طلاق ثلاثہ: مولانا رابع ندوی کی قیادت پر بڑا سوال!

طلاق ثلاثہ سے متعلق بل کی منظوری کے بعد پرسنل لاء بورڈ کے صدرمولانا رابع ندوی کی قیادت پر بڑا سوال کھڑا ہو گیا ہے

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

سید خرم رضا

یہ تو ہونا ہی تھا ،جس طرح سے مرکزی حکومت ہر محاذ پر ناکام نظر آ رہی ہے اور عوام کو راحت پہنچانے کے نام پر کچھ نہیں کرتی دکھائ دے رہی تو عوام کو کوئی ایسا نشہ تو دینا ہی تھا جس سے بیچارے عوام اچھے دن کی بات کرنا بھول جائیں اور اپنی پریشانیوں کی جگہ وہ طلاق ثلاثہ پر بات کریں اس پر حکومت کے ذریعہ بنائے گئے بل کی بات کریں ، وہ یہ بات کریں کہ رام مندر کب بن رہا ہے ، وہ یہ بات کریں ملک میں گائے محفوظ ہے یا نہیں ۔ عوام کو ملک کی عظمت اور اپنی حب الوطنی کی قسم ہے جو وہ کبھی اچھے دن کی بات کرے، انسانوں کی جانوں کی حفاظت کی بات کرے ۔

پاکستان ہماری ماں اور بہن کو اپنے ملک میں بلا کر بے عزتی کر رہا ہے اور ہم پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ سے متعلق بل پر بات کر رہے ہیں ۔ ملک کی معیشت انتہائی خراب دور سے گزر رہی ہے اور ہم مسلم خواتین کے تحفظ کی سیاست کر رہے ہیں ، لوگ گائے کی حفاظت کے نام پر اپنے ہم وطنوں کو مار رہے ہیں اورہم فرقہ پرستی کی سیاست کو ہوا دے رہے ہیں ۔ کیا ہم اقتدار میں بنے رہنے کی سیاست کے لئے ملک کے بنیادی مدوں سے سمجھوتے کرتے رہیں گے۔

آج جب لوک سبھا میں یہ بل منظور ہو گیا ہے اور تمام ترمیمات اور مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون بنائے جانے کی جانب حکومت نے بڑا فیصلہ لے لیا ہے تو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کو بھی ایک فیصلہ لے لینا چاہئے ، ان کو بھی فورا سےپیشتر بورڈ کی صدارت سے مستعفی ہو جانا چاہئے کیونکہ یہ ان کی قیادت پر بڑا سوال ہے کہ ملک اور ملت کی زندگی میں یہ دن آج کیوں آیا ۔ انہوں نے ملت کے مسائل کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا ۔ انہوں ملت میں اتفاق رائے پیدا کر کے طلاق ثلاثہ کو بی جے پی کا ایک ہتھیار کیوں بننے دیا ۔ آج ان کی قیادت میں بورڈ کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوتا ہے اور اس میں آدھے ارکان بھی شرکت نہیں کرتے۔ جن ارکان نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی کیا انہیں اس تنظیم کا رکن بنے رہنے کا حق ہے کہ ایک ملت کو اتنا بڑا سنگین مسئلہ درپیش ہو اور ان کو اس پر غور کرنے کے لئے وقت نہ ہو۔ ملت کے مسائل کے تئیں یہ غیر سنجیدگی ہی ہے کہ آج نہ تو ملت پوچھ رہی ہے ، نہ ہی حکومت اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ۔ آپ کی آج کوئی وقعت نہیں رہی ہے ۔مولانا رابع حسنی ندوی کو اس سارے معاملے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہئے ۔ قیادت وہ ہوتی ہے جس کی نظریں مستقبل پر ہوں جو آگے راستہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو نہ کہ وہ جو بل کے ایوان میں پیش ہونےسے دو روز قبل ایک رسم ادا کرے اور وزیر اعظم کو ایک مکتوب بھیج دے ۔خدا کے واسطے اب اپنی کمیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے شعوری یا لا شعوری طور پر قوم کو سڑکوں پر اتار کر فرقہ پرست قوتوں کو مضبوط مت کرئے گا۔

اچھا ہوگا کہ حکومت ملک کی ترقی کی سیاست کرے نہ کہ اقتدار کے لئے فرقہ پرستی کی سیاست۔ مسلم قیادت فرقہ پرستوں کا ہتھیار بننے کے بجائے مسلم سماج میں اصلاحات اور ترقی کی فکر کرے ۔ اگر دونوں کی توجہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے ہٹ گئی تو ملک اور قومیں تاریخ بن جائیں گی ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Dec 2017, 8:09 AM