ربیع الاول: رحمت اللعالمین کی ولادت
ربیع الاول اسلامی تاریخ کے اہم ترین مہینوں میں سے ایک ہے، کیونکہ اس مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت انسانیت کو نصیب ہوئی

ربیع الاول اسلامی یا حجری کیلنڈر کا تیسرا مہینہ ہے جو محرم اور صفر کے بعد آتا ہے۔ ربیع الاول کا مطلب ہے ’پہلا مہینہ یا بہار کا آغاز‘، جو قبل از اسلام عربی کلینڈرمیں اس کی حیثیت کا حوالہ دیتا ہے۔ لیکن آج ’ پہلی بہار‘ کا کوئی معنی نہیں ہے، کیونکہ اسلامی کیلنڈر شمسی موسموں کے بجائے چاند کی پیروی کرتا ہے۔
ربیع الاول مسلمانوں کے لیے اہم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ربیع الاول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجنے اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لے جانے کے لیے منتخب کیا۔ قمری کیلنڈر کے بارہ مہینوں میں سے، اللہ تعالیٰ نے صرف ربیع الاول کو اس طرح بابرکت کیا۔ اسی مہینے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی اور یوں اس واقعہ سے اسلامی کیلنڈر کی تاریخ شروع ہوئی۔ رمضان یا ذوالحجہ کے مہینوں کے برعکس، ربیع الاول کے دوران روزہ رکھنے، نماز پڑھنے یا دعا کرنے کی کوئی خاص سفارش نہیں ہے۔ تاہم، اس مہینے کے دوران پیش آنے والے واقعات اسے خاص طور پر بابرکت بنا دیتے ہیں۔
ربیع الاول اسلامی تاریخ کے اہم ترین مہینوں میں سے ایک ہے، کیونکہ اس مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت انسانیت کو نصیب ہوئی۔ آپؐ نے دنیا کی رہنمائی کی - ارشاد ربانی ہے:’اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا‘ (قرآن:21:107)
اللہ عزوجل کی عظیم ترین رحمت،فضل اور نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما کر خالق کائنات نے خود مومنین پر اس احسان عظیم کو جتایا ہے۔سورۃ والضحیٰ میں ہے،’اور اپنے رب تعالیٰ کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے پیر کے دن مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، اگرچہ صحیح تاریخ کے بارے میں روایات میں اختلاف ہے۔ بہت سی روایات میں 12ویں تاریخ ہے، لیکن دیگر نے 8ویں اور 17ویں کے درمیان مختلف تاریخیں بیان کی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد ایسے معجزات رونما ہو رہے تھے ۔ مؤرخ محمد بن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ ہمارے پیارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت آپؐ کو زمین پر رکھا گیا تو آپؐ نے اللہ کو سجدہ کیا۔ اس زمانے میں مکہ کے رواج کے مطابق عورتوں نے شیر خوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کھانا پکانے کا برتن رکھ دیا لیکن وہ برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو گیا اور عورتوں نے آپؐ کو زمین پر لیٹے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے پر سکون دیکھا۔
آپؐ کی ولادت کے ایک ہفتہ بعد ہونے والی دعوت کے دوران قریش نے آپ کے دادا عبد المطلب ابن ہاشم سے نومولود کے نام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ نومولود کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوگا ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دادا کو یہ نام منتخب کرنے کے لیے الہام ہوا تھا۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، آپؐ کی خوبصورتی اور فضیلت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ نبوت سے بہت پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہم عصروں میں خاص تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ ایسا تھا جو آپ ؐ کے جاننے والوں کے لیے مسحور کن تھا۔ واقعی ہماری زبان ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و کردار کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتی، آخر کسی کو ایسے الفاظ کیسے ملیں گے جس کی تعریف اللہ تعلیٰ نے اپنی کتاب میں کی ہے، ’اور بے شک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں‘ (قرآن، سورۃ القلم، 68:4)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور شرافت آپ کے وجود کے لیے مستقل، متاثر کن اور باطنی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آپؐ کے بارے میں یہی کہتے، ’ جب لڑائی میں شدت آتی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ڈھال بنا لیتے‘۔لوگوں کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر ایمان تھا کہ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کو آپؐ کی خدمت کی تلقین کرتے تھے۔وہ کہتے تھے، ’اگر تم اپنی دولت کو حفاظت کے لیے سونپنا چاہتے ہو تو اس امانت دار، دیانت دار آدمی کے سپرد کر دو، کیونکہ وہ اسے کبھی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اگر تم کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہو جو کبھی جھوٹ نہ بولے اور کبھی بات نہ توڑے تو سیدھے محمدؐ کے پاس جاؤ کیونکہ آپ ؐجو کچھ کہتے ہیں وہ سچ ہے‘۔
سیرت مبارکہ کے چند روشن پہلو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پر توکل کرتے تھے۔ آپؐ کے اللہ پر توکل اور ایمان کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپؐ نے ناکامیوں، مزاحمتوں، طعنوں اور کفر کے باوجود اپنے مشن پر توجہ مرکوز رکھی۔ آپؐ اپنے مشن پر ثابت قدم رہے۔ آپؐ پر امید اور ذہین تھے، آپؐ نے صحابہ کے لیے دعا کی اور اللہ کے احکامات پر عمل کیا اور ہر کسی کو پیغام پہنچایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم قابل اعتماد، دیانت دار اور مخلص تھے– اپنے خاندان، اپنے صحابیوں، اپنی برادری اور ہمارے ساتھ۔ آپؐ ہم سے بہت محبت کرتے تھےاور آپؐ کا مبارک دل رحمت سے لبریز تھا۔ کوئی بھی کسی سے اس طرح محبت نہیں کرتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے محبت کی اور ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر ایک سے زیادہ محبت نہ کریں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے لیے رحمت تھے – آپؐ کا عمدہ اخلاق، غور و فکر، ہمدردی اور زندگی – جس کے ساتھ آپؐ نے ہمیں اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا راستہ دکھایا۔
ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں، آپؐ کے مشن کو جاری رکھیں اور آخرت میں آپؐ کے ساتھ مل جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایسی بے مثال محبت کی کہ ہمارے لیے اپنی آخری دعا محفوظ کر لی، ’ ہر نبی کے لیے ایک دعا ضرور ہوتی ہے جو اللہ کی طرف سے پوری ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اگر اللہ نے چاہا تو میری اس (خصوصی) دعا کو قیامت کے دن میرے امتیوں کی شفاعت کے طور پر برقرار رکھے‘۔(بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کبھی نہیں بھولے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز میں ہمارے لیے دعا فرمائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک دن) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت اچھے موڈ میں دیکھا تو میں نے آپ ؐسے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کریں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے دعا کی) ’اے اللہ عائشہ کی تمام سابقہ اور آئندہ کوتاہیاں، ظاہری اور باطنی تمام کوتاہیوں کو معاف فرما‘۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں مسکرائی، اتنی خوشی ہوئی اور اس حد تک ہنسی کہ میرا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں گر گیا۔ تو آپؐ نے کہا: کیا تم میری دعا سے خوش ہو؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا، ’اور میں آپ ؐکی دعا سے کیسے خوش نہ ہوں؟‘ پھر فرمایا: اللہ کی قسم، یہ ایک دعا ہے جو میں ہر نماز میں اپنی امت کے لیے کرتا ہوں۔ (صحیح ابن حبان)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین اسلام سے نوازنے کے لیے چنا پھر اس نے ہمیں قرآن کے ذریعے رہنمائی دی اور اپنی رحمت کے ذریعے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر بہترین طریقے سے زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجاننا، آپؐ کی زندگی کو جاننا اور آپؐ کی تعلیمات اور طریقوں پر عمل کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ آئیے ہم سب سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سیکھنے اور آپؐ کی سنت پر عمل کرنےکا عزم کریں ۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔