رمضان... صرف بھوک کا نہیں، صبر اور سادگی کا بھی مہینہ

مہاتما گاندھی نے ایک بار رمضان میں روزہ کی اہمیت پر اپنا نظریہ تحریر کیا تھا اور وہ الفاظ آج کے شورش پسند مذہبی ماحول اور بڑھتی عدم رواداری کے ماحول میں بہت مناسب اور موزوں معلوم ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

رمضان کا پاکیزہ مہینہ آ پہنچا ہے۔ اس موقع پر مہاتما گاندھی کے ان الفاظ کو یاد کرنا واجب جان پڑتا ہے جب انھوں نے ایک قصہ سنایا تھا کہ کس طرح ایک مسلم گاؤں کے لوگوں نے رمضان کے موقع پر ان کے لیے کھانا پکایا تھا جب کہ پورے گاؤں میں چولہا نہیں جلا تھا۔ گاندھی جی نے جذباتی ہو کر کہا تھا ’’اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا اورمیں بہت شکرگزار محسوس کر رہا ہوں کہ اس وقت جب رمضان کے موقع پر مسلم گھروں میں کہیں بھی چولہا نہیں جلا تھا، لوگوں نے ہمارے لیے کھانا پکایا۔ میری وہ عمر اب گزر چکی ہے جب میں بھی آپ کے ساتھ روزہ رکھ سکتا جیسا کہ میں نے جنوبی افریقہ میں ان مسلم لڑکوں کے ساتھ کیا تھا جو میری دیکھ ریکھ میں تھے۔ مجھے خان صاحب کے جذبات کی بھی قدر کرنی تھی جو دن رات میری صحت کا خیال رکھ رہے تھے۔ اگر میں روزہ رکھتا تو وہ شرمندہ محسوس کرتے۔ میں صرف آپ سے معافی مانگ سکتا ہوں۔‘‘

جس شخص نے روزہ نہیں رکھا اس کی شائستگی اور جن لوگوں نے روزہ رکھتے ہوئے بھی ان کے لیے کھانا پکایا ان کی رواداری آج یاد کرنا کسی بھی طرح مبالغہ نہیں ہے بلکہ اس کا تذکرہ کرنا بھی چاہیے۔ روزہ کا مقصد ہی ہوتا ہے ہمیں یہ احساس دلانا کہ ہم مذہب کے محافظ نہیں ہیں بلکہ مذہب ہی ہمیں یہ زندگی خوبصورتی اور امن سے گزارنے کی راہ دِکھاتا ہے۔ مذہب ہماری حفاظت کا محتاج نہیں ہے۔ اس لیے ایک بار پھر ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ رمضان کا مطلب محض بھوکے رہنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے دل و دماغ کو ڈسپلن میں رکھنا بھی ہوتا ہے۔ دراصل سبھی مذاہب میں روزہ کے لیے کچھ خاص دن مقرر کیے گئے ہیں چاہے وہ عیسائیوں کے لینٹس ہوں، ہندوؤں کے نوراتری اور ساون مہینہ یا پھر یہودی مذہب کا ’تانس‘۔ لیکن آخر روزہ کیوں جب کہ اس کا مقصد خود کو بھوک اور پیاس سے تکلیف پہنچانا ہے؟ تو کیا اس کا معنی یہ کہ مذہب کا مقصد بھی خود کو تکلیف پہنچا کر عقیدت کو مضبوط کرنا ہے؟

نہیں، ایسا قطعی نہیں ہے۔ مذہب کا تو اصل مقصد ہوتا ہے ہمارے اندر شائستگی پید اکرنا اور ساتھ ہی ساتھ انسانی کمزوریوں کا احساس دلانا۔ ’’تو دیالو دین ہوں، تو دانی، ہوں بھکاری/ ہوں پرسِدھ پاتکی، تو پاپ-پنج ہاری۔‘ (ونے پتریکا، تلسی داس)

قرآن کی ایک آیت ہے جس کا مطلب ہے ’’اللہ تمھاری مشکلیں آسان کرنا چاہتا ہے (کیونکہ) انسان کو کمزور ہی بنایا گیا ہے۔‘‘ اس لیے انسان میں خود احتسابی اور اصلاح کی گنجائش ہے۔ لیکن ہمارے لیے اب روزہ کے معنی بالکل بدل گئے ہیں۔ نوراتری کے موقع پر ہماری توجہ اس بات پر نہیں ہوتی کہ ہمیں روزہ کیسے رکھنا ہے بلکہ اس بات پر ہوتی ہے کہ اس دوران کیا کیا چیزیں کھا سکتے ہیں۔ رمضان کے دوران بھی توجہ کم و بیش روزہ سے ہٹ کر افطار پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ غور سے دیکھیں تو احساس ہوگا کہ اب ہم نے مذہب پر اعتقاد رکھنے کی جگہ اس کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ کانوڑ یاترا کے دوران خوفزدہ کر دینے والے جلوس، نوراتری کے موقع پر شور و غل والے ’جگ راتے‘ اور رمضان کی عالیشان افطار پارٹیاں اب فیشن کا حصہ بن چکی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سبھی مذاہب ان روزوں کے ذریعہ صبر اور خود احتسابی کو فروغ دیتی ہیں۔ یہاں مقصد اپنی مذہبی پہچان کا مظاہرہ نہیں بلکہ غور و فکر اور روحانی تجزیہ ہے۔

مہاتما گاندھی نے ایک بار رمضان میں روزہ کی اہمیت پر لکھا تھا اور وہ لفظ آج کے شورش پسند مذہبی ماحول اور بڑھتی عدم رواداری کے ماحول میں بہت مناسب اور موزوں لگتے ہیں۔ انھوں نے لکھا تھا ’’ہم نے سمجھا ہے کہ محض روزہ رکھنا ہی ماہِ رمضان کو ٹھیک سے گزارنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ روزہ کا مطلب جسم کے ساتھ ساتھ روح کو بھی ڈسپلن میں لانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پورے سال نہیں تو کم از کم رمضان کے مہینے کے دوران اچھے اقدار کے سبھی ضابطوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے، سچائی کا علم بلند کرنا چاہیے اور غصے پر قابو پانا چاہیے۔‘‘

’’ہم سوچنے لگتے ہیں کہ رمضان کا مطلب صرف کھانے پینے سے پرہیز تک ہی محدود ہے۔ اس پاکیزہ مہینے کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرنے اور گالی گلوج سے بچنے کے بارے میں تو ہم سوچتے بھی نہیں۔ اگر افطار کرتے وقت کھانا پیش کرنے میں بیگم سے ذرا بھی تاخیر ہو جائے تو آپ بے چاری کو طعن و تشنیع کرنے لگتے ہیں، اس سے مار پیٹ کرنے لگتے ہیں۔ اگر آپ واقعی عدم تشدد کے قائل ہیں تو آپ قسم کھائیں کہ اپنی فیملی کے اراکین پر نہ تو غصہ کریں گے نہ ہی ان پر رعب جمائیں گے۔ اس طرح سے آپ اپنے روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے مواقع کا استعمال تشدد سے باز آنے کے لیے کر سکتے ہیں اور پھر یہی آپ اپنے بچوں کو بھی سکھا سکتے ہیں۔‘‘

وہ کوئی بھی مذہب ہو، روزہ کی روایت کا مقصد دراصل یہی ہے۔ آج جب مذہب کا مطلب صرف ایک سطحی پروپیگنڈا اور نمائش کے علاوہ کچھ نہیں، یہ بات دھیان میں رکھنی بہت ضروری ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ آج ہمارے مذہبی معاملات مندر یا مسجد کی تعمیر یا نماز کی جگہ مقرر کرنے جیسے چھوٹے ایشوز تک ہی محدود رہ گئے ہیں۔ پہلے کے مقابلے موجودہ دور میں یہ زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم تھوڑا ٹھہر کر سوچیں کہ روزہ کیوں ضروری ہے، صبر اور سادگی ہمارے لیے کیوں اہمیت کی حامل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 May 2018, 4:43 AM