رَنگ، روشنی اور شبیہ کے ماسٹر کلاس تھے رتن تھیام... ونود کمار
تھیام کے ڈرامے صرف دیکھنے کے لیے نہیں تھے، وہ گہرے نفسیاتی، روحانی تجربات کے لیے تھے، جسے عظیم کردار اپنی ادنیٰ انسانیت میں الجھاتے ہیں اور کئی بار اس کا برعکس بھی کرتے ہیں۔

رتن تھیام ایسے انسان تھے جن کے لیے ہی شاید ’شاندار‘ لفظ بنایا گیا ہوگا۔ انھوں نے اظہارِ رائے کے لیے تھیڑ کا انتخاب کیا، لیکن ان کے تھیٹر میں بہت سارے ایسے عناصر تھے، جن کے بارے میں اس طرح سے پہلے کبھی سوچا نہیں گیا تھا۔ ان کے بیشتر ڈرامے منی پوری زبان میں ہوتے، جس میں منی پور رقص اور موسیقی خاص طور سے تھے۔ جس طرح کے سیٹ اور روشنی تھیام صاحب استعمال کرتے تھے، وہ اپنے آپ میں ماسٹر کلاس تھی، ہر تھیٹر اہلکار کے لیے۔
وہ زبان کے پرے جا کر ایک احساس ناظرین تک پہنچانے کا جادو پیدا کر سکتے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کھانٹی ہندوستانی تھیٹر بنانے والے وہ آخری عظیم ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے ڈرامے دنیا میں کہیں بھی دکھائے جا سکتے تھے، اور ہر جگہ لوگ ان کے کام سے مسحور ہی ہوتے۔ تھیام کے ہاتھوں میں آنے کے بعد ہر اسٹوری ایک بڑا، گہرا اور سوچ کے پرے لے جانے والا ہو جاتا۔ ان کا منی پور ان کے ساتھ چلتا، لیکن ساتھ میں پوری دنیا بھی۔ وہ سنسکرت اور دوسرے ہندوستانی ڈراموں کو منی پوری میں کرتے اور اس کے بعد بنیادی اسکرپٹ کے ساتھ ایمانداری کے باوجود وہ ڈرامہ تھیام کی اپنی دانشوری کا نمونہ بن جاتا۔ نکھر کر، بڑا ہو کر اپنے اثرات مرتب کرتا۔
تھیام کی ماں ایک سنگیت پریمی اور والد مذہبی شخص تھے۔ اس لیے بچپن میں ہی کلاسیکی موسیقی، لوک گیت، کہانیوں اور مذہبی تقاریب نے ان کے اندر ڈرامائیت اور روحانیت کی بنیاد ڈال دی۔ وہاں کی روایات، راس لیلا، تھانگ تا (مارشل آرٹ) اور لوک کتھاؤں کو آگے چل کر رتن تھیام نے اپنے تھیٹر کا موضوع اور مواصلات کا ذریعہ بنایا۔ انھوں نے 1971 میں نیشنل اسکول آف ڈراما (این ایس ڈی) میں داخلہ لیا، جہاں تھیٹر کی تکنیک کے ساتھ ساتھ ہندوستانی و مغربی ڈرامے کی سمجھ بھی حاصل کی۔ این ایس ڈی سے ہدایت کاری کی تربیت حاصل کی۔ اس بات پر ان کا خصوصی زور رہا کہ تھیٹر صرف اداکاری کا مظاہرہ ہی نہیں، بلکہ ایک ’فلاسفر ڈسپلن‘ کی بھی شکل ہے۔ انھوں نے اپنی سمجھ کو اس شکل میں بھی تیار کیا کہ ڈرامے روح کا سفر اور سماج کی از سر نو تعمیر کا ذریعہ بھی ہیں۔ این ایس ڈی کے بعد منی پور لوٹے اور 1976 میں وہاں ’کورس ریپرٹری‘ قائم کی۔ اس ریپرٹری کا مقصد صرف ڈرامہ کی پیشکش کرنا ہی نہیں، بلکہ ایک مکمل تھیٹر کلچر تیار کرنا تھا۔
ادارہ کا نام ’کورس‘ یعنی اجتماعی شعور پر مبنی ہے۔ تھیام نے اس ریپرٹری کو ایک آشرم کی طرح تیار کیا، جہاں فن کار رہتے ہیں، ریہرسل کرتے ہیں، زندگی جیتے ہیں اور ڈرامہ کو اجتماعی محنت کی شکل میں اختیار کرتے ہیں۔ بعد میں رتن تھیام نیشنل ڈراما اسکول کے ڈائریکٹر بھی رہے، لیکن ان کی ریپرٹری اسی طرح چلتی رہی۔
ان کی پہلی قابل ذکر پیشکش ہے ’چنگ تھماکھونگ‘ جو منی پور کی سیاسی حالت، نسلی تشدد اور سماجی تقسیم پر مبنی تھی۔ اسٹیج پر موسیقی اور خاموشی کا گہرا تجربہ، ڈئیلاگ کی روانی، لباس میں روایتی رنگوں کا استعمال پیشکش کی خوبی تھی۔ تھیام کے ڈرامے اس منظرنامہ پر مبنی چمتکار کی طرح لگاتار 50 سالوں سے زیادہ تک لوگوں کو جوش سے بھرتے رہے۔
دھرمویر بھارتی کا ڈرامہ ’اندھا یُگ‘ ان کی قومی سطح کی پہلی ہدایت کاری تھی۔ اس میں انھوں نے مہابھارت میں اسکرپٹ کو ہم عصر جنگوں اور اقتدار کی جدوجہد سے جوڑا۔ اس پیشکش نے انھیں ہندوستانی تھیٹر میں ایک نظریاتی انقلاب کی شکل میں قائم کیا۔ یہ ستیہ دیو دوبے کے ’اندھا یُگ‘ سے الگ ہے اور ابراہیم الکاجی سے بھی۔ بعد کے ہدایت کاروں سے بھی۔ بیانیہ، کلامیہ اور اثرات میں بھی۔
کیونکہ منی پور زبان کم لوگ جانتے ہیں، اس بات کا بھی تھیام نے شبیہ بنانے میں، دلچسپی لانے اور ناظرین کے تصورات بڑھانے میں استعمال کیا۔ ان کے ٹوٹل تھیٹر کے نظریہ میں احساس سے زیادہ عدم احساس ہے، لفظ سے زیادہ آوازیں ہیں، اندھیری خاموشی کو پنکچویٹ کرتی روشنیوں کی چھری ہے، اور سب کچھ ملا کر ہر بار جادو جیسا کچھ۔ بنتا ہوا، غائب ہوتا ہوا اور پھر سے بنتا ہوا۔
یہ بھی پڑھیں : پاکستان میں پنجابی تھیٹر کی فحاشی کے سائے میں ماند پڑتی چمک
تھیام کے ڈرامے صرف دیکھنے کے لیے نہیں تھے۔ وہ گہرے نفسیاتی، روحانی تجربات کے لیے تھے، جسے عظیم کردار اپنی ادنیٰ انسانیت میں الجھاتے ہیں اور کئی بار اس کا برعکس بھی کرتے ہیں۔ وہ ناظرین کے شعور میں کہیں گہرے اتر جاتے تھے۔ ہم میں سے جنھوں نے بھی ان کے ڈرامے دیکھے ہیں، ڈرامہ کے بہت وقت بعد تک وہ شبیہیں، وہ اثرات کہیں اٹکے رہ جاتے ہیں۔
ان کے اہم ڈراموں میں ’اُتر پریہ درشی‘ (اقتدار اور سکون و صبر کی جدوجہد)، ’جب میں مرنا شروع کرتا ہوں‘ (خود احتسابی اور وقت کی سیاست)، ’چکرویوہ‘، ’ریتو سنہار‘ (آج کی دنیا کی انارکی اور تشدد کے درمیان ہمدردی و سمجھ کی تلاش)، ’لینگشونی‘ (ڈرامہ ’اینٹی گنی‘ کا کنورزن)، ’کرن بھارام‘، ’ہے ننگشیبی پرتھوی‘ اور ’چھنگلون ماپن تمپاک اما‘ کا نام لیا جاتا ہے۔ ان کے ڈراموں میں ہم بھاس اور کالی داس کے کلاسیکی نظر، بریخت اور آرتو کا تجربہ اور منی پور کی لوک روایت کو ایک دھاگے میں بندھا ہوا پاتے ہیں۔ یہ ربط ان کے ڈراموں میں جتنا ہندوستانی ہیں، اتنا عالمی بھی۔ سب کچھ منی پوری میں۔ ان کی مشہور پیشکش ’اِن ہلز وَن ویلی‘ میں آپ ان کی ڈرامائیت اور منی پور کے ثقافتی درد کی زندہ تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
1948 میں منی پور کے کاکچنگ میں پیدا رتن تھیام کا گزشتہ بدھ (6 اگست 2025) کی صبح امپھال میں مقامی اسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ وہ 77 سال کے تھے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا، وہ بے حد شاندار انسان تھے۔ خاص طور سے تھیٹر والوں کے لیے ایک بڑے برگد کی طرح، جس کے بارے میں ہم بات تو کریں گے، لیکن اس کے سایہ میں جا کر بیٹھ نہیں پائیں گے۔
(رائٹر مشہور و معروف تھیٹر اداکار ہیں۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔