پنجاب کے کسانوں کی روداد: گیلا دھان، امیدیں معدوم، منڈیوں میں نہ جگہ نہ قیمت!
شدید بارش اور منڈیوں میں جگہ کی کمی نے پنجاب و ہریانہ کے کسانوں کو دھان سستے داموں بیچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ نمی کے سخت معیار اور حکومتی بے حسی نے ان کی محنت کو نقصان میں بدل دیا ہے

ہریانہ کے سرسا ضلع کے کسان رن سنگھ یکم اکتوبر کو اپنی دھان کی فصل لے کر روڑی کی اناج منڈی پہنچے۔ دو دن تک ان کا نمبر ہی نہیں آیا۔ جب آخرکار ان کی باری آئی تو کہا گیا کہ دھان میں نمی زیادہ ہے، اسے سکھا کر لائیں۔ وہ منڈی کے ایک کونے میں ہی دھان سکھانے لگے۔ صبح دھوپ نکلنے پر دانے پھیلا دیتے اور شام ہوتے ہی بوریوں میں بھر لیتے۔ دن رات رکھوالی بھی کرنی پڑتی۔
چھ اکتوبر کو مغربی ہواؤں کی وجہ سے ہوئی موسلادھار بارش نے منڈی کو پانی سے بھر دیا۔ پانی اتنا بڑھ گیا کہ رن سنگھ کی بوریوں کا ایک چوتھائی حصہ ڈوب گیا۔ کچھ دھان وہیں سڑ گیا، باقی کا رنگ خراب ہو گیا۔ ایک ہی بارش نے ان کی ساری امیدیں تباہ و برباد ڈالیں۔
پنجاب کے مانسا ضلع کے کسان رہنما جسبیر سنگھ کے مطابق دھان میں نمی کی شکایت ہر سال ہوتی ہے، مگر اس سال بارش اور سیلاب نے حالات بدتر بنا دیے ہیں۔ ان کے بقول کھیتوں کی زمین ابھی تک گیلی ہے۔ کسان کٹائی کے بعد دھان براہِ راست بوریوں میں بھر کر منڈی لے جا رہے ہیں، جس سے نمی زیادہ ہے اور فصل مسترد کی جا رہی ہے۔
پنجاب کی منڈیوں میں اتنی گنجائش نہیں کہ وہاں دھان کو رکھا یا سکھایا جا سکے۔ فصل واپس لانا مہنگا پڑتا ہے اور کھیت بھی ابھی گیلی حالت میں ہیں۔ ایسے میں باہر کھڑے تاجر کم قیمت پر کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اس سال دھان کی کم از کم امدادی قیمت 2389 روپے فی کوئنٹل طے کی گئی ہے، مگر یوپی اور دیگر ریاستوں کی منڈیوں کے باہر تاجر کسانوں سے 1500 سے 1700 روپے فی کوئنٹل میں دھان خرید رہے ہیں۔ بھارتیہ کسان یونین کے رہنما دھرمیندر ملک نے اس غیر منصفانہ خرید پر پابندی کی مانگ کرتے ہوئے یوپی کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھا ہے، مگر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
ملک کے تقریباً تمام حصوں سے ایسی ہی خبریں آ رہی ہیں کہ کسان مجبوری میں کم قیمت پر اپنی فصل بیچ رہے ہیں جبکہ تاجر نمی کے بہانے منافع کما رہے ہیں۔
سرکاری خرید میں نمی ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ چونکہ دھان کی فصل برسات کے دوران تیار ہوتی ہے، اس لیے اس میں پانی کی مقدار زیادہ رہتی ہے۔ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) 17 فیصد سے زیادہ نمی والے دھان کو قبول نہیں کرتا۔ اس سے زیادہ ہونے پر فصل مسترد کر دی جاتی ہے یا کسانوں کو اسے سکھانے کا کہا جاتا ہے۔
کبھی کبھار قدرتی آفات کے سبب اس معیار میں نرمی دی جاتی ہے۔ پچھلے سال آندھرا پردیش میں 24 فیصد اور تمل ناڈو میں 22 فیصد تک نمی والے دھان کی خرید کی اجازت ملی تھی۔ اس سال بھی کئی ریاستوں نے یہی درخواست دی، مگر بیشتر کو رعایت نہیں ملی۔ تمل ناڈو نے تجویز دی کہ نَمی کی حد پورے ریاست میں ایک جیسی نہ رکھ کر ضلعوں کی حالت کے مطابق طے کی جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب، جو اس سال کی شدید بارش اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، اس کی طرف سے کوئی واضح مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے کسانوں کے نقصان کی تلافی کا وعدہ کیا تھا، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے کسان اپنی فصل اونے پونے داموں میں بیچنے پر مجبور ہیں۔
پنجاب میں اس سال کی تباہ کن بارشوں نے پانچ لاکھ ایکڑ رقبے کی فصل کو نقصان پہنچایا، جن میں سے تین لاکھ ایکڑ بالکل برباد ہو گئی۔ جہاں نقصان کچھ کم ہے، وہاں بھی کسان خسارے میں ہیں۔ دی ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق عام طور پر پنجاب میں فی ایکڑ 27 سے 32 کوئنٹل دھان پیدا ہوتا ہے، مگر اس سال پیداوار گھٹ کر 23 سے 25 کوئنٹل رہ گئی ہے۔ بعض علاقوں میں یہ صرف 20 کوئنٹل فی ایکڑ رہ گئی۔
یہ اعداد و شمار تب کے ہیں جب دھان میں نمی زیادہ ہے۔ اگر کسان اسے مزید سکھا کر تولیں گے تو ممکن ہے پیداوار اور بھی کم ہو جائے۔ کسان رہنما جسبیر سنگھ نے بھی تسلیم کیا کہ اس سال پیداوار میں 15 سے 20 فیصد کمی آئی ہے۔
یہ مسئلہ اُن کسانوں کے لیے بھی موجود ہے جو دھان کی باسمتی جیسی پریمیم اقسام کی کاشت کرتے ہیں اور اپنی فصل فروخت کرنے کے لیے سرکاری خریداری پر مکمل طور پر منحصر نہیں ہوتے۔ پنجاب میں باسمتی کی زیادہ تر کاشت راوی ندی کے کنارے والے علاقوں میں ہوتی ہے، جہاں اس سال سیلاب کی وجہ سے زیادہ تر فصل تباہ ہو گئی۔
باسمتی چاول کی پریمیم قسم پوسا-1509 کی کاشت کرنے والے بلجندر سنگھ جب اپنی فصل لے کر امرتسر کی منڈی پہنچے تو انہیں امید تھی کہ اس بار پیداوار کم ہونے کی وجہ سے انہیں مارکیٹ میں بہتر قیمت ملے گی۔ لیکن انہیں پچھلی بار کے مقابلے میں 800 روپے فی کوئنٹل کم قیمت پر اپنی فصل بیچنی پڑی۔ شاید اس سال پنجاب کے سیلاب نے طلب اور رسد کا اصول بھی متاثر کر دیا۔
مدھیہ پردیش کے کسان رہنما ڈاکٹر سنیلم کے مطابق، منڈیوں میں نمی کے بہانے جو کچھ ہو رہا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہاں ہر سال کسانوں کی فصل کو مسترد کرنے کے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں اور یہ تاجروں کے ساتھ افسران کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔
یہ بحران ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے کسان کس طرح قدرتی آفات اور ادارہ جاتی لاپروائی کے شکار ہیں۔ بے وقت بارش، سرکاری خریداری کے سخت معیار اور موقع پرست تاجر سب مل کر ان کی قسمت میں رخنہ ڈال رہے ہیں، جبکہ وہ اپنی فصل سے بڑی امیدیں لگائے منڈی میں پہنچتے ہیں۔ کیا فوڈ کارپوریشن اور دیگر سرکاری ادارے خود دھان سکھانے کا انتظام نہیں کر سکتے؟ یہی وجہ ہے کہ کسان مجبوراً اپنی فصل کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
کسانوں کے لیے ایسے نظام کی ضرورت ہے جو ایک طرف انہیں موسمی آفات سے بچائے اور دوسری طرف ان کے استحصال کو روکے۔ جب تک یہ نظام نہیں ہوگا، موسم کی ہر شدت نہ صرف فصلوں کے لیے خطرہ بنے گی بلکہ اسے اگانے والے کسانوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔