علی سردار جعفری: فکر و فن کی سرحدوں کو جوڑنے والی ایک انوکھی آواز...برسی کے موقع پر

یکم اگست کو اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور مفکر علی سردار جعفری کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری، انقلابی نظریات اور ادبی خدمات آج بھی نئی نسل کو متاثر اور بیدار کرنے کا کام کر رہی ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سبرنگ انڈیا ڈاٹ اِن</p></div>

تصویر بشکریہ سبرنگ انڈیا ڈاٹ اِن

user

قومی آواز بیورو

علی سردار جعفری اردو ادب کی ان شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری، فکر اور عملی جدوجہد سے ایک نسل کو متاثر کیا۔ ان کا شمار ان ترقی پسند ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سماج کے کمزور طبقات کی آواز بن کر ظلم و ناانصافی کے خلاف قلم اٹھایا۔

ہر سال یکم اگست کو ان کی برسی کے موقع پر ملک بھر کے ادبی حلقے، فنکار اور دانشور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں رومانیت کی لطیف خوشبو ہے، وہیں مزاحمت کا آہنگ بھی سنائی دیتا ہے۔ ان کی ایک مشہور نظم کا شعر ’اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا، چمن کے پھول دلوں کے کنول کھلاتا جا‘ ان کی خوش بین سوچ اور انسان دوستی کی عکاسی کرتا ہے۔

علی سردار جعفری 29 نومبر 1913 کو اتر پردیش کے ضلع گونڈہ کے علاقے بلرام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے اجداد ایران کے شہر شیراز سے ہندوستان آئے تھے۔ ان کا تعلق ایک شیعہ گھرانے سے تھا، جہاں محرم الحرام انتہائی عقیدت کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ ان کے بقول، ’کلمہ اور تکبیر کے بعد جو پہلی آواز میرے کانوں نے سنی، وہ میر انیس کے مرثیے تھے۔‘ یہی سبب ہے کہ محض پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے مرثیہ نگاری شروع کر دی تھی۔

ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، بعد ازاں انگریزی اسکول میں داخلہ لیا، مگر تعلیم میں دلچسپی نہ ہونے کے سبب کئی برس ضائع ہو گئے۔ 1933 میں انہوں نے ہائی اسکول مکمل کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھیجے گئے۔ وہاں 1936 میں طلبہ تحریک میں حصہ لینے کے باعث انہیں نکال دیا گیا مگر بعد میں اسی جامعہ نے انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی۔


پھر وہ دہلی آئے اور اینگلو عربی کالج سے بی اے مکمل کیا۔ بعد ازاں لکھنؤ یونیورسٹی میں ایل ایل بی اور پھر انگریزی میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ ان دنوں لکھنؤ سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا، جہاں سجاد ظہیر، سبت حسن، اسرار الحق مجاز اور ڈاکٹر عبدالعلیم جیسے لوگ فعال تھے۔ سردار جعفری نے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر انقلابی تحریکوں میں حصہ لیا، جس کے نتیجے میں 1940 میں گرفتار ہو کر آٹھ ماہ تک جیل میں رہے۔

اسی دور میں انہوں نے مجاز اور سبت حسن کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’نیا ادب‘ اور ہفت روزہ اخبار ’پرچم‘ جاری کیا۔ 1942 میں جب کمیونسٹ پارٹی پر سے پابندی ہٹی اور اس کا مرکز بمبئی بن گیا، تو سردار جعفری بھی بمبئی چلے گئے اور پارٹی کے ترجمان ’قومی جنگ‘ کی ادارت سے وابستہ ہو گئے۔ 1948 میں انہوں نے پارٹی کی فعال رکن سلطانہ منہاج سے شادی کی۔

اگرچہ بعد میں وہ پارٹی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے لیکن صحافت، ادب اور نظریاتی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے ترقی پسند مصنفین کی سہ ماہی ’گفتگو‘ کی ادارت کی، جو 1965 تک شائع ہوتی رہی۔ وہ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر، ترقی پسند مصنفین کے صدر اور نیشنل بک ٹرسٹ کے رکن سمیت کئی اہم اداروں سے وابستہ رہے۔

انہوں نے محمد اقبال، سنت کبیر، تحریک آزادی ہند اور اردو کے ممتاز شعرا پر کئی دستاویزی فلمیں بنائیں۔ دیوان غالب اور میر کی غزلوں کا خوب صورت انتخاب اردو اور دیوناگری رسم الخط میں شائع کیا۔ ان کی شاعری کے ترجمے دنیا کی کئی زبانوں میں ہوئے اور ان پر تحقیقی کام بھی کیا گیا۔


علی سردار جعفری کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، سویت لینڈ نہرو ایوارڈ، گیان پیٹھ اعزاز اور حکومت ہند کی جانب سے پدم شری سے نوازا گیا۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں وہ مسلسل علیل رہے اور بالآخر یکم اگست 2000 کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔

ان کا ادبی اور فکری سرمایہ آج بھی نئی نسل کو انصاف، امن، انسانیت اور ترقی کے خواب دکھاتا ہے۔ علی سردار جعفری ایک ایسا روشن چراغ تھے، جس کی روشنی وقت کی دھند میں آج بھی امید کی کرن بن کر چمکتی ہے۔