راہل گاندھی کے ووٹ چوری ’ایٹم بم‘ سے الیکشن کمیشن لہو لہان...سہیل انجم
راہل گاندھی نے مہادیوپورا میں ووٹر لسٹ کی 6 ماہ جانچ کے بعد 60 ہزار سے زائد فرضی ووٹوں اور پتوں کے شواہد پیش کر کے الیکشن کمیشن و حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا، اپوزیشن نے ان کا ساتھ دیا

سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ووٹ چوری کا پختہ ثبوت دے کر الیکشن کمیشن اور حکومت دونوں کو بھرے بازار میں بے نقاب کر دیا۔ اب دونوں تلملائے ہوئے ہیں اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کا اعتراف کرنے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ دھمکیاں الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی دی گئی ہیں اور بی جے پی کے رہنما اور ترجمان بھی دے رہے ہیں۔ حالانکہ انھیں چاہیے کہ وہ ان کے ثبوتوں کو ٹھوس شواہد کے ساتھ مسترد کریں۔ لیکن بظاہر ان کے پاس کانگریس رہنما کے ثبوتوں کی کوئی کاٹ نہیں ہے۔
راہل گاندھی ایک عرصے سے یہ الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن اور حکومت دونوں مل کر اور منظم انداز میں ووٹ چوری کر رہے ہیں۔ لیکن ان سے ہمیشہ یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا ثبوت پیش کریں۔ انھوں نے چھ ماہ کی محنت و مشقت کے بعد ثبوت فراہم کر دیے تو کہا جانے لگا کہ وہ اپنے دعووں کے ساتھ بیان حلفی داخل کریں ورنہ ان کے خلاف کیس کیا جائے گا۔ کیس تو ان کے خلاف بہت قائم کیے گئے اور ایک بار سازش کر کے ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ختم کرا دی گئی لیکن سپریم کورٹ نے رکنیت بحال کر کے حکومت کے گالوں پر زوردار چانٹا رسید کیا تھا۔ راہل گاندھی نے اپنی جد و جہد سے ثابت کیا ہے کہ وہ مقدمات سے نہیں ڈرتے۔ جس کو مقدمہ کرنا ہو کرے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
راہل گاندھی نے کمیشن سے پانچ سوالات کیے ہیں اور ان کا جواب مانگا ہے۔ سوالات یہ ہیں کہ اپوزیشن کو ڈیجیٹل ووٹر لسٹ کیوں نہیں دی جا رہی کیا چھپایا جا رہا ہے۔ سی سی ٹی وی اور ویڈیو ثبوت کیوں مٹائے جا رہے ہیں اور کس کے حکم پر۔ فرضی ووٹنگ اور ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری کیوں کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کو کیوں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ اور صاف صاف بتائیے کہ کیا الیکشن کمیشن آف انڈیا بی جے پی کا ایجنٹ بن گیا ہے۔ انھوں نے صرف سوال ہی نہیں پوچھے ہیں بلکہ ثبوت بھی دیے ہیں۔ کئی چینلوں کے رپورٹروں نے گراؤنڈ پر جا کر جب تحقیقات کی تو ان کے ثبوت سچ پائے گئے۔
راہل گاندھی نے کرناٹک کے بنگلورو سینٹرل لوک سبھا سیٹ کے ایک اسمبلی حلقے مہادیو پورا کی ووٹ لسٹ کی چھ ماہ تک جانچ پڑتال کی جس کے نتیجے میں حیرت انگیز بدعنوانیاں بے نقاب ہوئیں۔ بنگلورو سینٹرل لوک سبھا سیٹ کے تحت سات اسمبلی حلقے آتے ہیں جن میں ایک مہادیو پورا بھی ہے۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی باقی تمام اسمبلی حلقوں میں ہار رہی تھی لیکن اس کے برعکس مہادیو پورا میں جیت رہی تھی۔ بی جے پی کو حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ووٹ ملے جس کی وجہ سے اس کا امیدوار کامیاب ہو گیا۔
الیکشن کمیشن نے کانگریس کو ڈیجیٹل ووٹر لسٹ نہیں دی بلکہ اس کی ہارڈ کاپی دی جس کی وجہ سے ایک اسمبلی حلقے کی ووٹر لسٹ کی جانچ کرنے میں اتنا وقت لگا۔ اگر ڈیجیٹل ووٹر لسٹ دے دی جائے تو راہل گاندھی کے مطابق پندرہ منٹ میں پورے ملک میں ہونے والی دھاندلی کو بے نقاب کر دیا جائے گا۔ یہ دھاندلی کئی طرح سے کی جا رہی ہے۔ غلط ووٹر، غلط پتے اور بہت کچھ فرضی۔ یہاں تک کہ ایک ایک کمرے میں اسی اسی ووٹروں کے پتے درج ہیں۔ ایسے کئی ووٹر ملے جن کا کئی شہروں میں ووٹ ہے۔ ووٹر لسٹ میں نئے ووٹروں کی شمولیت کے لیے فارم چھ بھرا جاتا ہے۔ اس میں بھی دھاندلی کی گئی۔ یہاں تک کہ پچاس پچاس سال سے اوپر کے لوگوں کے فارم سکس بھرے گئے۔
جانچ میں جو حقائق سامنے آئے ان کے مطابق 11965 فرضی ووٹر، 40009 جعلی پتے، 10452 ووٹروں کے نام ایک پتے پر درج۔ 4132 ووٹر کے غیر قانونی فوٹو اور 33692 ووٹروں کے فارم سکس میں دھاندلی۔ یہ بھی سامنے آیا کہ ایک ووٹر کئی پولنگ بوتھوں کی ووٹر لسٹ میں ہے۔ ایسی تین مثالیں پائی گئیں جہاں 80-80 ووٹرس کا ایک ہی پتہ ہے۔ ایک کمرے والے مکان میں 46 ووٹر ہیں۔ جبکہ ان میں سے کوئی وہاں نہیں رہتا۔ بنگلورو کے ایک پتے یعنی 153 بئیرے کلب پر 68 لوگوں کے نام درج ہیں لیکن جب لوگ وہاں گئے تو وہاں کوئی نہیں ملا۔ راہل گاندھی کے مطابق مذکورہ لوک سبھا سیٹ کے تمام اسمبلی حلقوں میں کانگریس کی جیت ہوئی لیکن مہادیو پورا میں بی جے پی ایک لاکھ دس ہزار ووٹوں سے سبقت لے گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ووٹ چوری کا ماڈل ہے۔ یہی ماڈل مہاراشٹر میں اپنایا گیا اور یہی ماڈل ہریانہ میں اپنایا گیا۔ سیاسی مبصرین کو شک ہے کہ ایسا ہی کچھ بہار میں بھی ہونے والا ہے جہاں ایس آئی آر کی مشق کے دوران لاکھوں ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے نکال دیے گئے۔ کانگریس کا دعویٰ ہے کہ اگر اس قسم کی دھاندلی نہ کی گئی ہوتی تو بی جے پی لوک سبھا انتخابات نہیں جیت پاتی اور نہ ہی مہاراشٹر میں اس کی حکومت بنتی۔ مشاہدین کا خیال ہے کہ دہلی میں بھی اسی قسم کا کھیل کھیلا گیا اور ایک ایک پتے پر درجنوں ووٹر درج کیے گئے جس کے نتیجے میں اس کی جیت ہوئی۔
اس سنگین الزام پر الیکشن کمیشن کی بوکھلاہٹ دیکھنے لائق ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی بیان حلفی کے ساتھ یہ الزامات لگائیں۔ جبکہ پہلے بھی بیان حلفی کے ساتھ الزامات لگائے گئے لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ انھوں نے بیان حلفی کے ساتھ اٹھارہ ہزار ووٹوں کی دھاندلی کا الزام لگایا تھا لیکن ان کے الزام پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بیان حلفی کی بات محض دامن بچانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ راہل گاندھی نے درست کہا ہے کہ بیان حلفی کا کیا مطلب ہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں آئین کا حلف لیا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑا کوئی حلف ہو سکتا ہے۔
اس معاملے پر ان کے ساتھ پورا اپوزیشن آگیا ہے۔ این سی پی کے رہنما شرد پوار نے بھی ان کے الزام کی حمایت کی ہے۔ شرد پوار، اودھو ٹھاکرے، اکھلیش یادو، ابھیشیک بنرجی اور سپریہ سولے سمیت متعدد اپوزیشن رہنماوں نے راہل کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ یہ صرف ان کی لڑائی نہیں ہے بلکہ ہم سب کی ہے۔ ان کے مطابق اب جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے جس نے اپنے اصولوں اور ضوابط سے سمجھوتہ کر لیا ہے، جواب مانگے۔ لیکن میڈیا کمیشن سے کیا جواب مانگے گا۔ اس نے تو راہل گاندھی اور کانگریس سے جواب مانگنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ حکومت کے خلاف جائے۔ وہ جانتا ہے کہ کمیشن کے خلاف بولنا حکومت کے خلاف بولنا اور کمیشن سے جواب مانگنا حکومت سے جواب مانگنا ہے۔ لہٰذا جس طرح وہ تمام ملکی مسائل پر اپوزیشن سے جواب مانگتا ہے اسی طرح اس نے اس معاملے پر بھی اپوزیشن سے جواب مانگنا شروع کر دیا ہے۔
بہرحال یہ صورت حال بہت سنگین ہے اور نہ صرف جمہوریت کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے خطرناک ہے۔ اگر آئینی ادارے قوانین و ضوابط کے اندر رہ کر اپنا فریضہ انجام نہ دیں تو یہی ہوتا ہے جو اس وقت ہو رہا ہے۔ آئینی اداروں کو نہ تو حکومت کا حاشیہ بردار ہونا چاہیے اور نہ ہی اپوزیشن کا۔ حالانکہ پہلے بھی انتخابی دھاندلیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن وہ چھوٹے موٹے الزامات تھے۔ ایسے بھیانک الزامات اور وہ بھی ثبوتوں کے ساتھ کبھی نہیں لگائے گئے تھے۔ اگر اس صورت حال کو سنبھالا نہیں گیا تو اس ملک سے جمہوریت کا مکمل طور پر جنازہ نکل جائے گا۔ ابھی کچھ لاج بچی ہوئی ہے۔ سیاست دانوں کو چاہیے اور عوام کو بھی کہ وہ جمہوریت کی لاج بچائیں ورنہ ہندوستان کی عالمی سطح پر ایسی بدنامی ہوگی کہ چہرہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔