رمضان المبارک: عظمت، حرمت اور فضیلت والا مہینہ

رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، آپؐ کو نبوت کی بشارت دی گئی۔ اس مہینہ میں قیام اللیل، اجتماعیت، تلاوت قرآن، دعا، انفاق فی سبیل اللہ، لیلۃ القدر اور اعتکاف پاکر انسان بے پناہ ثمرات حاصل کر سکتا ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

user

مدیحہ فصیح

رمضان المبارک ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔ یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول، فراخی رزق، ایک دوسرے کی خیر خواہی اور جنت میں داخل ہونے کے لیے اور جہنم سے نجات حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی کاوشوں کا مہینہ ہے۔ آخری کتاب و شریعت کے نزول کے ساتھ ہی اس ماہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کی بشارت دی گئی۔ یہ مقدس مہینہ اپنے اندر بے پناہ محاسن و فضائل سمیٹے ہوئے ہے جیسا کہ قیام اللیل، اجتماعیت، تلاوت قرآن، دعا، انفاق فی سبیل اللہ، لیلۃ القدر اور اعتکاف، جن کو پاکر انسان بے پناہ ثمرات حاصل کر سکتا ہے۔

رمضان المبارک ہجری قمری سال کا نواں مہینہ ہے جس میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک چند امور سے قربت خدا کی نیت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ مثلاً کھانا پینا اور بعض دوسرے مباح کام ترک کر دیئے جاتے ہیں۔ شرعی زبان میں اس ترک کا نام ’روزہ‘ ہے جو اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے۔ رمضان عربی کا لفظ ہے، جس کا اُردو میں معنی شدت حرارت کے ہیں، یعنی اس ماہ میں اللہ تعالیٰ روزہ کی برکت اور اپنی رحمت کے ذریعہ اہل ایمان کے گناہوں کو جلا دیتے اور ان کی بخشش فرما دیتے ہیں۔ رمضان ’رمض‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے‘ کے ہیں۔ اسی لیے جلتی ہوئی زمین کو ’رمضا‘ کہا جاتا ہے اور جب پہلی دفعہ روزے واجب ہوئے تو ماہ مبارک رمضان سخت گرمیوں کے ایام میں پڑا تھا۔ جب روزوں کی وجہ سے گرمیوں کا احساس بڑھا تو اس مہینے کا نام رمضان پڑ گیا۔

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، گویا یہ مہینہ نیکیوں اور اطاعت کے لیے موسمِ بہار کی طرح ہے، اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ رمضان کا روزہ فرض اور تراویح نفل (سنت مؤکدہ) ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت و عطا، اپنی ضمانت و الفت اور اپنے انوارات سے نوازتا ہے۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہو جاتا ہے، ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں تین عشرے ہوتے ہیں، پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف و اکرم بنایا، اس کی فطرت میں نیکی اور بدی، بھلائی اور برائی، تابعداری و سرکشی اور خوبی و خامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة البقرۃ (آیت 183، 184) میں فرمایا ـ ترجمہ: ’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ، چند روز ہیں گنتی کے‘۔ یہی تقویٰ و پرہیزگاری ہے جو روزے کا اصل مقصد ہے۔ تقویٰ کا معنی ہے، نفس کو برائیوں سے روکنا۔


حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لکل شی زکوۃ و زکوۃ الابدان الصیام) ہر چیز کی زکات ہے اور انسانوں کے بدن کی زکات روزہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا (ان من الدنیا احب ثلاثۃ اشیاء الصوم فی الصیف و الضرب بالسیف و اکرام الضیف) میں دنیا میں سے تین چیزوں سے محبت کرتا ہوں، موسم گرما کا روزہ، راہ خدا میں تلوار چلانا اور مہمان کا احترام کرنا۔ ایک صحابیؓ نے حضور اکرم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول! مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا، روزہ رکھا کرو، اس کے مثل کوئی عمل نہیں (سنن نسائی) ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں روزہ کی فرضیت و فضیلت

قرآن حکیم میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرة، 183)‘‘ ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ (نسائی، السنن، کتاب الصيام) ترجمہ : روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ يْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه. مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه (بخاری، الصحيح، کتاب الصوم)۔ ترجمہ: جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ (ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام)۔ ترجمہ: آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اعمال صالحہ کا ثواب صدق نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن روزہ کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کتاب کا محتاج نہیں، اس کی مقدار اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب ہیں :


روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے اﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص اﷲ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔ روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کو صبر و برداشت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشات نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدر مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔ روزہ میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔ کھانے پینے سے استغناء روزہ دارکو اﷲ تعالیٰ کے قریب کر دیتا ہے۔ روزہ کے ثواب کا علم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں جبکہ باقی عبادات کے ثواب کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کر دیا ہے۔ روزہ ایسی عبادت ہے جسے اﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کر سکتے۔ جزاء صبر کی کوئی حد نہیں ہے اس لئے رمضان کے روزوں کی جزاء کو بے حد قرار دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزاء میں ہوں۔

حضور اکرم محمدصلی اللہ علیہ وسلم چند باتوں کا اہتمام کیا کرتے تھے اور اُمت کو بھی ان کی تعلیم اور تلقین فرماتے تھے۔ آپؐ شعبان کی تاریخوں کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے اتنا دوسرے مہینوں کی نہیں فرماتے تھے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کا اہتمام کیا کرو۔ آپؐ نے سحری کھانے کا حکم فرمایا، ’سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے‘ اور فرمایا ’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے‘۔ یعنی اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ (غروب آفتاب کے بعد) افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ رمضان میں ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ میں مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔ روزہ دار کی روزانہ ایک دعا قبول ہوتی ہے۔ رمضان میں روزانہ بہت سے لوگ دوزخ سے آزاد کیے جاتے ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں خود بھی شب بیدار رہتے اور اپنے گھروا لوں کو بھی بیدار رکھتے۔ آپؐ نے فرمایاکہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔جب لیلۃ القدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو ( تلاوت، تسبیح وتہلیل اور نوافل ، الغرض کسی طریقے سے ذکر وعبادت میں مشغول ہو) اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ ۱گر کسی نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا ، خواہ وہ ساری زندگی روزہ رکھتا رہے، وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا۔ روزہ کی حالت میں بے ہودہ باتوں مثلا ًغیبت، بہتان، گالی گلوچ، لعن ، طعن، غلط بیانی، تمام گناہوں سے پرہیز کیا جائے، ورنہ سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اگر کوئی دوسرا آ کر ناشائستہ بات کرے تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں، کیونکہ روزہ ڈھال ہے۔

طبی لحاظ سے بھی روزوں کے بے شمار فوائد ہیں۔ روزہ رکھنے سے معدے کی تکالیف اور ا س کی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور نظام ہضم بہتر ہو جاتا ہے۔ روزہ شوگر لیول،کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے۔ روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے اور ا س کی وجہ سے دل کوانتہائی فائدہ مند آرام پہنچتا ہے۔ روزے سے جسمانی کھچاؤ، ذہنی تناؤ ، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ روزہ رکھنے سے موٹاپے میں کمی واقع ہوتی اور اضافی چربی ختم ہو جاتی ہے۔


روزے کی رخصت:کوئی مسلمان جو بیمار نہ ہو لیکن طبیب یہ کہے کہ وہ روزے رکھنے سے بیمار ہوجائے گا تووہ روزہ چھوڑ سکتا ہے۔ حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کا یا اس کے بیمار ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس کوبھی اجازت ہے۔ جس مسافر نے فجر سے قبل سفر شروع کیا اس کو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے لیکن جس نے فجر کے بعد سفر کیا اس کو اس دن کا روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔(خزائن العرفان، البقرۃ)

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ذکرو فکر، تسبیح و تہلیل، کثیر تلاوت و نوافل اور صدقہ و خیرات کا باعث بنتا ہے۔ اس مہینے کو پاکر دنیا کا ہر مسلمان اپنے اپنے ایمان اور تقویٰ کے مطابق حصہ لے کر اپنے جسم و روح کے لیے تقویت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ پورا سال جنت کو رمضان المبارک کے لیے آراستہ کیا جاتا ہے۔ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھا دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ’روزہ صرف میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا‘۔ معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ یہ مہینہ گویا ایمان اور اعمال کو تازہ کرنے کے لیے آتا ہے۔ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔