مہاتما گاندھی کی معلمہ، بیگم ریحانہ عباس طیب جی...برسی کے موقع پر
بیگم ریحانہ طیب جی، گاندھی جی کی قریبی ساتھی، اردو استانی اور آزادی کی مجاہدہ تھیں۔ سودیشی تحریک، بھارت چھوڑو تحریک اور قومی ہم آہنگی میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے

عظیم قوم پرست رہنما بیگم ریحانہ عباس طیب جی جسٹس عباس طیب جی کی صاحبزادی تھیں، جنہوں نے 26 جنوری 1901 کو بڑودہ، گجرات میں جنم لیا۔ ان کے والد اور والدہ آمنہ طیب جی کی ملک و قوم کے لیے بے مثال خدمات ہندوستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہیں۔
ریحانہ طیب جی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اردو، گجراتی، ہندی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ ان کے اندر قومی شعور اور انقلابی مزاج وراثت میں آیا تھا، جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد جلد ہی برطانوی استعمار کے خلاف عملی جدوجہد میں ڈھل گیا۔ کچھ عرصے تک وہ اورٹیل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے بھی وابستہ رہیں
وہ اسلامی تصوف، ہندوانہ فلسفے اور صوفیانہ طرزِ فکر سے گہرا لگاؤ رکھتی تھیں۔ ان کے معمولات میں قرآن مجید کی تلاوت اور بھجن گانا شامل تھا، جو ان کے وسیع النظری اور بین المذاہب ہم آہنگی کے رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ سیواگرام آشرم میں قیام کے دوران وہ تمام مکاتب فکر کے افراد کے ساتھ گھل مل گئیں اور ان کی شخصیت اتحاد و یگانگت کی علامت بن گئی۔
جسٹس عباس طیب جی کے مہاتما گاندھی سے قریبی تعلقات تھے، جس کی بنیاد پر گاندھی جی بیگم ریحانہ کو اپنی بیٹی جیسا مانتے تھے۔ ان کے خطوط میں وہ انہیں ’چرنجیو ریحانہ‘، ’پریہ ریحانہ‘ اور ’استانی‘ جیسے القابات سے پکارتے تھے۔ ریحانہ طیب جی نے گاندھی جی کو اردو سکھانے میں بھی مدد کی اور ان کے ساتھ اپنے خیالات کھل کر بانٹتیں۔
گاندھی جی نے جب گجرات میں شراب اور ولایتی کپڑوں کے خلاف پکٹنگ کے لیے خواتین کا پہلا اجلاس طلب کیا، تو ریحانہ طیب جی اپنی والدہ کے ہمراہ اس میں شامل ہوئیں۔ اس اجلاس کے بعد جو قرارداد وائسرائے کو بھیجی گئی، اس پر ان کے دستخط بھی موجود تھے۔
بعدازاں وہ یوتھ کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں۔ اپنی قیادت میں انہوں نے پٹنہ میں سودیشی تحریک کے تحت ولایتی کپڑوں کے خلاف زبردست مظاہروں کی قیادت کی۔ 1942ء کی 'بھارت چھوڑو تحریک' میں بھی انہوں نے بھرپور حصہ لیا اور پولیس کی لاٹھیاں کھا کر زخمی ہوئیں۔ اس جدوجہد کی پاداش میں انہیں ناگپور سینٹرل جیل میں ایک سال قید کی سزا بھگتنی پڑی۔
انہوں نے ایک روحانی کتاب ’دی ہارٹ آف گوڈ‘ تحریر کی، جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ ریحانہ طیب جی نے اپنی تمام عمر قومی یکجہتی، رواداری اور ہم آہنگی کے لیے وقف کر دی۔ 16 مئی 1975 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں، مگر ان کی قربانیاں اور خدمات آج بھی ملک و قوم کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔