پا ئتھاگورس: ریاضی کا پہلا سنہری دور
مشہور یونانی فلسفی افلاطون سقراط کے شاگرد تھے اور ارسطو کے استاد تھے، انہوں نے یونان کے سب سے مشہور تہذیب کے اہم مرکز، ایتھنز میں پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی

علامتی تصویر
پا ئتھاگورس کی اپنی کوئی کتاب نہیں بچی اور اس کی زندگی میں نہ ہی اس کے کسی شاگرد نے اس کی سوانح حیات لکھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی زندگی کے حالات شک اور شبہات سے بھرپور ہیں اور اس کی زندگی کا صرف ایک دھندلا خاکہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔
مشہور یونانی فلسفی افلاطون (Plato) سقراط کے شاگرد تھے اور ارسطو (Aristotle) کے استاد تھے، انہوں نے یونان کے سب سے مشہور تہذیب کے اہم مرکز، ایتھنز میں پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ ان فلسفیوں پر پائتھاگورس کا بےحد اثر تھا اور ان کی کتابوں سے پائتھاگورس کی زندگی اور اس کے کارناموں کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
تیسری صدی قبل مسیح کے فلسفی اور عالم، جن پر افلاطون کا بےحد اثر تھا، اس وقت کے رواج کے مطابق کوئی بھی کہانی جس کا تعلق خدا یا مذہب سے ہو، بنا کسی بحث کے سچ مان لی جاتی تھی۔ اب یہ سارے فلسفی نیوپلیٹونسٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان دانشوروں نے پائتھاگورس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں لکھیں؛ مثلاً یہ کہ پائتھاگورس یونانی دیوتا اپولو کا بیٹا تھا، اس کے جسم سے ایک خاص قسم کی روشنی نکلتی تھی، اس کا ایک پیر سونے کا تھا، اس کے پاس ایک خاص پرندہ (اباریس) سونے کے تیر پر ملنے آتا تھا اور وہ ایک ہی وقت میں کئی جگہوں پر دیکھا جاتا تھا۔
افلاطون، ارسطو اور سقراط سمیت کچھ اس وقت کے دانشوروں نے اپنی کتابوں میں پائتھاگورس کا ذکر کیا ہے لیکن سب سے زیادہ تفصیل سے ڈائیوگینز (جو شاید ارسطو کا شاگرد تھا) 412-323 قبل مسیح نے پائتھاگورس کی زندگی کے بارے میں لکھا ہے۔ بعد کے عالموں نے ان کتابوں کو بنیاد بنا کر ان میں اور حیرت انگیز کہانیوں کو شامل کر لیا۔ اگر ان میں سے آدھی باتوں کا بھی یقین کر لیا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ پائتھاگورس ایک حیرت انگیز شخصیت کا مالک تھا اور اس وقت تک کے ہر علم کا زبردست خزانہ۔
سن 300-400 قبل مسیح کے دوران کے سبھی عالم مانتے ہیں کہ پائتھاگورس یونان کے ساموس میں پیدا ہوا تھا، اس کے والد کا نام نیسارکوز تھا، جو جواہرات کا کافی مالدار تاجر تھا اور ماں کا نام پائتھیس تھا۔ اپولو کے مندر کی بڑی پجارن پائتھیا نے پیشگوئی کی تھی کہ پائتھائس کا ہونے والا بچہ بہت حسین، عقلمند، بڑا دانشور اور تمام انسانیت کے لیے کارآمد ہوگا۔ اس کی پیدائش کے سن کا قیاس 570 قبل مسیح ہے۔
پائتھاگورس کو موسیقی میں بہت دلچسپی تھی اور وہ لائر (یونان کا تاروں والا ساز) پر عظیم یونانی شاعر ہومر (ہومر کی دو شاہکار نظمیں ایلیڈ اور اوڈیسی مشہور ہیں) کی نظمیں گایا کرتا تھا۔
یہ کہانی مشہور ہے کہ ایک روز وہ بازار میں جب لوہار کے کارخانے کے قریب سے گزر رہا تھا، جہاں کئی کاریگر مختلف وزن کے ہتھوڑوں سے آگ کی بھٹی سے گرم لوہے کے ٹکڑوں کو پیٹ پیٹ کر طرح طرح کے اوزاروں کی شکل میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے، تو پائتھاگورس کو ان ہتھوڑوں کی آواز میں کانوں کو موسیقی جیسی ہم آہنگی محسوس ہوئی۔ وہ لوہار کے کارخانے میں اندر گیا اور ان ہتھوڑوں کو دیکھنے کے بعد ان کا وزن کروایا، تو اس نے پایا کہ صرف ان ہتھوڑوں کی آواز میں ہم آہنگی ہے جن کے وزن میں ایک خاص تناسب ہے اور جس ہتھوڑے کا وزن اس خاص تناسب کا نہیں تھا، اس کی آواز عجیب بھدی سنائی دیتی تھی۔ اس نے جب اور غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ تاروں والے موسیقی کے سازوں میں بھی تاروں کی لمبائی کا ان سے نکلنے والی آواز سے گہرا تعلق ہے، جس کو ریاضیات کے تناسب میں لکھا جا سکتا ہے۔ اس نے ان تناسبوں کو استعمال کر کے کئی نئے سُر ایجاد کیے۔ یہ ایک اہم دریافت تھی، جس نے موسیقی کی ریاضیات سے سمجھ کی بنیاد رکھی۔
ریاضیات اور سائنس کے علاوہ پائتھاگورس کے اہم کارناموں میں سب سے مشہور اس کا تھیورم (جو اب بھی ہر اسکول میں پڑھایا جاتا ہے)، موسیقی کی دھنوں کا علم، فلسفہ، روح کے ہمیشہ زندہ رہنے کا نظریہ، اوتار، فلکیات، جیومیٹری، زمین کا گول ہونا، تناسبوں کا علم، صبح اور شام کے سیارے زہرہ کی پہچان اور کائنات کی سمجھ میں نمبروں کی اہمیت شامل ہیں۔ اس کا ماننا تھا کہ سیاروں کا گھومنا بھی ریاضیات کے اصولوں کے تحت ہوتا ہے، جس سے موسیقی کی دھن نکلتی ہے، جس کو ہم نہیں سن سکتے اور ان کی گردش کو ریاضیات کی مساوات میں لکھا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد کے تمام یونانی فلسفیوں، خصوصاً افلاطون اور ارسطو پر پائتھاگورس کا بہت اثر تھا اور وہ سب پائتھاگورینس کہے جا سکتے ہیں۔
پائتھاگورس نے اس زمانے کے ہر علمی مرکز میں سیکھنے کی غرض سے سفر کیا۔ یہ کہانی بھی مشہور ہے کہ وہ ہندوستان اور انگلستان بھی گیا۔ تقریباً 535 قبل مسیح میں وہ مصر کے مندروں کے کاہنوں سے ان کی زبان، مذہبی رسومات، ریاضیات اور فلسفہ سیکھنے گیا۔ اس نے بعد میں جو اسکول قائم کیا، اس کے طور طریقوں پر مصر کے روایات کا بہت اثر تھا۔
دس سال بعد جب ایران نے مصر پر قبضہ کیا تو پائتھاگورس کو قیدی بنا کر بابل لے جایا گیا، جو اس وقت علم کا بہت اہم مرکز تھا۔ وہاں کے عالموں سے اس نے مذہبی رسومات کے علاوہ ریاضیات اور موسیقی میں مہارت حاصل کی۔ مختصراً، اس نے اس وقت کے ہر علم کو سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش کی۔
اس نے غور کیا کہ مصر اور بابل کے عالموں کو نمبروں کا استعمال کرنا خوب آتا ہے اور وہ خاص طور پر اسے تجارت کے حساب کتاب رکھنے میں اور خوبصورت مکانات، حویلیاں اور محل بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔
اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ریاضیات کے اصولوں کو استعمال کرکے نمبروں کے رشتوں اور فارمولوں کی صداقت کو ثابت کرنے میں گزارا۔ سبھی دانشوروں کا خیال ہے کہ اس کے نام سے منسوب تھیورم کا نتیجہ ہندوستان اور بابل کے فلسفیوں کو بہت پہلے سے معلوم تھا لیکن پائتھاگورس پہلا ریاضی دان تھا جس نے اس تھیورم کا ثبوت حاصل کیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔