منھ میں رام، ہاتھ میں چھری

رام نومی پر نکلنے والی یاترائیں اب جشن کم اور خوف کا موقع زیادہ نظر آتی ہیں، یہ پہیلی ہی ہے کہ یاترائیں مسلم بستیوں میں کیوں جائیں، مسجدوں کے سامنے کیوں رکیں اور اشتعال انگیز گانے کیوں بجائے جائیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

وشو دیپک

حال میں آپ کی نظر واٹس ایپ پر شیئر کیے جا رہے اس کارٹون پر گئی ہوگی جس میں حیرت زدہ ’بھگوان کرشن‘ کو بھکتوں سے یہ کہتے دکھایا گیا ہے کہ وہ لوگ کدھر جا رہے ہیں، ان کا مندر تو اس کے برعکس سمت میں ہے۔ اس پر ایک بھکت جواب دیتا ہے کہ وہ بات تو ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن ان لوگوں کو کہا گیا ہے کہ انھیں تبھی پیسے ملیں گے جب وہ مسجد کی طرف جائیں۔ اسی جذبہ کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایک دیگر کارٹون شیئر کیا جا رہا ہے جس میں مسجدوں کے باہر جشن منانے کے لیے ہندو بھکتوں کی لائن لگی دکھائی گئی ہے۔ ان دونوں ہی کارٹون کا اشارہ اس سال رام نومی تقریب کے دوران کئی ریاستوں میں پیدا تشدد کی طرف ہے جس میں 14 لوگوں کی جان چلی گئی اور سینکڑوں افراد زخمی ہو گئے۔ گزشتہ سال بھی رام نومی تقریب کے دوران کئی مقامات پر تشدد بھڑک گئے تھے۔

مغربی بنگال میں ایک ’بی جے پی کارکن‘ کو رام نومی یاترا کے دوران اسلحہ لہرانے پر پولیس نے گرفتار کیا ہے، وہیں ایک نامعلوم سی تنظیم ’ہندو فرنٹ فار جسٹس‘ نے سپریم کورٹ میں عرضی ڈال کر دعویٰ کیا کہ مسلم یاتراؤں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ عرضی میں یہ کہتے ہوئے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ نہیں چاہتا ہے کہ ہندو اپنا جشن منائیں۔ عرضی میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومتوں کو حکم دیا جائے کہ ’پتھر بازوں‘ کے خلاف کارروائی کریں اور ان سے معاوضہ وصول کیا جائے۔ جبکہ ہندوتوا تنظیموں نے مذہبی تہواروں کو پرامن طریقے سے منانے میں ہندوؤں کی مبینہ ناکامی پر ناراضگی کا اظہار کیا۔


بی جے پی کے آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ اس نظریہ کو پھیلانے میں مصروف رہے کہ یاتراؤں پر حملوں کے پیچھے مسلم تھے۔ حالانکہ تمام رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیشتر ریاستوں میں تشدد تب پھیلا جب رام نومی کی یاترا مسلم اکثریتی علاقوں سے گزریں۔ یاترائیں مسجدوں کے سامنے رکیں اور پولیس کی موجودگی کے باوجود قابل اعتراض اور اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔ لاؤڈاسپیکر پر مسلمانوں کو ہدف بنانے والے قابل اعتراض گانے بجائے گئے اور تلوار-ترشول بھانجتے لوگوں نے ڈانس کیا۔ مسلمانوں کا مذاق بنایا گیا، ان کی طرف فحش اشارے کیے گئے اور مسجدوں پر ’گلال‘ پھینکا۔ یاترائیں اسی وقت مسجد کے سامنے پہنچتیں جب وہاں شام کی نماز پڑھی جا رہی ہوتی۔ رمضان کے مہینے میں رام نومی پڑنے کی وجہ سے اکساووں پر رد عمل ہوا اور اس نے فساد، لوٹ پاٹ اور آگ زنی کا ماحول بنا دیا۔

جو بات بالکل صاف ہے، وہ یہ کہ یاترائیں عالیشان اور مزید عالیشان ہوتی چلی گئیں۔ آج ان کے ساتھ کاروں، ٹرکوں کا قافلہ چلتا ہے۔ ان میں شامل ہونے کے لیے باہر سے لوگ لائے جاتے ہیں۔ ساتھ میں اچھی طرح سے سجایا گیا ’رتھ‘ چلتا ہے۔ ڈی جے اور لاؤڈاسپیکر پر گانے بجتے ہیں۔ یہ سب اب معمول کی بات ہو گئی ہے۔ ’بھکتوں‘ کی بھیڑ ہاتھ میں پالش کی گئی نکلی چھڑیوں سے لیس ہوتی ہے جن کے ایک سرے پر پرچم بندھا ہوتا ہے اور بڑی آسانی سے انھیں ہتھیار میں بدلا جا سکتا ہے۔ پہلے مندر یاترا نکالنے کے لیے چندہ اکٹھا کرتے تھے، لیکن اب شاید ہی کبھی چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے، جبکہ پیسہ جم کر خرچ کیا جاتا ہے۔ رام نومی کی یاتراؤں کے لیے پیسے آتے کہاں سے ہیں؟ کون اس کی فنڈنگ کرتا ہے؟


بہار کے نالندہ ضلع میں ’ہندتوا بھیڑ‘ نے بہار شریف کے سب سے پرانے مدرسہ ’مدرسہ عزیزیہ‘ میں آگ لگا دی۔ مدرسہ کی 110 سال قدیم لائبریری میں بھیڑ نے توڑ پھوڑ کی اور 4500 کتابیں جل کر خاک ہو گئیں۔ مسجد میں پٹرول بم پھینکے گئے۔ متھرا (اتر پردیش) میں یاترا جامع مسجد پہنچی جہاں لوگ بھگوا جھنڈا لہراتے ہوئے اگل بغل کی دکانوں کی چھت پر چڑھ گئے۔ دہلی کے جہانگیر پوری میں رام نومی یاترا کو اس راستے پر لے جایا گیا جس کے لیے پولیس نے صاف منع کر رکھا تھا۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے صاف ہوتا ہے کہ نالندہ میں ’ڈیجیٹل دنیا‘ نام کی الیکٹرانک دکان کو ہندوتوا بھیڑ نے لوٹ لیا۔ ممبئی کے جاوید حمزہ کی اس دکان سے مبینہ طور پر کروڑ روپے کے سامان لوٹے گئے۔

وڈودرا (گجرات) میں فرقہ وارانہ طور سے حساس فتح پوتا اور کمبھارواڑا سے گزرتے وقت رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ کیا گیا۔ یاترا کو مسلم علاقوں میں جانے کی اجازت کیوں دی گئی، یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ابھی تک نہیں ملا ہے، جبکہ پولیس نے 34 مبینہ ’پتھر بازوں‘ کو حراست میں لیا ہے۔ گزشتہ سال بھی راجستھان کے کرولی، مدھیہ پردیش کے کھرگون، گجرات کے آنند اور ہمت نگر، حیدر آباد، کرناٹک اور گوا سمیت کئی مقامات پر رام نومی کے جلوس کے دوران تشدد پیش آیا تھا۔ کھرگون میں پولیس نے اگلے ہی دن مبینہ پتھراؤ کرنے والوں کے گھر منہدم کر دیئے اور انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ وہ ناجائز طریقے سے بنائے گئے تھے۔ یہ ایسا پیٹرن ہے جو بی جے پی حکمراں ریاستوں میں عام ہوتا جا رہا ہے۔ اور تو اور، مغربی بنگال کے ہوڑہ میں رام نومی کے جلوس میں تو بلڈوزر بھی شامل کیے گئے۔


کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ریاستوں میں ہندوتوا گروپوں کے ذریعہ ایک ہی پیٹرن پر عمل کیا جاتا ہے؟ جبکہ ہندو دایاں محاذ کا ماننا ہے کہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن سے سیکولر پارٹیوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور ’مسلم پرستی‘ کو فروغ ملتا ہے؟ ییل یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ انتخاب سے ٹھیک پہلے کے سال میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے ہندو نیشنلسٹ پارٹیوں کا ووٹ 0.8 فیصد تک بڑھ گیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مغربی بنگال میں اس طرح کے پولرائزیشن سے بی جے پی اور ممتا بنرجی دونوں کو فائدہ ہوگا۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ہندوؤں سے مسلمانوں کی ’حفاظت‘ کی اپیل کرتے ہوئے اس بات پر حیرانی ظاہر کی ہے کہ آخر رام نومی کے پانچ دن بعد بھی رام نومی کی یاترائیں کیوں جاری ہیں؟ وہیں ممتا کی حریف بایاں محاذ پارٹی اس بات پر حیرانی ظاہر کرتے ہیں کہ پولیس نے اتنے سارے رام نومی جلوسوں کی اجازت ہی کیوں دی، جبکہ ایسا تو حال تک ریاست میں نہیں ہوتا تھا؟ ریاست کا اہم تہوار دُرگا پوجا ہے، جو رام نومی کے برعکس بڑے پرامن طریقے سے منایا جاتا ہے۔

ان سوالوں میں سے کئی کے جواب بڑی محنت سے تیار کی گئی رپورٹ ’روٹس آف روتھ‘ میں ملتے ہیں۔ سینئر وکیل چندر ادے سنگھ کے ذریعہ ایڈیٹیڈ اور ’سٹیزنس اینڈ لائرس انیشیٹیو‘ کے ذریعہ اسپانسرڈ رپورٹ حال کے وقت میں مذہبی یاتراؤں، خصوصاً رام نومی اور ہنومان جینتی کے مواقع پر نکالے گئے جلوسوں کے دوران فرقہ وارانہ تشدد میں ہوئے اچانک اضافہ پر غور کرتی ہے۔ یہ رپورٹ 2022 میں ہوئے تشدد پر مبنی ہے، لیکن رپورٹ کی تمہید میں چندر ادے سنگھ نے بتایا ہے کہ مذہبی یاتراؤں کا اپنے حساب سے ہیر پھیر کر کے فائدہ اٹھانا، انھیں جارحانہ شکل دینا اور اس سے سیاسی پیغام دینا ہندوتوا گروپوں کا پرانا اور آزمودہ حربہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔