بنارسی ساڑی کا بحران: بُنکروں پر قرض اور بے روزگاری کے بعد اب امریکی ٹیرف کا وار

بنارسی ساڑی تیار کرنے والے بنکار آرڈر نہ ملنے، بجلی مہنگی ہونے اور روزگار میں گراوٹ سے پریشان ہیں۔ امریکی ٹیرف نے اس صنعت کو مزید بحران سے دو چار کر دیا ہے اور اب یہ بقا کی جنگ لڑ رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>
i
user

پون کمار موریہ

وزیرِ اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقے وارانسی (بنارس) کی ہاتھ سے بنی ریشمی بنارسی ساڑیوں نے اس شہر کو ملک اور بیرونِ ملک میں ایک الگ پہچان دی ہے لیکن حالیہ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کیے گئے ٹیرف نے یہاں کے بُنکروں کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

مشرقی اتر پردیش کے اس شہر میں بنارسی ساڑی کا مرکز کہے جانے والے بجرڈیہا، لوہتا، پیلی کوٹھی، شیوالہ جیسے کئی علاقے گزشتہ ایک دہائی سے نہ صرف اپنی پہچان بلکہ بُنکاری کے ہنر کو بچانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ اب امریکی ٹیرف نے ہندوستانی کپڑا صنعت کے لیے ایک سنگین مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ پالیسی براہِ راست بنارس اور پوروانچل کی بُنکر بستیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے، جہاں پہلے سے ہی تعلیم، سہولت، صاف پانی، صفائی، علاج اور روزگار کا بحران موجود ہے۔

امریکی ٹیرف کے اعلان کے کچھ ہی دنوں میں بنارسی ساڑی (ریشم) کے برآمد کنندگان کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ لاکھوں کے آرڈر التوا میں چلے گئے ہیں۔ اس کا براہِ راست اثر اس صنعت سے وابستہ لاکھوں بُنکروں کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔

ایسٹرن یوپی ایکسپورٹ ایسوسی ایشن (یوپیا) کے خزانچی راجیش کُشواہا کے مطابق بنارس سے ہر سال تقریباً 600 کروڑ روپے کی بنارسی ساڑیاں اور دیگر ریشمی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں، جن میں سے تقریباً 35 فیصد صرف امریکہ کو بھیجی جاتی ہیں۔

حکومتی رپورٹ کے مطابق، وارانسی میں تقریباً 10 لاکھ سے زائد افراد براہِ راست یا بالواسطہ بنارسی ساڑی صنعت سے وابستہ ہیں۔ بُنکر محمد شعیب بتاتے ہیں کہ پہلے کی طرح اب بُنکاری میں کام باقی نہیں رہا۔ پہلے مہینے کے 30 دن کام ملتا تھا، اب صرف ہفتے میں 3 یا 4 دن ہی کام دستیاب ہوتا ہے۔ آمدنی کم ہو گئی ہے۔ کسی طرح سے گھر کا گزارہ ہو رہا ہے۔ مزدوری میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ماہانہ 9 سے 10 ہزار روپے کی آمدنی میں گھر کا خرچ، بچوں کی فیس، دوا دارو اور دیگر ضروریات مشکل سے پوری ہو رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیرف کی وجہ سے سامان فروخت نہیں ہو رہا۔


بُنکر انیس الرحمٰن کے مطابق، ایک تو وقت پر مزدوری نہیں ملتی، جو ملتی ہے وہ مہنگائی کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے بھائی گلزار احمد اور ممتاز احمد کئی سال قبل سورت چلے گئے، جہاں رنگائی اور ساڑی کی پیکنگ کا کام کرتے ہیں۔ ٹیرف کے اعلان کے بعد سے وہاں بھی کام مزید کم ہو گیا ہے۔

بنارسی ساڑی کے برآمد کنندہ شفیع الرحمٰن کا گودام تیار شدہ ساڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی ٹیرف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے دس سال سے بُنکاری کا کاروبار پہلے ہی گھاٹے میں جا رہا ہے۔ کووڈ-19 کی وبا کے بعد کسی طرح صنعت سنبھلی لیکن اب نئی مشکلات نے بُنکروں کو اپنے خاندان کی بقا کے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔

برآمد کنندہ سید حسن کے مطابق، بنارس، مئو، مرزاپور اور بھدوہی میں تیار ہونے والی ساڑیاں اور بُنکر مصنوعات امریکہ میں بہت پسند کی جاتی ہیں، اس لیے وہاں ان کی مانگ زیادہ رہتی ہے۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ بنارسی ساڑیاں مخصوص آرڈرز کے مطابق خاص ڈیزائن، دھاگے، کپڑے اور سائز میں تیار کی جاتی ہیں۔ اچانک بڑھے ٹیرف کی وجہ سے یہ آرڈرز فی الحال رُک گئے ہیں۔ اس دوران ہاتھ کے کھڈوں اور بُنائی کے کارخانوں میں تیار شدہ آرڈر اب فروخت نہیں ہو پا رہے۔ انہیں کھلے بازار میں کم قیمت پر فروخت کرنا پڑے گا، جس سے بڑا نقصان طے ہے۔

بُنکر وسیم احمد کے مطابق، شادی بیاہ، اسکول فیس، بیماری اور موت جیسے مواقع پر قرض لینا غریب بُنکروں کی مجبوری بن چکی ہے۔ اتر پردیش میں بُنکر بجلی کے بڑھتے بل سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کے نئے نرخوں نے اس صنعت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاورلوم پر کام کرنے والے بُنکر معین الدین کہتے ہیں کہ میں جتنا کماتا ہوں، اس سے زیادہ بجلی کا بل دینا پڑتا ہے۔ جب کام نہیں ہوتا، تب بھی بجلی کا بل دینا پڑتا ہے۔ ایک دہائی قبل بجلی کا بل فی مشین 72 روپے تھا، جو اب بڑھ کر 430 روپے ہو چکا ہے۔


نثار احمد نے کچھ سال قبل 1.25 لاکھ روپے لگا کر اپنا پاورلوم شروع کیا تھا تاکہ خاندان کو آگے بڑھا سکیں لیکن بجلی مہنگی ہونے اور گھاٹا ہونے پر انہوں نے مشین محض 60 ہزار روپے میں کباڑ کو بیچ دی۔ اب وہ دوسروں کے پاورلوم پر مزدوری کرتے ہیں۔ نثار بتاتے ہیں کہ بنارس کے بُنکروں کی حالت مسلسل بگڑتی جا رہی ہے۔ ٹیرف نافذ ہونے کے بعد گدی دار بھی کام دینے میں ہچکچانے لگے ہیں۔ پہلے کیے گئے کام کی مزدوری بھی ادا نہیں کی جا رہی۔

بنارس پاورلوم ویورز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عتیق انصاری کے مطابق، گزشتہ ایک دہائی میں برآمدی پالیسیوں کی کمزوریوں نے بنارسی ساڑی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ابتدا میں ایک پاورلوم کی بجلی کا نرخ 72 روپے تھا، جو اب بڑھ کر 1500 روپے تک جا پہنچا ہے۔

امر یش کشواہا، جو رام نگر میں بنارسی ساڑی بُنائی مرکز چلاتے ہیں اور خود بھی کاروباری ہیں، کہتے ہیں کہ امریکی ٹیرف کے باعث بنارسی ساڑیاں مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ ایسے میں خریدار کم ہوں گے، ڈیمانڈ کم ہوگی اور پیداوار بھی گھٹے گی۔ اس کا اثر صرف کاریگروں پر نہیں بلکہ بُنکروں، رنگائی کرنے والوں، تانا بانہ تیار کرنے والوں، سب پر پڑے گا۔ یوں بنارس کی بُنکاری صنعت میں کساد بازاری بڑھے گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔

بی جے پی کے ایم ایل سی اور بنارسی ساڑی کپڑا صنعت یونین کے سرپرست اشوک دھون کہتے ہیں کہ بُنکروں کے پاس کام نہیں ہے اور ساڑی کے تاجروں کے پاس گاہک نہیں بچے۔ بنارس آنے والے سیاحوں میں سے 10 فیصد بھی بنارسی ساڑیوں میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اس وجہ سے بنارسی ساڑی کا کاروبار ایک بار پھر بدحالی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات کا بدلنا بہت ضروری ہے کیونکہ نہ تو بُنکروں کی نقل مکانی رُک رہی ہے، نہ ہی نئی نسل اس پیشے کی طرف آ رہی ہے۔


ہاتھ سے بننے والی ساڑیوں کی طرف نوجوان بُنکر نہیں آنا چاہتے۔ وہ کم وقت میں زیادہ کمانے کی خاطر پاورلوم کا رخ کر رہے ہیں اور یوں ہاتھ سے بننے والی ساڑیاں اور کھڈیاں بند ہوتی جا رہی ہیں۔ انہیں واپس لانا ضروری ہے۔

اشوک دھون کے مطابق، بُنکروں کی حالت واقعی خراب ہے۔ روزانہ کھڈی پر کام کرنے والے بُنکر اچھے پیسے کمانے کے باوجود بنارس چھوڑ کر دوسرے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تعداد بہت بڑی ہے۔ بُنکر سورت اور دوسرے شہروں جا کر وہاں کام کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ سورت کی ساڑیاں آج بھی بنارس کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں اور جی آئی ٹیگ ہونے کے باوجود بنارسی ساڑی کے نام پر دوسری جگہ کی ساڑیاں تیزی سے فروخت ہو رہی ہیں۔ بنارسی ساڑیاں پیچھے رہ جا رہی ہیں۔

(مضمون نگار پون کمار موریہ آزاد صحافی ہیں۔ ترمیم شدہ ماخذ: انڈیا اسپینڈ ہندی ڈاٹ کام)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔