کرناٹک: ریزرویشن کوٹہ میں پھیر بدل سے وبال، یدی یورپا کے گھر پر پتھراؤ، 101 ذیلی ذاتوں میں بی جے پی کے خلاف غصہ

کرناٹک حکومت نے 6 فیصد ایس سی (لیفٹ سَب سیکٹ) کو، 5.5 فیصد ایس سی (رائٹ سَب سیکٹ کو)، 4.5 فیصد بنجارا، بھووی، کوراچا، کوراما جیسی ذاتوں کو اور 1 فیصد الیمارس یعنی بنجاروں کو دینے کا انتظام کیا۔

یدی یورپا، تصویر آئی اے این ایس
یدی یورپا، تصویر آئی اے این ایس
user

ناہید عطا اللہ

کرناٹک میں ریزرویشن کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی نے جس طرح ریاست کی ریزرویشن پالیسی میں پھیر بدل کی ہے اور درج فہرست ذاتوں میں داخلی ریزرویشن کوٹے کو سیاسی طور پر اثردار لنگایت اور ووکالیگا طبقات کے لیے بڑھایا ہے اس سے وبال پیدا ہو گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، بی جے پی حکومت نے مسلم طبقہ کو ریاست کے پسماندہ طبقہ سے ہٹا کر معاشی طور سے کمزور طبقہ میں شامل کر دیا ہے۔

ان تبدیلیوں کو لے کر پیر کے روز ریاست کے کئی حصوں میں پرتشدد ہنگامہ دیکھنے کو ملا۔ اس پورے معاملے میں نشانے پر بی جے پی کے مضبوط مانے جانے والے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا ہیں۔ بی جے پی حکومت کے ذریعہ ریزرویشن پالیسی میں پھیر بدل کی سب سے زیادہ مخالفت بنجارا یا لمبانی طبقہ کر رہی ہے۔ اس طبقہ نے شیوموگا ضلع میں یدی یورپا کے انتخابی حلقہ شکاری پورہ میں احتجاجی مارچ نکالا اور ان کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا۔


مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ یا تو یدی یورپا خود یا پھر ان کا بیٹا رکن پارلیمنٹ بی وائی راگھویندر آ کر ان سے عرضداشت لیں۔ اسی کو لے کر ماحول کافی کشیدہ ہو گیا اور پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دیا۔ مظاہرہ کرنے والوں میں بنجارا-لمبانی طبقہ کے ساتھ ہی بھووی، کوراچھا اور کوراما طبقہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ یہ سبھی کرناٹک کی درج فہرست ذاتوں کی جنرل ریزرویشن لسٹ میں ہیں۔

دراصل کرناٹک کابینہ نے 24 مارچ کو درج فہرست ذاتوں کو دیئے جانے والے 14 فیصد ریزرویشن میں تبدیلی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے تحت مجموعی طور پر 17 فیصد ریزرویشن میں سے 6 فیصد ایس سی (لیفٹ سَب سیکٹ) کو، 5.5 فیصد ایس سی (رائٹ سَب سیکٹ کو)، 4.5 فیصد بنجارا، بھووی، کوراچا، کوراما جیسی ذاتوں کو اور 1 فیصد الیمارس یعنی بنجاروں کو دینے کا انتظام کیا۔


اس سے پہلے گزشتہ سال یعنی 2022 کے دسمبر میں کرناٹک اسمبلی نے تعلیمی اداروں میں سیٹوں اور تقرریوں و عہدوں میں ریزرویشن دینے والا بل پاس کیا تھا۔ اس کے تحت درج فہرست ذاتوں کا کوٹہ 15 سے بڑھا کر 17 فیصد اور درج فہرست قبائل کا کوٹہ 3 سے بڑھا کر 7 فیصد کر دیا گیا تھا۔

اسی ضمن میں ریزرویشن پر وزیر قانون جے سی مدھو سوامی کی صدارت میں بنی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کو جسٹس اے جی سداشیو کمیشن کی 2012 کی رپورٹ کا مطالعہ کر حکومت کو اپنی سفارشات دینی تھی۔ سداشیو کمیشن نے ہی درج فہرست ذاتوں میں داخلی طور پر لیفٹ، رائٹ، ٹچیبل اور دیگر کی تقسیم کی تھی۔ ریزرویشن میں داخلی کوٹہ میں پھیر بدل اسی ذیلی کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔


سابق سدارمیا حکومت پر اس رپورٹ کو نافذ نہیں کرنے کے الزام لگتے تھے۔ سدارمیا 2013 سے 2018 تک کرناٹک کے وزیر اعلیٰ تھے۔ رپورٹ نافذ نہیں ہونے سے لیفٹ سَب سیکٹ ناراض ہوا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ ریزرویشن کا فائدہ صرف سیاسی اور معاشی طور سے اثردار ذیلی ذاتوں کو ہی دیا جا رہا ہے۔

کرناٹک کی ریزرویشن پالیسی میں رد و بدل کو لے کر کانگریس اور جے ڈی ایس دونوں نے بسوراج بومئی حکومت کی تنقید کی ہے۔ کانگریس رکن اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں پارٹی کے چیف وہپ پرکاش راٹھوڑ کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت اس پھیر بدل کے ذریعہ ریزرویشن پالیسی کو کمزور کر رہی ہے تاکہ ریاست کی 101 ذیلی ذاتوں میں یکسر جنگ شروع ہو جائے۔ راٹھوڑ خود لمبانی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’بی جے پی حکومت لمبانی یا بنجارا طبقہ کو درج فہرست ذات کے کوٹے سے باہر کرنا چاہتی ہے، جبکہ ریاست میں اس طبقہ کی آبادی 40 لاکھ کے آس پاس ہے۔‘‘


اس درمیان بومئی حکومت کے ذریعہ ریزرویشن پالیسی میں تبدیلی کو لے کر مسلم طبقہ میں بھی زبردست ناراضگی ہے۔ حکومت نے مسلم طبقہ کے لیے ریزرو او بی سی کی 2 بی کیٹگری کے 4 فیصد کوٹے کو ختم کر دی ہے اور اس طبقہ کو معاشی طور سے کمزور طبقہ میں شامل کر دیا ہے۔ ای ڈبلیو ایس کیٹگری کے لیے مجموعی طور پر 10 فیصد کوٹہ مقرر ہے اور اس میں پہلے سے ہی اعلیٰ ذاتوں سمیت تمام ذاتیں شامل ہیں۔ مسلمانوں کے لیے طے 4 فیصد کوٹہ کو لنگایت اور ووکالیگا طبقہ میں برابر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ لنگایت کے لیے 7 فیصد اور ووکالیگا کے لیے داخلی طور پر 7 اور 6 فیصد کوٹہ مقرر ہے۔

مسلم طبقہ کو ای ڈبلیو ایس میں شامل کیے جانے پر کانگریس لیڈر اور راجیہ سبھا کے سابق ڈپٹی چیئرمین کے. رحمن خان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو او بی سی سے باہر نکالنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ای ڈبلیو ایس میں شامل کیے جانے کے بعد پہلے سے ہی معاشی، تعلیمی اور سماجی طور پر پسماندہ مسلم طبقہ کا مقابلہ اب برہمن جیسی اعلیٰ ذاتوں سے ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ لنگایت اور ووکالیگا تو کرناٹک کی اعلیٰ ذاتوں میں شمار ہیں، جنھیں پسماندہ طبقہ کا تمغہ دینے کی اب ضرورت نہیں ہے۔


سوال یہ ہے کہ آخر کرناٹک میں کس نے دیا تھا مسلمانوں کو 4 فیصد ریزرویشن؟ اسی کو لے کر طرح طرح کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ جے ڈی ایس کا دعویٰ ہے کہ یہ کام ایچ ڈی دیوگوڑا نے کیا تھا جو 1994 سے 1996 تک کرناٹک کے وزیر اعلیٰ تھے۔ دوسری طرف کانگریس کا دعویٰ ہے کہ یہ کام ایم ویرپا موئلی حکومت کے دوران 1993 میں ہوا تھا۔

ویرپا موئلی کہتے ہیں کہ انھوں نے مسلم طبقہ کو 4 فیصد ریزرویشن سماجی-معاشی بنیاد پر حالات کا جائزہ لینے کے لیے کیے گئے سروے کے بعد دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ شروع میں مسلم طبقہ کو 6 فیصد ریزرویشن دیا گیا تھا جسے بعد میں گھٹا کر 4 فیصد کر دیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔