پنجاب پر نشے کا شکنجہ: مجیٹھیا کی گرفتاری سنجیدہ اقدام یا سیاسی دکھاوا؟

پنجاب پر نشے کا شکنجہ اور گہرا ہوتا جا رہا ہے لیکن مجیٹھیا کی حالیہ گرفتاری کو سنجیدہ کارروائی کے بجائے انتخابی حکمتِ عملی اور علامتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو اعتماد پیدا نہیں کر پایا

<div class="paragraphs"><p>مجیٹھیا کو 14 روزہ عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے / تصویر آئی اے این ایس</p></div>

مجیٹھیا کو 14 روزہ عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے / تصویر آئی اے این ایس

user

ہرجندر

پنجاب کی المناک داستان میں حالیہ دنوں ہوئی بکرم سنگھ مجیٹھیا کی گرفتاری بظاہر ایک اہم موڑ دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے ریاست کی صورتحال میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا رہی۔ عام تاثر یہی ہے کہ بھگونت مان کی حکومت اس مقدمے کو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچا پائے گی۔

مجیٹھیا کو پہلی بار 2022 میں چرنجیت سنگھ چنی کی حکومت نے منشیات کی اسمگلنگ اور آمدنی سے زائد اثاثوں کے معاملے میں گرفتار کیا تھا لیکن جلد ہی ریاست میں انتخابات ہوئے اور عام آدمی پارٹی کی حکومت بن گئی۔ بھگونت مان وزیر اعلیٰ بنے اور توقعات تھیں کہ اس شخص کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوں گے، جسے نشانہ بناتے ہوئے پارٹی نے ریاست میں اپنی پوزیشن مضبوط کی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ صرف چند ماہ بعد اگست 2022 میں ہائی کورٹ نے مجیٹھیا کو ضمانت دے دی اور ریاستی حکومت سپریم کورٹ سے بھی اس ضمانت کو منسوخ نہ کروا سکی۔

یاد رہے کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے ہی عام آدمی پارٹی کے رہنما مجیٹھیا کو منشیات کے سرغنہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔ اروند کیجریوال، آشیش کھیتان اور سنجے سنگھ کے بیانات نے ماحول گرما دیا تھا لیکن جب مجیٹھیا عدالت پہنچے تو کیجریوال اور کھیتان نے معافی مانگ لی اور صرف سنجے سنگھ کے خلاف مقدمہ جاری رہا۔ اب جبکہ عام آدمی پارٹی دوبارہ مجیٹھیا کی گرفتاری کو لے کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، سوال یہ ہے کہ اس معاملے کو کتنی سنجیدگی سے لیا جائے؟

پنجاب میں جب بھی منشیات کے مسئلے کا ذکر ہوتا ہے، مجیٹھیا کا نام سامنے آتا ہے۔ یہ سلسلہ 2013 میں اس وقت شروع ہوا جب جگدیش بھولا نامی ایک شخص کو مصنوعی منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بھولا، جو ایک قومی سطح کا پہلوان اور پولیس کا ڈی ایس پی تھا، نے مجیٹھیا کا نام لیا۔ اس وقت پنجاب میں اکالی دل کی حکومت تھی اور مجیٹھیا سینئر وزیر تھے، لہٰذا معاملہ دب گیا۔


بعد ازاں مرکزی حکومت نے ای ڈی کو تحقیقات سونپی اور بھولا نے وہی بیان دہرا دیا۔ ای ڈی کو پتہ چلا کہ 540 کروڑ روپے مجیٹھیا خاندان کی کمپنی سرایا انڈسٹریز لمیٹڈ کو منتقل ہوئے۔ اس وقت ای ڈی کے ڈپٹی ڈائریکٹر نرنجن سنگھ نے دسمبر 2014 میں مجیٹھیا کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا لیکن تب تک مرکز میں نریندر مودی کی حکومت بن چکی تھی، جس میں اکالی دل بھی شامل تھا اور جنوری 2015 میں ان کا تبادلہ کولکاتا کر دیا گیا۔

بعد میں جب پنجاب میں کانگریس کی حکومت آئی، تو ابتدائی طور پر تحقیقات سست روی کا شکار رہیں۔ کیپٹن امریندر سنگھ کے دور میں پیش رفت نہ ہونے کے بعد چنی کی حکومت نے ڈی جی پی سدھارتھ چٹرجی کے تحت مقدمہ تیز کیا اور فروری 2022 میں مجیٹھیا کو گرفتار کیا گیا، مگر بھگونت مان کی حکومت ان کے خلاف ٹھوس شواہد اکٹھا نہ کر سکی اور وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔

اب ایک بار پھر مجیٹھیا کی گرفتاری ہوئی ہے لیکن اس بار الزام منشیات کا نہیں بلکہ آمدنی سے زیادہ اثاثوں کا ہے، جس کی تحقیقات ریاستی ویجیلنس بیورو کر رہا ہے۔ حالانکہ منشیات سے متعلق تفتیش ویجیلنس بیورو کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اس حقیقت نے اس کارروائی کی سنجیدگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

ماضی میں ای ڈی کے نرنجن سنگھ اور سابق ڈی جی پی سدھارتھ چٹرجی، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، دوبارہ سامنے آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مجیٹھیا کے خلاف شواہد کافی ہیں۔ پنجاب میں بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ اگر ایمانداری سے تفتیش ہو تو مجیٹھیا کو سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ ماننے کو کوئی تیار نہیں ہے کہ اُن کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثوں کا مقدمہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ مجیٹھیا خاندان کئی پشتوں سے پنجاب کے سب سے مالدار گھرانوں میں شمار ہوتا ہے۔ غیر منقسم پنجاب میں بھی ان کی گنتی وہاں کے سب سے بڑے زمینداروں میں ہوتی تھی۔ برطانوی حکومت نے تو انہیں ایک طرح سے راجاؤں کا درجہ دے رکھا تھا۔ اسی لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس خاندان کے کسی فرد کے خلاف آمدنی سے زیادہ اثاثوں کا مقدمہ چلانا ایک مذاق لگتا ہے۔


سیاسی منظرنامہ بھی دلچسپ ہے۔ اگرچہ اکالی دل اور بی جے پی الگ ہو چکے ہیں، مگر مرکز کی طرف سے مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے قیاس کیا جا رہا ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ پنجاب بی جے پی کے صدر سنیل جاکھڑ کے حالیہ بیانات اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

بھگونت مان حکومت نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنی ہی پارٹی کے کئی وزیروں اور اپوزیشن رہنماؤں پر مقدمے درج کیے، مگر کسی بھی کیس کو انجام تک نہ پہنچا سکی۔ کانگریس کے بھارت بھوشن آشو پر 2000 کروڑ روپے کے گھوٹالے کا الزام لگا، ای ڈی نے بھی تفتیش کی، گرفتاری ہوئی لیکن بعد میں عدالت نے ایف آئی آر کو خارج کر دیا اور آشو رہا ہو گئے۔

اس پس منظر میں مجیٹھیا کی حالیہ گرفتاری کو صرف ایک انتخابی چال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد ڈیڑھ سال بعد ہونے والے انتخابات کے لیے ماحول بنانا ہے، نہ کہ منشیات کے عفریت سے حقیقی جنگ۔

پنجاب میں منشیات کا جال مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ پی جی آئی چنڈی گڑھ کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 15.1 فیصد آبادی نشے کی لت میں مبتلا ہے، یعنی تقریباً 31 لاکھ لوگ باقاعدگی سے منشیات استعمال کرتے ہیں۔ خواتین نشے کے معاملے میں بھی ریاست کی حالت تشویشناک ہے اور ملک کی نشہ کرنے والی خواتین کا 16 فیصد پنجاب میں ہے۔ سرحدی علاقوں میں تو ایسے گھر جہاں کم از کم ایک فرد نشے کا عادی ہو، ان کی تعداد 80 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

ریاستی حکومت نے حال ہی میں ’یُدھ نشیاں دے خلاف‘ کے عنوان سے ایک مہم شروع کی ہے، مگر یہ زیادہ تر تشہیری مہم لگتی ہے، جس میں سنجیدگی کی کمی ہے۔


پنجاب میں اس وقت 70 سے زائد جرائم پیشہ گینگ سرگرم ہیں، جن کے منشیات سے روابط ہیں۔ ان میں جگو بھگوانپوریا گینگ حالیہ دنوں سب سے زیادہ زیر بحث رہا ہے۔ لارنس بشنوئی اور کوشل چودھری کے گروہ بھی وقتاً فوقتاً خبروں میں آتے رہے ہیں لیکن ریاستی حکومت کی جانب سے ان کے خلاف بھی کوئی واضح کارروائی نظر نہیں آتی۔

مجموعی طور پر پنجاب کو منشیات کے شکنجے سے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی، اور مجیٹھیا کی گرفتاری جیسے اقدامات محض سیاسی علامتیں بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔