افغانستان: روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک

روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا، جبکہ چین سے ایران تک کئی ممالک پہلے ہی طالبان سے رابطے میں ہیں۔ روس کے بعد دیگر ممالک بھی طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر سکتے ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

تصویر بشکریہ ایکس

user

مدیحہ فصیح

روس نے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا ہے جبکہ چین سے لے کر ایران تک کئی ممالک پہلے ہی طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ماہرین کی رائے میں وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے اگلے ممالک ہو سکتے ہیں۔ 2021 میں اس افغان گروپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے روس افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قبول کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے برسوں کے خاموش رابطوں کو آگے بڑھایا اور طالبان کے پہلے دور اقتدار کے دوران پائی جانے والی گہری دشمنی کے بر عکس اپنے تعلقات کو ایک ڈرامائی موڑ دیا ہے۔ حالانکہ چار سال قبل جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تھا تب سے کئی قومیں، جن میں سے کچھ تاریخی طور پر طالبان کو دشمن کے طور پر دیکھتی رہی ہیں، طالبان سے رابطہ میں ہیں لیکن ابھی تک کسی نے بھی طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ تو کیا روس کا یہ قدم دوسروں کے لیے بھی طالبان کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کی راہ ہموار کرے گا؟

روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ماسکو کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعاون کی راہ ہموار ہوگی۔ "ہم سمجھتے ہیں کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا عمل مختلف شعبوں میں ہمارے ممالک کے درمیان نتیجہ خیز دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔" وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور بنیادی ڈھانچے میں تعاون کی کوشش کرے گی۔ افغانستان کی وزارت خارجہ نے 3 جولائی کو ایک ’ایکس‘ پوسٹ میں لکھا کہ کابل میں روس کے سفیر دمتری ژیرنوف نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے روس کے فیصلے سے آگاہ کیا۔متقی نے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا: "ہم روس کے اس جرات مندانہ قدم کی قدر کرتے ہیں، اور انشاء اللہ یہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔"

روس اور افغانستان کی تاریخ

1979 میں سوویت یونین کی فوجوں نے کمیونسٹ حکومت قائم کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا۔ اس سے افغان مجاہدین جنگجوؤں کے ساتھ 10 سالہ جنگ شروع ہو گئی جسے امریکی افواج کی حمایت حاصل تھی۔ اس جنگ میں تقریباً 15 ہزار سوویت فوجی مارے گئے۔ 1992 میں، باغی گروپوں کی جانب سے کابل میں روسی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کے بعد، ماسکو نے افغانستان میں اپنا سفارتی مشن بند کر دیا۔ روس کے حمایت یافتہ سابق صدر، محمد نجیب اللہ، جو 1992 سے کابل میں اقوام متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ میں پناہ حاصل کئے ہوئے تھے، کو 1996 میں طالبان نے قتل کر دیا تھا، اور طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تھے۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں، روس نے افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں کی حمایت کی، جس میں سابق مجاہدین کمانڈر احمد شاہ مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد بھی شامل تھا۔

پھر، 11 ستمبر 2001 کو، القاعدہ سے وابستہ خودکش حملہ آوروں نے امریکہ کے مسافر طیاروں پر قبضہ کر لیا اور نیویارک شہر میں دو فلک بوس عمارتوں سے ٹکرا گئے، جس میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے نتیجہ میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" شروع کر دی۔ تب روسی صدر ولادیمیر پوتن ان اولین غیر ملکی رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے بش کو فون کیا اور ہمدردی کا اظہار کیا اور حمایت کا وعدہ کیا۔ پوتن نے امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے مدد فراہم کی۔ روس نے انٹیلی جنس کا اشتراک کرکے، امریکی پروازوں کے لیے روسی فضائی حدود کھولیں اور روس کے وسطی ایشیائی اتحادیوں کے ساتھ اڈے قائم کرنے اور امریکہ سے پروازوں کو فضائی حدود تک رسائی فراہم کرنے کے ذریعے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا۔ 2003 میں، امریکی قیادت والے اتحاد کے ذریعے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد، روس نے طالبان گروپ کو دہشت گرد قرار دیا۔ لیکن حالیہ برسوں میں، مسلح گروپ آئی ایس آئی ایس یا داعش کی ایک علاقائی شاخ خراسان کے عروج نے روس کی تشویش میں اضافہ کیا ہے اور اسے طالبان کے قریب کر دیا ہے۔ طالبان داعش کے خراسان گروپ کو حریف اور دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں۔


2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد، طالبان کے ساتھ روس کے تعلقات مزید ظاہر ہوئے ہیں۔ طالبان کے ایک وفد نے 2022 اور 2024 میں سینٹ پیٹرزبرگ میں روس کے فلیگ شپ اقتصادی فورم میں شرکت کی۔ داعش خراسان گروپ نے مارچ 2024 میں ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال پر حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں 149 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس گروپ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے ساتھ روس صرف طالبان کے قریب ہوا ہے۔ جولائی 2024 میں روسی صدر پوتن نے طالبان کو "دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی" قرار دیا۔ امیر خان متقی نے اکتوبر 2024 میں ماسکو میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔ اپریل 2025 میں، روس نے طالبان کو"دہشت گرد" سے ہٹا دیا۔ لاوروف نے اس وقت کہا تھا کہ کابل میں نئے حکام ایک حقیقت ہیں،اور ماسکو کو طالبان کے حوالے سے عملی پالیسی اپنانی چاہیے۔

عالمی برادری اور طالبان

دوسری جانب، عالمی برادری طالبان کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتی۔ اقوام متحدہ افغان انتظامیہ کو "طالبان ڈی فیکٹو اتھارٹیز" سے تعبیر کرتا ہے۔ طالبان کو سرکاری طور پر افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہ کرنے کے باوجود، کئی ممالک نے حال ہی میں ان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔

امریکہ کے افغانستان سے انخلاء سے پہلے ہی، چین طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کر رہا تھا، 2019 میں چین نے امن مذاکرات کے لیے اس کے رہنماؤں کی میزبانی کی۔ لیکن گروپ کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد تعلقات میں مزید اضافہ ہوا ہے، بشمول بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے۔ 2023 میں، چائنا نیشنل پیٹرولیم کمپنی کے ذیلی ادارے نے طالبان کے ساتھ آمو دریا کے طاس سے تیل نکالنے کے لیے 25 سالہ معاہدے پر دستخط کیے، جو وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد یہ پہلی بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔2024 میں، بیجنگ نے ایک سرکاری تقریب کے دوران طالبان کے سابق ترجمان بلال کریم کو چین کے لیے سرکاری ایلچی کے طور پر تسلیم کیا، حالانکہ چین نے واضح کیا تھا کہ وہ خود طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کر رہا ہے۔ اور اس سال مئی میں چین نے پاکستان اور طالبان کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی کانفرنس کی میزبانی کی۔

پاکستان کبھی طالبان کا بین الاقوامی معاون تھا، لیکن 2021 سے ان کے تعلقات نمایاں طور پر خراب ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد اب طالبان کی حکومت پر افغان سرزمین پر مسلح گروہوں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دینے اور پاکستان کو نشانہ بنانے کی اجازت دینے کا الزام لگاتا ہے۔ ٹی ٹی پی، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر متحرک ہے، اور حالیہ برسوں میں پاکستان میں ہونے والے بہت سے مہلک حملوں کے لیے اس گروہ کو ذمہ دار مانتا ہے۔ لیکن طالبان نے پاکستان کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔


دسمبر 2024 میں، پاکستانی فوج نے افغانستان کے صوبہ پکتیا میں فضائی حملے کیے اور کہا کہ اس نے ان مقامات کو نشانہ بنایا جہاں ٹی ٹی پی نے پناہ حاصل کی تھی۔ لیکن طالبان حکومت نے کہا کہ پاکستان کے فضائی حملوں میں 46 افغان شہری مارے گئے۔ اس سال، پاکستان نے افغان مہاجرین کی ملک بدری میں بھی اضافہ کیا ہے اور کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس سال تیس لاکھ افغان باشندے ملک چھوڑدیں ۔ مسلح گروہوں کے حوالے سےپاکستان افغانستان کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔ 4 جولائی کو پاکستانی فوج نے کہا کہ اس نے 30 جنگجوؤں کو ہلاک کیا جنہوں نے افغانستان سے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی تھی، ہلاک ہونے والوں کا تعلق ٹی ٹی پی یا اس سے وابستہ تنظیموں سے تھا۔ اس سب کے باوجود، اس سال اپریل میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نےافغانستان کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کو سنبھالنے کی کوشش میں امیر خان متقی اور دیگر افغان حکام سے کابل میں ملاقاتیں کی ہیں ۔ ڈار اور متقی نے مئی میں بھی دوبارہ بات کی تھی۔

ہندوستان نے 1996 میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ نئی دہلی نے اس گروپ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جسے وہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پراکسی کے طور پر دیکھتا تھا۔ 2001 میں طالبان کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد نئی دہلی نے کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا۔ لیکن اس کے بعد کے سالوں میں طالبان اور حقانی گروپ سمیت اس کے اتحادیوں کی جانب سے سفارت خانے اور ہندوستان کے قونصل خانے بار بار حملوں کی زد میں آئے۔ اس کے باوجود 2021 میں طالبان کی کابل واپسی کے بعد، اور پاکستان اور طالبان کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان، ہندوستان کا نقطہ نظر بدل گیا ہے۔ اس نے اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا، جو 2021 میں عارضی طور پر بند کر دیا تھا، اور سفارت کاروں کو طالبان حکام سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ پھر، جنوری 2025 میں، سیکرٹری خارجہ وکرم مصری امیر خان متقی سے ملاقات کے لیے دبئی گئے۔اور مئی میں، ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے متقی سے فون پر بات کی۔

روس اور ہندوستان کی طرح، ایران نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں طالبان کو دشمنی کی نظر سے دیکھا۔ 1998 میں، طالبان نے مزار شریف میں ایرانی سفارت کاروں کو قتل کر دیا، جس سے تعلقات کو مزید نقصان پہنچا۔ لیکن ایران بھی داعش خراسان کو ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ طالبان کی کابل واپسی کے بعد سے، اور اس سے پہلے بھی، تہران طالبان کے ساتھ مشغول رہا ہے۔ 17 مئی کو متقی نے تہران ڈائیلاگ فورم میں شرکت کے لیے ایران کا دورہ کیااور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور صدر مسعود پیزشکیان سے بھی ملاقات کی۔

روس کے بعد کیا دوسرے ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کریں گے؟ اس کے جواب میں نئی دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر کبیر تنیجا نے الجزیرہ کو بتایا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ وہ اسٹریٹجک اور سیکورٹی دونوں مقاصد کے لیے طالبان کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ یہ زیادہ تر کا انتخاب نہیں بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ طالبان کم از کم آنے والے کچھ عرصے کے لیے افغانستان میں قابض رہیں گے۔ ان کے مطابق، روس کی جانب سے طالبان کو تسلیم کرنے کے بعد جو دیگر ممالک اس کی پیروی کر سکتے ہیں ان میں وسطی ایشیا کے کچھ ممالک کے ساتھ ساتھ چین بھی شامل ہے۔ روس کی طرف سے طالبان کو تسلیم کرنا ایک جغرافیائی سیاسی کھیل ہے جو کابل میں ماسکو کی پوزیشن کو مستحکم کرتا ہے لیکن خود طالبان کے لیے یہ ایک بڑی جیت ہے کیونکہ بین الاقوامی شناخت حاصل کرنا ان کا بنیادی مقصد رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔