راہی معصوم رضا اور اردو

آج (یکم ستمبر) راہی معصوم رضا کی سالگرہ ہے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ راہی اردو کے مشہور اور مایہ ناز شاعر تھے لیکن اردو والوں نے ان کی ناول نگاری کو کوئی اہمیت نہیں دی

<div class="paragraphs"><p>راہی معصوم رضا / سوشل میڈیا</p></div>

راہی معصوم رضا / سوشل میڈیا

user

ویریندر یادو

آج (یکم ستمبر) راہی معصوم رضا کی سالگرہ ہے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ راہی اردو کے مشہور اور مایہ ناز شاعر تھے لیکن اردو والوں نے ان کی ناول نگاری کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے عارضی استاد تھے۔ جب کمیٹی ان کی تصدیق کے لیے بیٹھی تو اسے متفقہ طور پر اس بنیاد پر مسترد کر دیا گیا کہ وہ ادب کو نہیں سمجھتے۔ اس سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر آلِ احمد سرور  تھے جو شعبہ اردو کے سربراہ بھی تھے۔

درحقیقت ان کے منتخب نہ ہونے کی بڑی وجہ نواب رام پور کے داماد کرنل یونس کی اہلیہ نیئر جہاں کے ساتھ ان کی محبت کی شادی تھی۔ اسی وجہ سے اشرافیہ سے لے کر اردو ادب اور مسلم معاشرہ کے ترقی پسندوں تک سب ان کے مخالف تھے۔ یہاں تک کہ ناول 'آدھا گاؤں' جو کہ اصل میں فارسی رسم الخط میں لکھا گیا تھا، اردو میں شائع نہیں ہوا تھا بلکہ اسے ترجمہ کرکے پہلی بار ہندی میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کا انگریزی سمیت کئی دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا لیکن اسے اردو میں اسے 38 سال بعد یعنی 2003 میں کلکتہ کے ایک پبلیکیشن نے ہندی ادیبوں کے تعاون سے شائع کیا۔


راہی نے 'آدھا گاؤں' میں مسلم اشرافیہ کے معاشرے پر جس طرح تنقید کی ہے، وہ اردو ادبی اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔

اس بارے میں میرا بھی ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ میں نے 2001 میں 'آدھا گاؤں' پر ایک تفصیلی تنقیدی مضمون لکھا تھا، جس میں اتفاق سے 'آگ کا دریا'، 'اُداس نسلیں اور 'چھاکو کی واپسی' سے بھی موازنہ کیا گیا تھا۔ ساجد رشید (مرحوم) اس مضمون کو ممبئی سے شائع ہونے والے ان کے اردو ادبی رسالے 'نیا ورق' میں ترجمہ کر کے شائع کروانا چاہتے تھے۔ ہمارے لکھنؤ میں مقیم اردو ادب کے دوست وقار ناصری اس کے لیے بخوشی تیار تھے۔ اس سے قبل انہوں نے 'گودان' پر میرے مضمون کا 'نیا ورق' کے لیے ترجمہ بھی کیا تھا۔

وقار نے 'تدبھو' کی وہ کاپی مجھ سے لے لی، لیکن اگلے ہی دن وہ میرے دفتر پہنچنے سے پہلے ہی نظر آ گئے۔ بہت غصے میں میگزین واپس کرتے ہوئے انہوں نے سرزنش کی کہ 'آگ کا دریا' کا 'آدھا گاؤں' سے موازنہ کرنا تقریباً توہین رسالت کے مترادف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'آپ ہندی والوں کے لیے ایک عظیم ناول نگار ہوں گے، لیکن اردو ادب میں آپ کا بحیثیت ناول نگار کوئی مقام نہیں ہے۔'


میں یہ سب سن کر چونک گیا۔ بعد میں وہ مضمون ساجد رشید نے کانپور کے ایک دوست سے ترجمہ کروا کر شائع کیا۔ پھر مجھے یہ بھی یاد آیا کہ ہندی والوں نے بھی فحاشی کے الزام میں جودھ پور اور مراٹھواڑ یونیورسٹی کے نصاب سے 'آدھا گاؤں' کو نکال دیا تھا اور انہیں ساہتیہ اکادمی سمان کی فہرست سے بھی خارج کر دیا گیا تھا۔ درحقیقت راہی کو زندگی بھر اپنی عزت نفس اور عزم کی قیمت چکانی پڑی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔