پنجاب کی سڑکوں کے موڑ اور مان حکومت کے یو ٹرن

پنجاب میں مان حکومت نے زمین پالیسی واپس لی، اکالی دل دو حصوں میں بٹ گیا اور سیلاب نے دیہات کو اجاڑ دیا۔ زمین، پانی اور سیاست کے یہ تین بحران ریاست کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈال رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>
i
user

ہرجندر

گزشتہ تین ماہ میں ہی پنجاب حکومت کی ’لینڈ پولنگ پالیسی‘ ایک ایسا قصہ بن گئی تھی جسے کسی منطقی انجام تک پہنچانا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہر طرف سے اس قدر شدید مخالفت سامنے آنے لگی کہ ریاستی حکومت کو بخوبی احساس ہو گیا کہ یہ پالیسی سیاسی طور پر اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسے میں جب پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے اس پالیسی پر عمل درآمد پر روک لگا دی تو حکومت کو یہ پالیسی واپس لینے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔

تین ماہ قبل یہ پالیسی بڑے زور و شور کے ساتھ اس وقت متعارف کرائی گئی تھی جب لدھیانہ مغرب کا ضمنی انتخاب جاری تھا۔ حکومت کا مقصد تھا کہ نئی رہائشی اسکیموں کے وعدوں کے ذریعے شہری ووٹروں کو اپنی طرف مائل کیا جائے۔ جو کسان اپنی زمین حکومت کو دیتے، ان کے لیے لمبے چوڑے وعدے بھی کیے گئے تھے۔

اس پالیسی کے تحت سب سے زیادہ زمین لدھیانہ میں ہی لی جانی تھی۔ حکومت نے کہا تھا کہ کسان اپنی مرضی سے زمین دینے کے لیے آزاد ہوں گے۔ زمین کی قیمت نقد دینے کے بجائے حکومت اس زمین کو ترقی یافتہ شکل دے کر واپس کرے گی۔ اگر کوئی کسان ایک ایکڑ زمین دیتا ہے تو بدلے میں حکومت اسے ایک ہزار مربع گز رہائشی اور دو سو مربع گز تجارتی زمین فراہم کرے گی۔ اگر زیادہ زمین دی جائے گی تو اسی حساب سے زیادہ زمین واپس ملے گی۔ جب تک زمین واپس نہ ملے، کسانوں کو تیس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا سالانہ گزارہ بھتہ بھی دیا جائے گا۔

پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ کانگریس، اکالی دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی سبھی اس کے خلاف ہو گئے۔ کانگریس نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے۔ سابق وزیراعلیٰ چرنجیت سنگھ چنّی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ پالیسی مرکز کے تین زرعی قوانین سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔


کسان تنظیمیں حکومت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن کر ابھریں۔ انہوں نے دھرنے دیے، ٹریکٹر مارچ نکالا اور دیہات کے داخلی راستوں پر تختیاں لگا دیں کہ ’’آپ‘‘ کے رہنماؤں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں تک کہ خود عام آدمی پارٹی کے کئی رہنماؤں نے بھی اس پالیسی کی مخالفت شروع کر دی، کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اسمبلی انتخابات ابھی ڈیڑھ سال دور ہیں اور یہ پالیسی ان کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

ایسی ہی ایک اسکیم 2008 میں اکالی دل کی حکومت نے بھی شروع کی تھی، جس کے حوالہ سے کسانوں کے تجربات خوشگوار نہیں رہے تھے۔ ان کی زمین تو لی گئی لیکن ترقی یافتہ زمین آج تک واپس نہیں ملی۔ اگرچہ وہ منصوبہ نسبتاً چھوٹا تھا، لیکن موجودہ حکومت کی پالیسی میں تقریباً 65,533 ایکڑ زمین لینے کی بات تھی جبکہ اکالی حکومت کی اسکیم میں صرف دو ہزار ایکڑ زمین شامل تھی۔

اس پالیسی میں شروع سے ہی کئی نقائص نمایاں تھے۔ ایک تو اس میں مرکز کے زمین حصول قانون کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ دوسرا، اس کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات پر کوئی مطالعہ نہیں کیا گیا تھا۔ تیسرا، شکایات کے ازالے کا بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا۔ انہی بنیادوں پر عدالت نے اس پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا۔

پنجاب کانگریس کے صدر اور رکن پارلیمان امرندر سنگھ وڑنگ نے پالیسی کی واپسی کو کسان تحریک کی جیت قرار دیا۔ اپوزیشن کا ماننا ہے کہ اس سے جو سیاسی بیانیہ بنا ہے، وہ اسمبلی انتخابات میں کام آئے گا۔ سوشل میڈیا پر سب سے دلچسپ تبصرہ یہ سامنے آیا: ’’پنجاب کی سڑکوں پر اتنے موڑ نہیں ہیں جتنے یو ٹرن بھگونت مان کی حکومت اب تک لے چکی ہے۔‘‘


پرانے سیاسی اتحاد کی تاریخی شکست

شیرومنی اکالی دل ایک بار پھر دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ اس تقسیم کی بنیاد چند ماہ پہلے ہی رکھ دی گئی تھی جب پارٹی کے اندر بغاوت کے نعرے بلند ہونے لگے تھے اور اکال تخت نے پارٹی کے ڈھانچے کی ازسر نو تشکیل کے لیے سات رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی کو نئے ارکان کی شمولیت اور نچلی سطح سے اوپر تک انتخابات کرانے کا اختیار دیا گیا تھا، اس لیے اسے ’بھرتی کمیٹی‘ کہا جانے لگا۔

اس دوران یہ تاثر پیدا ہوا کہ اکالی دل کے صدر سکھبیر سنگھ بادل کی پارٹی پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ انہیں اکال تخت کے سامنے بھی حاضر ہونا پڑا اور وہاں دی گئی سزا قبول کرنی پڑی۔ لیکن جلد ہی وہ اس جھٹکے سے نکل آئے اور دوبارہ سیاسی گرفت مضبوط کرنے لگے۔ شیرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) پر بھی انہوں نے اپنا دباؤ قائم کر لیا۔

بھرتی کمیٹی کے دو ارکان نے استعفیٰ دے دیا لیکن دسمبر میں بنی اس کمیٹی نے پارٹی کے لیے نئے ارکان کی شمولیت اور نچلی سطح پر انتخابات کرائے۔ اب جب نیا صدر منتخب کرنے کا وقت آیا تو کمیٹی نے ایس جی پی سی سے درخواست کی کہ تِیجا سنگھ سمدری ہال دیا جائے، جہاں عموماً پارٹی کی جنرل باڈی کے اجلاس ہوتے تھے۔ ایس جی پی سی نے بہانے بنا کر انکار کر دیا۔

یہ اجلاس بالآخر امرتسر کے گوردوارہ برج اکالی پھولا سنگھ میں ہوا جہاں جیسے ہی گیانی ہرپریت سنگھ کو پارٹی کا صدر منتخب کرنے کا اعلان ہوا، اکالی دل کی یہ تقسیم مکمل ہوگئی۔ گیانی ہرپریت سنگھ، جو فروری تک تَخت دمڈما صاحب کے جتھہ دار تھے، سکھبیر بادل کے قریبی سمجھے جاتے تھے لیکن ذاتی رویے کی شکایات پر انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔


اب نیا دھڑا دعویٰ کر رہا ہے کہ اصل اکالی دل وہی ہے اور وہ جلد ہی پارٹی ہیڈکوارٹر اور انتخابی نشان پر اپنا حق جتائے گا۔ ظاہر ہے کہ دونوں دھڑوں کی لڑائی اب الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں چلے گی۔

اکالی دل، جو ملک کی دوسری سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے، آج اپنے تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ ماضی میں کئی بار تقسیم ہوئی لیکن تب بھی وہ پنجاب کی بڑی طاقت تھی۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں وہ تیسرے نمبر پر پہنچ گئی اور 2024 کے عام انتخابات کے بعد چوتھے نمبر پر۔ بعض علاقوں میں تو نووارد جماعتیں جیسے ’وارث پنجاب دے‘ بھی اس سے زیادہ طاقتور دکھائی دیں۔ اب تازہ تقسیم کے بعد اس کی طاقت کتنی باقی رہے گی، یہ تو 2027 کے اسمبلی انتخابات میں ہی پتہ چلے گا۔

باندھ، نہریں اور پانی کی سیاست

پنجاب میں بارش اچھی خاصی ہوتی ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ بارش خود ہی بڑا مسئلہ بن جائے۔ اس کے باوجود ہر سال پنجاب کے بڑے حصے میں سیلاب آتا ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ ہماچل اور کشمیر کی پہاڑیوں سے اترنے والی ندیاں اور نالے ہیں۔ یہی پانی جب نہروں کے ذریعے زرعی علاقوں میں جاتا ہے تو دور دراز دیہات میں بھی سیلاب لے آتا ہے۔ دوسرا بڑا سبب ہے رنجیت ساگر، بھاکڑا، پونگ اور کئی چھوٹے بڑے باندھوں سے چھوڑا گیا پانی جو اچانک گاؤں اور قصبے ڈبو دیتا ہے۔


اس وقت پنجاب کے تقریباً ہر ضلع میں درجنوں گاؤں زیر آب ہیں۔ ’دی ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، مختصر ضلع کا اڈیکرن گاؤں گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل ڈوبا ہوا ہے۔ کئی اور گاؤں کا بھی یہی حال ہے۔ دھان کی فصل مکمل طور پر برباد ہو چکی ہے اور عوامی زندگی تباہ حال ہے۔

یہ صورتحال تقریباً ہر سال دہرائی جاتی ہے لیکن پانی کے انتظام کی کوئی مستقل پالیسی ابھی تک نہیں بن سکی۔ ماہرین ایک حل یہ بتاتے ہیں کہ تمام بڑی ندیوں کے بیسن کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم کیا جائے۔ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ندیوں کو گہرا اور چوڑا کیا جائے تاکہ پانی باہر کم نکلے۔ لیکن ہریانہ اس تجویز کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ سیلاب تو صرف دو مہینوں کا مسئلہ ہے، اس کے بعد پنجاب کے پاس زیادہ پانی بچ جائے گا اور ہریانہ کو کم حصہ ملے گا۔ یوں پانی کی تقسیم پر جو سیاست سال بھر جاری رہتی ہے، انہی دو مہینوں میں اس کا خمیازہ براہِ راست پنجاب کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔