سبکدوش ہونے سے پہلے چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کچھ سوالات کے جواب دیں... یوگیندر یادو

ای وی ایم سے جڑے سوالات کو الگ بھی کر دیا جائے تب بھی راجیو کمار کو ان سوالات کے جواب ضرور دینے چاہئیں جو بار بار اٹھے ہیں، دراصل الیکشن کمیشن نے سوالات پر پردہ ڈالنے کا کام کیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار، تصویر قومی آواز / وپن</p></div>

چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار، تصویر قومی آواز / وپن

user

یوگیندر یادو

آئندہ ماہ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار سبکدوش ہو رہے ہیں۔ جب بھی ان سے پریس کانفرنس میں سوالات پوچھے جاتے ہیں، وہ شعر و شاعری سے جواب دیتے ہیں۔ سنتے ہیں وہ کچھ تُک بندی بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن کیا امید کی جائے کہ ان کے اس عہدہ پر فائز ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی ساکھ پر جو سوال اٹھے ہیں، ان کا سیدھا جواب ملے گا؟ فی الحال اگر ای وی ایم میں ہیرا پھیری کے اندیشہ سے جڑے سوالات کو الگ بھی کر دیا جائے، تب بھی عہدہ چھوڑنے سے پہلے راجیو کمار کو کم از کم 2 بڑے سوالات کا جواب دینا چاہیے جو گزشتہ کچھ مہینوں میں بار بار پوچھے گئے ہیں۔ انھیں اٹھانے والوں نے صرف شبہ ہی ظاہر نہیں کیا بلکہ پختہ ثبوت بھی جمع کیے ہیں۔

پہلا سوال ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری کو لے کر ہے۔ ملک کے ہر بالغ شخص کو ووٹنگ کا حق ملے اور کوئی بھی شہری اس حق سے محروم نہ کیا جائے سکے، اس مقصد سے بہت وسیع اور اچھے اصول و قوانین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اصولوں کو طاق پر رکھ کر الیکشن کمیشن کی ناک کے نیچے بی جے پی کے ذریعہ اپنی حکومتوں سے ملی بھگت کر بڑی تعداد میں اپنے مخالفین کے ووٹ کٹوائے گئے اور بوگس یعنی فرضی ووٹ جوڑے گئے؟


یہ سوال سب سے بڑے پیمانہ پر مہاراشٹر میں اٹھا ہے۔ گزشتہ سال اپریل-مئی میں ہوئے لوک سبھا انتخاب میں مہاراشٹر میں مجموعی ووٹرس 92.9 کروڑ تھے، لیکن نومبر میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے دوران ووٹرس کی تعداد بڑھ کر 97 ملین ہو گئی۔ سوال اٹھتا ہے کہ 6 مہینوں کے اندر اور وہ بھی لوک سبھا انتخاب میں ووٹر لسٹ میں ہوئی مکمل ترمیم کے بعد تقریباً 4.1 لاکھ کا اضافہ کیسے ہوا؟ یعنی ہر اسمبلی حلقہ میں تقریباً 14400 نئے ووٹرس کیسے جڑے؟ آبادی میں اضافہ کے حساب سے اس مدت میں زیادہ سے زیادہ 7 لاکھ نام جڑنے چاہیے تھے۔

کانگریس لیڈر پروین چکرورتی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں مہاراشٹر کی مجموعی بالغ آبادی 95.4 ملین تھی، جبکہ ریاستی اسمبلی انتخاب کے لیے آفیشیل ووٹرس کی تعداد 97 ملین تھی۔ عموماً ووٹرس کی تعداد بالغ آبادی سے کم رہتی ہے، کیونکہ الیکشن کمیشن ہر شخص کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں کر پاتا ہے۔ ایسے میں ووٹر لسٹ کا بالغ آبادی سے زیادہ ہونا ایک ایسا عجوبہ ہے جو شبہات کو پیدا کرتا ہے۔


معاملہ صرف مہاراشٹر کا ہی نہیں ہے۔ ’نیوزی لانڈری‘ کی صحافی سمیدھا متل نے اتر پردیش کے ان دو پارلیمانی علاقوں فرخ آباد اور میرٹھ کی تحقیقات کی جہاں بی جے پی بہت کم ووٹوں سے لوک سبھا انتخاب جیتی تھی۔ دونوں علاقوں میں ان کی رپورٹ نے یہ ثابت کیا ہے کہ بی جے پی کی جیت کے فاصلے سے زیادہ تعداد میں وہاں الیکشن سے عین قبل ووٹ کاٹے گئے تھے۔ ووٹ انہی بوتھوں پر کاٹے گئے تھے جہاں گزشتہ انتخاب میں بی جے پی کو بہت کم ووٹ ملے تھے اور جہاں یادو اور مسلم ووٹر کی اکثریت تھی۔ اسی طرح بی جے پی کے دبدبے والے بوتھوں پر بڑی تعداد میں فرضی پتہ والے فرضی ووٹ بھی جوڑے گئے۔ اس جانچ نے یہ بھی پایا کہ ووٹ کاٹتے وقت الیکشن کمیشن کے ذریعہ طے کردہ اصولوں کو طاق پر رکھ دیا گیا تھا۔ بڑی تعداد میں ووٹ کاٹنے والے ملازمین نے اس کی وجہ ’اوپر سے دباؤ‘ بتایا۔

’دی اسکرول‘ کی جانچ میں بھی یہی بات سامنے آئی۔ عام آدمی پارٹی نے یہ سوال دہلی اسمبلی انتخاب سے پہلے ہی اٹھانا شروع کیا ہے اور یہ الزام عائد کیا ہے کہ ایک اسمبلی حلقہ میں بی جے پی 10 ہزار سے زیادہ نام کٹوا رہی ہے۔ ایسے میں راجیو کمار کی اخلاقی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ سبکدوش ہونے سے پہلے لوک سبھا انتخاب اور اس کے بعد ہوئے اسمبلی انتخابات میں ووٹر لسٹ کی ہر تبدیلی پر قرطاس ابیض (وہائٹ پیپر) جاری کریں۔


دوسرا مزید سنگین سوال انتخابی نتائج کو لے کر ہے۔ لوک سبھا انتخاب کے بعد نتائج کے ڈاٹا کو لے کر کئی سوال اٹھائے گئے۔ سوال یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ ووٹنگ والے دن شام کو دیے گئے اور ووٹنگ کے آخری ڈاٹا میں اتنا فرق کیوں ہے، ووٹنگ کا آخری ڈاٹا اتنی تاخیر سے اور وہ بھی ادھورے کیوں دیے گئے؟ الیکشن کمیشن نے ان سب سوالات سے یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لیا کہ ووٹنگ کی ساری جانکاری ’فارم 17 سی‘ میں درج ہوتی ہے اور اس کی کاپی پارٹیوں کو دی جاتی ہے۔ لیکن جب آر ٹی آئی کے تحت ’فارم 17 سی‘ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے خاموشی اختیار کر لی۔

اس کے بعد 2 مزید اہم سوالات اٹھے ہیں۔ گزشتہ 3 دہائیوں سے انتخابی شفافیت پر کام کر رہے ادارہ ’ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم‘ (اے ڈی آر) نے اعداد و شمار جاری کر پوچھا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق ای وی ایم میں جتنے ووٹ ڈالے گئے اور ای وی ایم کے ووٹوں کی گنتی میں (پوسٹل ووٹ کو چھوڑ کر) جتنے ووٹ شمار کیے گئے، اس میں فرق کیوں ہے؟ یہ فرق ایک یا دو نہیں بلکہ 543 میں سے 536 انتخابی حلقوں میں پایا گیا ہے۔ کئی علاقوں میں تو جتنے ووٹ پڑے تھے، اس سے زیادہ گنتی کیے گئے۔ حال ہی میں اڈیشہ میں بیجو جنتا دل نے الیکشن کمیشن کے سامنے مزید ایک بڑی خامی رکھ کر اس کا جواب مانگا ہے۔ اڈیشہ میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخاب ایک ساتھ ہوئےتھے۔ ایک ہی ووٹر نے ایک ہی جگہ 2 مشینوں میں 2 ووٹ ڈالے تھے۔ ظاہر ہے دونوں ووٹوں کی تعداد یکساں ہونی چاہے تھی۔ لیکن سبھی 21 پارلیمانی حلقوں میں لوک سبھا اور اسمبلی حلقوں کے ووٹ میں فرق ہے۔ ڈھینک نال میں یہ فرق 4000 ووٹوں سے زیادہ ہے۔ بیجو جنتا دل نے باقاعدہ ’فارم 17 سی‘ کے اعداد و شمار پیش کر اس نمبر میں اور شمار کیے گئے ووٹوں میں فرق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ پارٹی نے ووٹنگ کی شب کے بعد ووٹنگ کے نمبر میں تبدیلی پر سوال اٹھایا ہے۔


ان ایشوز پر شفافیت سے کام لینے کی جگہ الیکشن کمیشن نے تمام سوالات پر پردہ ڈالنے کا کام کیا ہے۔ یہی نہیں، انتخاب کے اصول (2)93 میں ترمیم کر دی گئی ہے تاکہ الیکشن کمیشن کو انتخاب سے متعلق سبھی دستاویزات پبلک نہ کرنے پڑیں۔ اب حکومت اور الیکشن کمیشن طے کریں گے کہ انھیں کیا جانکاری عوام کو دینی ہے اور کیا نہیں۔ مطلب ’دال میں کچھ کالا ہے‘۔ راجیو کمار کے سبکدوش ہونے سے یہ سوال سبکدوش نہیں ہوں گے۔

(بشکریہ: نوودے ٹائمز)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔