس کا مطلب ہے کہ یوکرینی فوج بھلے ہی بہت بہادری سے لڑ رہی ہو، کسی بھی قسم کا حملہ کر پانے میں اب اہل نہیں ہے۔ حملہ آور فورس کے طور پر اس کی طاقت ختم ہو چکی ہے۔ پھر بھی تین وجوہات سے یہ ٹکی ہوئی ہے۔ پہلی وجہ، اس کے 40 فیصد ملٹیپل لانچ راکیٹ سسٹم (ایم ایل آر ایس) اور توپ بند فورس اب بھی یوکرینی فوج کے پاس ہیں۔ انھیں اس نے آبادی کے درمیان تعینات کر رکھا ہے اور یکساں شہری نقصانات کے بغیر انھیں نکالنا روسیوں کے لیے ناممکن ہے۔ شروع سے ہی روسی مسلح افواج اپنے ایک ہاتھ پیچھے باندھ کر اس جنگ کو لڑ رہی ہیں اور یوکرین اس کا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

دوسری وجہ، ناٹو ممالک نے جتنی تعداد میں ہتھیار، خاص طور سے اینٹی ٹینک میزائل اور کندھے پر ڈھوئے جا سکنے والی زمین سے آسمان میں مار کرنے والی میزائل دستیاب کرائی ہیں، وہ بے حد خطرناک ہیں۔ یہ کسی بھی فوج کو ہندوستانی مسلح فورس کی طرح طاقتور بنا دینے کے لیے کافی ہیں، یوکرینی مسلح افواج کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے۔ تیسری وجہ، اس کے سیاسی طبقہ سے الگ، نیو-نازی ایجوو بٹالین، رائٹ سیکٹور وغیرہ سمیت یوکرینی مسلح افواج چھوٹی موٹی نہیں ہے۔ یہ بہت اچھے سے تربیت یافتہ،ہتھیاروں سے بہت اچھی طرح لیس، روسیوں سے بے پناہ نفرت کرنے والی ہے۔ اگر آپ اپنے علاقے سے موازنہ کرنا چاہیں تو یہ اسی طرح ہے جیسے ہند-پاک جنگ میں پاکستانی فوج ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یوکرینی فوج مٹی میں مل جائے گی لیکن خودسپردگی نہیں کرے گی۔


جب راقم الحروف یوکرین میں تھا، تب اس نے جو دیکھا اس سے حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کئی یونٹوں کے بحری فوجی اور نیو-نازی فوجی سمیت 20 ہزار یوکرینی فوجی ماریوپول میں پھنسے ہوئے تھے۔ انھیں نکالنے کے خیال سے نیکولیو کی طرف سے اس طرف چڑھائی کی گئی۔ لیکن یوکرینی فوج کو فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ ایئر کور یا بکتربند تعاون کے بغیر غیر محفوظ ایم ایل آر ایس اور توپچی یونٹوں پر منحصر حملہ تباہ ناک خیال ہے۔ یہ چار کلومیٹر سے آگے بڑھ ہی نہیں پایا۔

راجدھانی کیف کے باہری حصوں سے روسی فوج کی واپسی نے کئی فوجی ماہرین کو حیران کر دیا۔ کیف کے باہری علاقوں میں ہوئی زبردست جدوجہد کا راقم الحروف گواہ ہے۔ یہ بہت صاف تھا کہ اگر چالیس لاکھ میں سے نصف آبادی کو باہر بھی نکال دیا گیا ہو، تب بھی روسی فوج اتنی آبادی والے شہر پر قبضہ کرنے لائق ضروری فوجی لے کر نہیں آئے تھے۔ ابھی حالات یہ ہیں کہ یوکرینی فوج کے مقابلے روسی فوج کا تناسب 3:1 ہے۔ کیف کے پاس یہ 5:1 تھا۔ لیکن کیف کو نشانہ بنا کر اس نے مشرق اور جنوب میں یوکرین کے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔ بھلے ہی روسی فوج لوٹ گئی ہے، مشرق اور جنوب میں ایک حد کے بعد یوکرینی فوج اپنی دفاع کو اب بھی مضبوط نہیں کر سکتی۔ ایسا خصوصاً اس لیے ہے کہ ان کی کوئی بھی سرگرمی پکڑ لی جائے گی اور روسی فضائیہ اسے تباہ کر دے گی۔


اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ڈانباس علاقہ میں جنگ آسان ہوگی۔ یہ اچھے سے قلعہ بند ہے اور اس کی حفاظت ناٹو کے ذریعہ تربیت یافتہ بہترین یوکرینی فوج کر رہی ہے۔ یہاں شدید جنگ ہوگی اور کوئی بھی نتیجہ کئی ہفتے بعد ہی آ پائے گا۔ پہلے مرحلہ میں روس نے پرانے اور کئی مرتبہ بے کار اسلحے استعمال کیے۔ لیکن ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دوسرے مرحلہ میں ٹی-80یوای1 اور ٹی-80بی وی سمیت بالکل جدید ٹینکوں کی سیریز خرکیف کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں استعمال نہ کیے گئے کئی مزید جدید ہتھیار بھی اس کے ساتھ ہیں۔

ابھی جب یہ رپورٹ فائل کی جا رہی ہے، ٹی-80یوایس، ٹی-80یوای1، ٹی-80بی وی، بی ایم پی2ایس اور ہتھیار بند گاڑیوں کا 10 کلومیٹر طویل قافلہ ڈونباس محاذ پر جانے کے عمل میں ویلیکیوئی بُرلُک شہر سے گزر رہا ہے۔یعنی سلوویانسک اور باروِنکوف پر حملے ہونے ہی والے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔