فلسطین کو تسلیم کرنا کافی نہیں، عملی اقدامات ناگزیر...اشوک سوین
فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کا فلسطین کو تسلیم کرنا اہم ہے مگر بغیر عملی اقدامات کے یہ محض علامتی رہے گا، کیونکہ زمینی تبدیلی کے لیے پابندیاں، اسلحہ کی فروخت پر کنٹرول اور سول سوسائٹی کی حمایت ضروری ہے

دہائیوں سے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ایک سفارتی علامت کی حیثیت رکھتا آیا ہے۔ عموماً عالمی جنوب کے ممالک اس کے حامی رہے ہیں، جبکہ مغربی طاقتیں اس سے گریز کرتی رہی ہیں۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں۔ فرانس، کینیڈا اور برطانیہ نے اگلے ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو باضابطہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جی-7 کے ان تین ممالک نے دنیا کی سب سے پیچیدہ سفارتی تنازعات میں سے ایک پر اپنا مؤقف یکسر بدل دیا ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ان میں سے دو ممالک سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ہیں۔ یہ پیش رفت مغربی اتحاد میں اس دراڑ کا بھی اشارہ دیتی ہے، جو برسوں سے اسرائیل کو فلسطینی حقوق اور خود ارادیت کی قیمت پر سفارتی، اقتصادی اور عسکری مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ تاہم ایک سنجیدہ سوال باقی ہے- کیا اس سے زمینی صورتحال میں کوئی حقیقی تبدیلی آئے گی؟
یہ سفارتی تبدیلی محض اتفاق نہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی ظالمانہ فوجی کارروائی میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ بھوک کا شکار ہیں اور امدادی سامان کے لیے جمع ہونے والے ہجوم کو نشانہ بنانے پر بین الاقوامی غم و غصہ بڑھ چکا ہے۔ غزہ قحط کے دہانے پر ہے اور اسرائیلی محاصرے نے انسانی راہداریوں کو ’قتل گاہ‘ میں بدل دیا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے غزہ میں مظالم کی دستاویزات تیار کرنے کے بعد، حتیٰ کہ ان مغربی دارالحکومتوں میں بھی جہاں اسرائیل کے لیے ہمدردی رہی ہے، اس کا حمایتی تاثر کمزور ہوا ہے۔
اس حساس معاملے پر ہمیشہ محتاط رہنے والے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون پہلے بڑے مغربی رہنما تھے جنہوں نے کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے اسرائیلی فوجی کارروائی کو اخلاقی اور تزویراتی ناکامی قرار دیا۔ برطانیہ اور کینیڈا نے بھی ملتے جلتے اعلانات کیے لیکن کچھ شرائط کے ساتھ، جیسے حماس کو الگ رکھ کر فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی ضرورت۔
یہ تبدیلی اہم ہے کیونکہ پہلی بار اثر و رسوخ رکھنے والے مغربی ممالک، کم از کم بیانیے کی سطح پر ہی سہی، بین الاقوامی برادری کی اکثریت کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر فرانس کا موقف قابل ذکر ہے کیونکہ وہ امریکہ سے الگ راستہ اختیار کر رہا ہے اور ایک ایسے معاملے پر یورپ کے لیے جگہ بنا رہا ہے جہاں عرصے سے واشنگٹن کا ویٹو غالب رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی دھمکیوں کے باوجود کینیڈا کا اعلان اس بات کی علامت ہے کہ وہ امریکہ کی پالیسی کا اندھا پیروکار نہیں رہا۔ اگر یہ تینوں ممالک ستمبر میں اپنے مؤقف پر قائم رہے تو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں سے چار فلسطین کو تسلیم کر چکے ہوں گے، اور امریکہ تنہا رہ جائے گا۔
تاہم، اس علامتی تبدیلی کو عملی تبدیلی سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ تسلیم کرنا آزادی نہیں۔ تینوں میں سے کسی نے بھی اسرائیلی قبضے اور فوجی جارحیت کے سنگین نتائج پر سنجیدگی سے بات نہیں کی۔ ان اعلانات کے ساتھ نہ تو کوئی پابندی، نہ اسلحہ کی ترسیل روکنے کا اقدام اور نہ ہی کوئی مضبوط سفارتی بائیکاٹ شامل ہے جو اسرائیل پر اپنا رویہ بدلنے کے لیے حقیقی دباؤ ڈال سکتا ہو۔ برطانیہ اور کینیڈا نے تسلیم کو ایسی شرائط سے جوڑا ہے جو اس کے اثر کو محدود کر دیں گی۔ مثال کے طور پر کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطین کا غیر عسکری ہونا ضروری ہے، حماس کو الگ رکھ کر انتخابات ہوں اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کرے۔ بظاہر یہ مطالبات غیر منطقی نہیں لیکن عملی طور پر یہ فلسطین کو اسرائیلی جارحیت اور ممکنہ تقسیم دونوں کا یرغمال بنا سکتے ہیں۔
اس کے برعکس، اسرائیلی انتہا پسند وزراء، جو کھلم کھلا مغربی کنارے اور غزہ پر قبضے کی وکالت کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، سے کبھی جمہوری اصلاحات کا تقاضا نہیں کیا جاتا۔ اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی، جسے بین الاقوامی قانون میں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، محض افسوسناک رکاوٹ کے طور پر دیکھی جاتی ہے، کسی معاہدے کو توڑنے والی حرکت کے طور پر نہیں۔ دوسری طرف، فلسطینیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری کے لیے ’تیاری‘ ثابت کریں، جبکہ اسرائیلی حکومت انہیں بطور قوم وجود کے بنیادی حق سے محروم رکھتی ہے۔ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا اسے ’دو ریاستی حل‘ کو بحال کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی مدد سے اس کا ڈھانچہ بہت پہلے تباہ کر دیا ہے۔
ان اعلانات کے پس منظر میں داخلی سیاست بھی اہم ہے۔ میکرون کا قدم فرانس میں بائیں بازو اور مسلم برادری کے بڑھتے احتجاج کے دوران آیا ہے۔ کینیڈا میں وزیراعظم کارنی عرب آبادی اور سابق سفارتکاروں کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں اسٹارمر حکومت کو غزہ پر مغرب کی پالیسی سے مایوس ووٹروں کو مطمئن کرنا ہے۔ لہٰذا فلسطین کو تسلیم کرنے کے پیچھے خیرسگالی سے زیادہ جغرافیائی سیاست اور داخلی دباؤ کارفرما ہیں۔ یہ تیزی سے بدلتی عالمی سیاست میں مغرب کی ساکھ بچانے کی کوشش بھی ہے، جہاں انسانی حقوق پر اخلاقی برتری کا دعویٰ اب چیلنج سے خالی نہیں رہا۔
اپنی حدود کے باوجود یہ تسلیمات اثر ڈال سکتی ہیں۔ یہ مغربی بیانیے میں اسرائیلی اجارہ داری کو کمزور کر سکتی ہیں، فلسطینی تحریک میں اعتدال پسند آوازوں کو سفارتی برتری دے سکتی ہیں اور حماس کے لیے عوامی حمایت کو محدود کر سکتی ہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ میں کمزور پڑتے امریکی-یورپی اتحاد کو مزید تناؤ کا شکار بنا سکتی ہیں، جس سے واشنگٹن پر نظرثانی کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ مگر یہ سب زمینی حالات میں بہتری کی ضمانت نہیں۔ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ میں فوجی طور پر مضبوط ہے، فلسطینی اتھارٹی سیاسی طور پر کمزور اور حماس بدستور ایک اہم قوت ہے، جو نظریاتی بنیاد پر بھی اتنی ہی مضبوط ہے جتنی عسکری۔ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کی تسلیم سے ان حقائق میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی۔
یہ تسلیم فلسطینیوں کو اپنی سرحدوں، فضا، پانی یا سلامتی پر اختیار نہیں دیتی، جبکہ یہی کسی ریاست کی حقیقی نشانیاں ہیں، نہ کہ صرف اقوام متحدہ کی کانفرنسوں میں لہراتے جھنڈے۔ ماضی میں اوسلو معاہدے کے وقت سفارتی کامیابی قریب نظر آ رہی تھی مگر بدنیتی، تاخیر، دونوں طرف سے رکاوٹ ڈالنے والوں اور مسلسل اسرائیلی توسیع نے اسے ناکام کر دیا۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ یہ مانا جائے کہ اس بار نتیجہ مختلف ہوگا، جب تک بین الاقوامی تسلیم کو عملی مدد حاصل نہ ہو۔
اگر فرانس، برطانیہ اور کینیڈا واقعی چاہتے ہیں کہ کوئی حقیقی پیش رفت ہو تو انہیں اسرائیل کو جنگی جرائم پر جواب دہ ٹھہرانے کی مہم کی قیادت کرنی ہوگی۔ انہیں اسلحہ کی فروخت اور تجارتی معاہدوں کو اسرائیل کی بین الاقوامی قانون کی پاسداری سے مشروط کرنا ہوگا۔ انہیں فلسطینی سول سوسائٹی کی مدد اور اعتدال پسند قیادت کو متحد کرنے کی کوششوں کو تقویت دینی ہوگی۔ انہیں فلسطینی خودمختاری کو حماس اور اس کی دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔
محض تسلیم کرنے سے نہ تو جنگ ختم ہوگی اور نہ فلسطینی عوام کی تکالیف کم ہوں گی لیکن اگر یہ اقدام دباؤ ڈالنے اور عملی اقدامات میں بدلنے کا ذریعہ بنے، تو یہ پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ ورنہ یہ ایک اور مغربی اخلاقی دکھاوا بن کر رہ جائے گا، جس میں بلند و بانگ دعووں کے پیچھے عملی ارادہ فلسطینی آزادی کی طرح غائب ہی رہے گا۔
(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اوپسلا یونیورسٹی میں امن و تنازعات کے شعبے کے پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔