ہجوم کی حکمرانی سے جمہوریت کو بچانے کی ضرورت...میناکشی نٹراجن
ہندوستانی جمہوریت کو ہجوم کی حکمرانی سے خطرہ لاحق ہے۔ عوامی شعور بیدار رکھنا ضروری ہے تاکہ طاقتور طبقات اور سرمایہ دارانہ اثر و رسوخ کے ذریعے جمہوری اقدار کو کمزور نہ کیا جا سکے

علامتی تصویر / اے آئی
ہندوستان نے اپنا 75واں یوم جمہوریہ منایا۔ آخر ہمارے جمہوریت کے معمار کیا سوچ رہے تھے؟ وہ ایک ایسے وقت میں آئین کی تشکیل میں مصروف تھے جب دنیا بھر میں تشدد، جنگ اور نفرت کا دور تھا۔
تب آئین ساز اسمبلی ایک نئی قوم-ریاست کی بنیاد رکھنے کا خاکہ تیار کر رہی تھی۔ آئین کے ہر صفحے میں یہی سوال درج تھا کہ ہندوستان کس کا ہوگا؟ کیا یہ صرف اکثریتی طبقے کا ہوگا؟ کیا یہ کسی غالب ذات، طبقے، خطے، نسل یا جنس کا ہوگا؟ کیا ہندوستان صرف زیادہ تر لوگوں کی خوشی کے اصول پر چلے گا، یا پھر وہ اس اصول کو اپنائے گا جس میں آخری صف میں کھڑے آخری فرد کے آنسو پونچھے جا سکیں اور اسے محسوس ہو کہ وہ بھی ملک کی تعمیر میں شریک ہے؟
اگر ہمیں ایسا ہندوستان بنانا ہے تو پھر آئین کیسا ہونا چاہیے؟ ہم ایک خودمختار قومی ریاست ہیں۔ ہمیں کسی کی حکمرانی قبول نہیں۔ نہ ہی آمریت کی دوڑ میں شامل کسی بڑے ملک کی جغرافیائی تجاوزات گوارا ہیں، اور نہ ہی کسی مخصوص طبقے کی برتری قابل قبول ہے۔ چند سرمایہ داروں کی اجارہ داری، اقتصادی غلامی، ثقافتی سخت گیری، جنس کی بنیاد پر برتری کا دباؤ، یا غالب ذاتوں کا دیگر طبقات پر تسلط اور ان کے طرز زندگی کو مسترد کرنا بھی ہمارے آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ آئین ساز کمیٹی کے صدر کی آخری تقریر آج کے حالات میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یورپ میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف سرمایہ داری کے آغاز کا مقصد عام لوگوں کو سرمایہ کاری کے مواقع دے کر انہیں اقتصادی آزادی دینا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے لگام بازار نے کمزور طبقات کو مزید بے بس بنا دیا۔ اسی کا ردعمل سوشلسٹ نظریے کی صورت میں ابھرا۔ ہمارے ملک نے سرمایہ دارانہ اجارہ داری کے خطرے کو بھانپتے ہوئے باضابطہ طور پر سوشلزم کو آئین میں شامل کیا۔
اسی پس منظر میں سیکولرازم بھی آیا۔ جب یورپ میں پوپ اور چرچ کے اقتدار نے سیاسی طاقت کو چیلنج کیا تو ریاستی حکمرانی کو مذہبی تسلط سے الگ کیا گیا۔ سرمایہ، ریاستی اقتدار اور چرچ کی انتظامی طاقت ایک دوسرے پر نظر رکھتی تھیں۔ آخرکار، بادشاہت کو چیلنج کیا گیا اور میگنا کارٹا کے ذریعے جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد مقامی راجاؤں اور زمینداروں کے نظام کو ختم کر کے مضبوط جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی۔
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ اگر اقتصادی اور سماجی مساوات قائم نہ ہوئی تو صرف ہر شہری کو ووٹ دینے کا حق دینا جمہوریت کے تحفظ کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
اگر چند سرمایہ داروں کے پاس انتخابات پر اثر انداز ہونے والے ذرائع ابلاغ کا کنٹرول ہوگا، تو چاہے وہ خود ووٹ نہ بھی دیں، وہ اپنے مفاد میں کام کرنے والی نظریاتی طاقت کو انتخابی کامیابی دلوا سکتے ہیں۔
جمہوری نظام کی بنیاد عوام ہیں۔ ان کی اجتماعی بیداری اور فطری شعور جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اگر عوام کو بے حس کر دیا جائے تو انہیں ہجوم میں تبدیل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ آزادی کی جدوجہد اسی لیے تھی کہ عوام کو بیدار رکھا جائے تاکہ وہ ہجوم نہ بنیں۔ ہجوم میں بدل جانے والا احتجاج صرف انتقام بن کر رہ جاتا ہے۔ گاندھی جی نے بھی جب چوری چورا واقعہ دیکھا تو فوراً عدم تعاون تحریک روک دی کیونکہ ہندوستان کو جمہوریت بننا تھا، ہجوم کی حکمرانی نہیں۔
لیکن آج دنیا بھر کے جمہوری ممالک عوام کو ہجوم بنانے میں لگے ہیں۔ سنسنی خیز پروپیگنڈے کے ذریعے انہیں ہجوم میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ اجارہ داری اور سیاسی اقتدار کا گٹھ جوڑ عوامی شعور کو مفلوج کر رہا ہے۔ ہر واقعہ کو سنسنی اور تفریح میں بدل دیا جاتا ہے۔
آج ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر قوم پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ قوم نہیں بلکہ ہجوم بنانے کی کوشش ہے۔ جہاں عوامی شعور ختم کر کے انہیں کنٹرول کیا جا سکے۔ جہاں بغیر سوال کیے حکم ماننے کو حب الوطنی سمجھا جائے۔ جہاں ظلم سہنا تقدیر مانا جائے اور جہاں صنفی اور سماجی ناانصافی کو ثقافت کہا جائے۔
طاقت کے حد سے زیادہ ارتکاز سے اقلیتوں اور کمزور طبقات کے خلاف جبر بڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی نے چھوٹے چھوٹے دیہاتی جمہوری نظام کی حمایت کی تاکہ جمہوریت کو مقامی سطح پر مضبوط رکھا جا سکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو قومی ریاست ہجوم کی ریاست میں بدل جائے گی۔
جمہوری ریاست کا نیا ماڈل ایسا ہونا چاہیے جہاں عوام کی اجتماعی بیداری اور سماجی ہم آہنگی ہو۔ آج فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جمہوریت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں عوامی شعور نہایت ضروری ہے۔ اگر عوامی شعور ختم ہو جائے تو پھر وہ محض سنسنی، سستی تفریح اور ہجوم کی ذہنیت کا شکار ہو جائیں گے۔
بیداری ایک فطری چیز ہے، اور جب ایک بار شعور بیدار ہو جائے تو اسے دبانا مشکل ہوتا ہے۔ یہی فطری بیداری ہمیں دوبارہ حقیقی جمہوری بنا سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔